• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ہی آنگن میں نئی اور پرانی نسل شیر و شکر ہو کر عید قرباں میں مصروف

روبینہ یوسف

’’عید الاضحی‘‘ اسلام کا ایک اہم مذہبی اور ملّی تہوار ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کی عظیم قربانی کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اس دن مسلمان اللہ کی رضا کے لیے جانور قربان کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح بقرہ عید کے انداز و اطوار میں بھی نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ 

نیت اور خلوص کا رنگ اب نمایاں نہیں رہا۔ پہلے کی عیدیں اللہ کی رضا کی خاطر غرباء و مساکین میں گوشت بانٹنے کی خوبصورت مثال تھی۔ جب کہ آج کل زیادہ تر گھرانے قربانی کے گوشت سے اپنے اپنے فریزرز اور ڈیپ فریزرز بھر لیتے ہیں۔

مہنگے سے مہنگا جانورا سٹیٹس سمبل بن چکا ہے۔ ناک اونچی رکھنے کے لیے قربانی کی جاتی ہے۔ اصل مدعا فوت ہو چکا ہے۔ جانوروں کی نمائش، مہنگائی اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑنے نمود و نمائش اور مقابلے کی فضا کو جنم دے دیا ہے۔ ایک زمانے میں گھر کے مرد حضرات مل جل کر قربانی کا جانور ذبح کرتے تھے۔ گوشت بنانے اور تقسیم کرنے میں سب شریک ہوتے تھے۔

کھلے میدان اور چوڑی گلیاں اب خواب ہوتی جا رہی ہیں۔ فلیٹ سسٹم نے زندگی کو ایک نیا تمدن دیا ہے۔ پہلے قربانی سے کچھ دن پہلے جانور لا کر اس کی خدمت کر کے انسیت اور لگاؤ پیدا کیا جاتا تھا۔ اب جذبات کی نایابی اور جگہ کی کمیابی کے باعث اجتماعی قربانی کا کلچر زور پکڑ چکا ہے۔ قربانی کا مقصد سماجی میل جول بھی تھا۔ 

اب زندگی کی تیز رفتاری، ٹیکنالوجی اور مصروفیت نے سماج کی بنیادوں کو کمزور کر دیا ہے۔ نئے اور پرانے کے تناظر میں بڑے بوڑھوں اور نئی نسل کے خلاف ہمیشہ ایک چپقلش ہی چلتی رہتی ہے۔ پرانے لوگ اپنے دور کو زندگی کا عہد زریں قرار دیتے تھے اور آج کل ہر بات میں انہیں عیب ہی عیب نظر آتے ہیں۔ 

پہلے تہذیب و معاشرت کا اسی لیے پلہ بھاری تھا کہ میڈیا نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ صنعت و حرفت کے میدان میں نت نئی ایجادات نہیں ہوئی تھیں۔ آبادی اس قدر نہ تھی۔ کھانا پکانے کی ہی مثال کو لے لیجئے۔ آج کل پیکٹ مسالوں کا چلن عام ہے۔ گھروں میں پہلے ثابت لال مرچیں، ثابت دھنیا، نمک کے بڑے بڑے ڈلے، ہلدی کی گانٹھیں یہ سب مسالے ہاون دستے میں کوٹ کر تیار کیے جاتے تھے۔ ابوقت میں برکت نہیں رہی۔ 

شوہر کے ساتھ ساتھ بیوی بھی ملازمت کر کے اس کمر توڑ مہنگائی کا مقابلہ کر رہی ہے۔ پہلے کے لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس زمانے کے شوہر بیویوں کو چوڑیاں خود پہناتے تھے۔ ساسیں ماؤں کا دوسرا رخ ہوتی تھیں۔ لڑکوں کی مائیں، بہویں کو لا کر سمجھتی ہیں کہ ان کو گھر گرہستی کے منظر نامے سے ریٹائر کر دیا گیا ہے جب کہ وہ اب سپروائزر کے عہدے پر فائز ہو گئی ہیں۔

عید کے گوشت سے اگر بہوئیں بیٹیاں نئے کھانے بناتی ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ کباب رول، چکن تکہ پیزا، نان مرغ مسالہ ٹاکو، مٹن نہاری، پائے، زعفرانی شیر خرما، سوشی رولز قیمہ، دیسی قورمہ پاستا، بریانی، قیمہ یہ وہ منفرد ڈشز ہیں جو تیار کرنے میں آسان اور کھانے میں صحت بخش اور لذیذ ہیں۔ عید قرباں کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے اب اس بات کی ضرورت ہے کہ بچوں کے لیے بقرہ عید کا تربیتی کیمپ لگایا جائے۔ 

انہیں قربانی کے مقصد حضرت ابراہیم ؑ کی سنت اور ایثار کی حقیقت بتائیں، تاکہ کل وہ بھی کسی جائز مقصد کے لیے قربانی دینا سیکھیں۔ سادہ لباس بنوائیں جو پیسے بچ جائیں وہ کسی ضرورت مند خاندان کو قربانی کرنے کے لیے دے دیں۔ گوشت غریبوں کی آبادیوں میں بھجوائے جائیں۔ قربانی کا عمل اسلامی معاشرت میں مساوات ہمدردی اور غربا کی دیکھ بھال کو فروغ دیتا ہے جو اسے کئی مذہبی ثقافتی تقریبات سے ممتاز بناتا ہے۔

عید الاضحی حج کے ساتھ منسلک ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک وقت میں ایک عمل میں جوڑتا ہے اور ایک عالمی اتحاد کا مظہر بنتا ہے۔ یہ اجتماعیت اور وحدت دیگر ادیان کی عبادات سے الگ اور نمایاں ہے۔ اس تہوار کی بنیاد خالصتًا اللہ کی اطاعت پر ہے۔ تسلیم و رضا کا جذبہ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک ہے جو بہت سے دوسرے ادیان کی رسومات میں اس شدت سے موجود نہیں۔ ایک اور نمایاں پہلو روحانی اور اخلاقی تربیت ہے۔ 

یہ تہوار نہ صرف روحانی خوشی کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ معاشرتی فاصلوں کو بھی کم کرتا ہے اور محتاج افراد کو خوشیوں میں شریک کرنے کا درس دیتا ہے۔ عید الاضحٰی دنیا بھر کے مسلمانوں کو آپس میں جوڑتی ہے۔ خاص طور پر حج کی عبادت کے ذریعے۔ آج کا مسلمان ظاہری چیزوں اور نمود و نمائش کو اصل سمجھنے لگا ہے۔ 

قربانی کا مقصد دل کی نیت، اللہ کی رضا اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی ہے، مگر اکثر لوگ مہنگے جانور خرید کر صرف دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ عمل تقوی کے برعکس صرف تفاخر بن جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی اصل روح سے دوری قرآن کے مفہوم سے غفلت ایک بنیادی مسئلہ ہے جب لوگ نہیں جانتے کہ قربانی کا اصل مقصد کیا ہے تو وہ صرف جانور کاٹنے کو ہی اصل عمل سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں دینی تربیت کا نظام کمزور ہو گیا ہے۔ 

مدارس، مساجد یا تعلیمی ادارے اکثر صرف رسمیں سکھاتے ہیں۔ روحانی شعور بیدار نہیں کرتے۔ جب قربانی صرف ایک سالانہ فیسٹیول بن جائے تو اس کے اندر کا پیغام کہیں کھو جاتا ہے۔ آئیے ایک خیالی منظر نامہ دیکھتے ہیں جہاں ایک ہی آنگن میں نئی اور پرانی نسل شیر و شکر ہو کر عید قرباں میں مصروف ہے۔ دادا جی کے گھر کا بڑا سا آنگن ہے۔ صحن میں تازہ گوشت کے ساتھ بڑی بڑی دیگچیاں رکھی ہیں۔ 

دادا جی سفید کرتے اور شلوار میں ملبوس اپنے مخصوص انداز میں گوشت کی بڑی بڑی ڈھیریوں کے پاس بیٹھے گوشت بانٹنے کی تیاریوں میں ہیں۔ ان کے ساتھ دونوں صاحبزادے تھیلیوں میں ان کی ہدایات کے بموجب گوشت ڈالنے میں مصروف ہیں۔ ایک طرف دادی اماں ہاتھ میں مسالوں کا ڈبہ لیے بیٹھی ہیں۔ باورچی خانے میں امی جان اور چچی جان بڑے سے تبخیرے میں گوشت کے ٹکڑے دھو رہی ہیں اور ساتھ ساتھ کسی بات پر ہنسی کی آوازیں بھی آرہی ہیں۔ 

باتوں باتوں میں پرانی عید قرباں کی یادیں تازہ ہو رہی ہیں۔ ان کے ساتھ چھوٹے بچے علی اور مریم سب سے آگے ہیں اور ہنسی خوشی پیاز چھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آنکھوں میں بار بار پانی آرہا ہے۔ کزن یوٹیوب پر مٹن نہاری کی ترکیب دیکھ رہی ہیں، کیوں کہ ان کا ارادہ رات کو اپنے ہاتھوں سے مٹن نہاری تیار کرنے کا ہے۔ دروازے پر گوشت لینے والے غرباء کی قطار لگی ہے جنہیں ساتھ ساتھ نمٹایا جا رہا ہے۔ اب دادی اماں کبابوں کے لیے قیمے میں مسالہ ملا رہی ہیں۔

صحن میں ایک طرف تندورچی روٹیاں لگانے کے لیے تندور گرم کر رہا ہے۔ یہ ایک روایتی منظر نامہ نہیں بلکہ نسل در نسل محبت ،روایت اور تہذیب کے ورثے کو آگے بڑھانے کا تسلسل ہے جہاں مسالوں کے ساتھ رشتوں کی خوشبو بھی گھلتی جا رہی ہے اور چھوٹے بچے صرف کھانا پکانا نہیں بلکہ قربانی اور محبت اجتماعیت کا اصل سبق سیکھ رہے ہیں۔ چلیں قصہ تمام ہوا۔ اب قارئین بتائیں کہ اس عید قرباں پر آپ نے کون کون سے کھانے پکانے کا ارادہ کیا ہے۔

آپ سب کو عیدالاضحی مبارک !