میمونہ ہارون
اپنے زرد ہاتھوں کی لکیروں میں اس کی نظریں الجھی ہوئی تھیں! وہ جو یقین کا پیکر تھی۔ عزم حوصلہ اور استقامت گویا اس کی شخصیت کے وہ اجزا تھے جن سے وہ خود اپنی ذات کو پہچانتی تھی۔ بڑی بڑی باتوں اور بے انتہا چبھتے ہوئے فقروں کو حسن ظن کی ڈھال سے اپنے افکار پر اثر انداز ہونے سے روکنے کی طاقت رکھنے والی وہ لڑکی۔
محبت گویا جس کے پور پور میں سمائی ہوئی تھی بلکہ کبھی کبھی تو اسے محسوس ہوتا تھا جیسے اس کو محبت کی بیماری ہے۔ انسان تو انسان ہے اسے اللہ کی ہر مخلوق، چرند پرند، جانوروں، اپنے اور غیروں سب سے ہی ایک انس محسوس ہوتا تھا ایک ایسا رشتہ جس کو صرف دھڑکتے ہوئے دل کے جذبوں میں محسوس کیا جا سکتا ہو۔
احساس کی ایک ان دیکھی ڈور جو اس کی روح کو تمام عالم کی زی رو حوں سے ہمیشہ ہی جوڑے رکھتی تھی۔ اسے یاد ہے کہ جب وہ بہت چھوٹی تھی تبھی سے اگرچہ وہ خود نہایت لاڈلی اور سب کی آنکھ کا تارا تھی، مگر پھر بھی اسے کبھی بھی وہ چیز خوشی نہیں دیتی تھی جو اس کو اکیلے ملی ہو جب تک کہ وہ اس کے اس پاس اطراف میں موجود اس کے ہم عمر سب بچوں کو نہ مل جاتی، خواہ وہ بچہ اس کا کوئی اپنا ہو یا گھر میں کام کرنے والی خالہ کا۔وہ عجیب ہی تو تھی کلاس میں سب سے زیادہ نمبر لینے کے باوجود بچوں کو چہک چہک کر اپنا نتیجہ نہیں بتایا کرتی تھی چونکہ اسے لگتا تھا اس سے کم نمبر لینے والی بچے دکھی ہوجائیں گے۔
وہ کسی سے بھی اپنی تعریف سن کر شرمندہ ہو جاتی تھی، کیونکہ وہ کبھی خود کو اس قابل ہی نہیں سمجھتی تھی۔ جب اُس نےبچپن سے جوانی میں قدم رکھا تو بھی اس کی سوچ عام لڑکیوں سے قدرے مختلف رہی۔ دھنک رنگ اور چوڑیوں سے کھیلنے کے موسم میں اس کے دل میں محبت عشق کا روپ دھار گئی، مگر تب بھی اس کے دل میں کبھی گاڑی گھوڑے اور محلات کی تمنا نہ جاگی وہ تو لوگوں سے محبت کرنے والی بلکہ عشق کرنے والی ایک روح تھی جو بس پیار بانٹنے کی متمنی تھی، جس کو رشتوں سے پیار تھا اس کی اپنی کوئی بہن نہ تھی تو اس نے تمنا کی کہ اللہ کریم اس کو نندوں کے روپ میں بہت ساری بہنیں دے دیں اور وہ ہر رشتے کو ٹوٹ کر چاہے۔
اس کی یہ دعا سن بھی لی گئی اس کو بہت سی نندیں ملیں وہ ہر ایک کو اپنی بہن سمجھتی اور دل و جان سے اس پر قربان ہوتی حد تو یہ تھی کہ اگر کبھی اس کے میکے سے اس کے لیے کوئی قیمتی تحفہ آتا تو جب تک کہ وہ ویسا ہی قیمتی تحفہ اپنی کسی نند کو نہ لاکر دے دیتی اُس وقت تک اُسے ایسا لگتا جیسےاس نے اپنے فرائض منصبی کو نبھانے میں کوتاہی کی ہے۔
اس نے شادی سے پہلے کبھی کام کاج کی ذمہ داری نہیں اٹھائی تھی، مگر اپنے نئے گھر میں سب کی خدمت کی وہ دیوانی ہی تو ہو جاتی تھی جب اس کا کوئی سسرالی اس کے گھر آتا وہ ان کی خوب خاطر تواضع کرتی۔
جان نثاری، خدمت اور ایثار یہی تو سیکھا تھا اس نے اپنی ماں سے، کسی کی دکھ بیماری کی خبر پاتی تو اپنے دل میں عجیب سی خدمت کرنے کی بے چینی محسوس کرتی ،کوئی مہمان آتا تو اس کا بس نہ چلتا کہ جو کچھ میسر ہے اس سے بڑھ کر اس کی خدمت کرے اور یہ وہ سب کچھ جس جذبے سے کرتی تھی وہ بھی تو عشق ہی تھا اپنے رب کا عشق ہر لمحے وہ اسے خوش کرنا چاہتی تھی اپنی ہر ادا سے مگر وہ کیا کرتی جب اکثر ہر کام کے پیچھے اسے یہ سننا پڑتا کہ یہ سب دکھاوا اور ریاکاری ہے، ڈھونگ اور تعریفی کلمات سننے کے لیے کیا جا رہا ہے یہ وہ سیسہ پگھلاتے ہوئے جملے تھے جو کوئی اور نہیں اس کا سب سے زیادہ عزیز اور وہ محبوب ہستی کہتی جو اسے اپنے دل و جان سے زیادہ پیاری تھی۔
اسے ہمیشہ یاد رہتا کہ جب وہ اپنی ہم عمر بچوں سے کبھی لڑ کر گھر آتی اور اپنی ماں سے شکوہ کرتی تو ماں ہمیشہ یہ کہہ کر اسی کو معافی مانگنے کے لیے واپس بھیج دیتی کہ جس درخت میں زیادہ پھل ہوتے ہیں وہ ہمیشہ جھکتا ہے، اس لیے تم ہی جا کر معافی مانگ لو بھلے قصور کسی کا بھی ہواور یہی فارمولا اس کو شادی کے بعد کی زندگی میں بھی ہمیشہ یاد رہا، مگر جب آج ہاتھوں کی لکیریں ہتھیلیوں میں الجھ سی گئی تھیں تو ماہ و سال تلخیاںجدائیاں، انتظار احتساب اور کرب، دامن میں ان سوغاتوں کے سوا کچھ بھی تو نہیں تھا۔
اس نے بارہا ان باتوں کی بازگشت سنی تھی کہ یہ صرف اچھی بنتی ہے، اچھی ہے نہیں جب وہ خدمت کرتے کرتے تھک جاتی تو اس کے کانوں میں قدردانی کا یہ زہر انڈیل دیا جاتا کہ وہ اچھی بنتی ہے اچھی ہے نہیں، مگر وہ تو ایسی تھی کہ اس نے کبھی ایسے گمانوں کا بھی نوٹس نہیں لیا تھا اور اس زہر کو بھی امرت سمجھ کر پی کر تازہ دم ہو کے نئے سرے سے نئے ولولے کے ساتھ خدمت کے لیے پھر کھڑی ہو جاتی۔
قطع تعلقی کے جواب میں اس نے ہمیشہ ہی تعلق جوڑنے کا فارمولا اپنایا تھا۔ اس نے اپنے بچوں کو بھی محبت پیار خدمت ایثار اور وفا یہی چیزیں گھٹی میں گھول کر پلائی تھیں،مگر آج اس کی تہی دست ہتھیلیوں سے اس کی نظریں الجھ کر رہ گئی تھیں اور ڈور سلجھتی ہی نہیں تھی۔
ایک سرد اور تلخ زندگی جسے وہ کسی خوبصورت منزل کے انتظار میں بڑے حوصلے سے بڑی جیداری کے ساتھ صرف گزارتی ہی نہیں جیتی چلی آئی تھی، وہ زندگی اس سے جیتے جی چھین لی گئی تھی نئے الزامات کی فہرست کے ساتھ نا ختم ہونے والے بہتانوں کے ساتھ کبھی نہ ختم ہونے والی نفرت کے کانٹوں سے آراستہ ہار اس کی نازک سی گردن میں جب کسی بہت اپنے نے پہنائے تو اس کی مرمری گردن لہو لہان ہی تو ہو گئی تھی۔
اس کی زندگی سے بتدریج دور ہوتی ہوئی آنکھیں بار بار عرش کی جانب اُٹھتی اور ایک سوال کرتی ہیں، اے عرش کے مالک! آج سے 1400 سال پہلے اس ظالم دنیا میں بیٹیوں کو ان کے باپ زندہ درگور کرتے تھے پھر ہم نے یہ سنا کہ عظیم انقلاب آیا تیری رحمت جوش میں آئی اور دین محمدی ﷺنے ایسی کایا پلٹی کہ زندہ درگور ہونے والی اس بیٹی کو تو نے مشرف کر دیا۔
اسی بیٹی کو تیرے بھیجے ہوئے پیارے دین میں تیرے بھیجے ہوئے پیارے رسول ﷺنے سراپا رحمت قرار دیا اور اس کی بہتر تعلیم اور تربیت کو جنت کے حصول کا بہترین ذریعہ بتایا، مگر نفس اور شیطان کتنے عیار ہیں۔ بیٹیوں کو زندہ درگور کروانے کا کھیل زیادہ عرصے رک نہ سکا، البتہ مگر کچھ عیارانہ اور مکارانہ طریقہ بدل کراب یہ بیٹی پیدا ہوتے ہی دفن نہیں کی جاتی لیکن کچھ سسرال میں آج بھی بیٹیوں کو عیار انہ اور مکارانہ طریقوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔