در و دیوار سے جالا نہیں جاتا اماں
مجھ سے گھر بار سنبھالا نہیں جاتا اماں
یہ جو اشک میری آنکھ میں بھر آتے ھیں
ان کو الفاظ میں ڈھالا نہیں جاتااماں
پاؤں سے ہٹ کے، تہہِ دل میں اتر آتا ہے
مُندمِل ہو کے بھی چھالا نہیں جاتا اماں
میں جو آنسو کی طرح پھر لوٹ کے جا نہ سکی
یُوں تو اپنوں کو نکالا نہیں جاتا اماں
زندگی گود میں بیٹھا ہوا بالک تو نہیں
اس کو بانہوں میں اچھالا نہیں جاتا اماں
کیسے نکلے گا اندھیروں سے میرے بخت کا چاند
اس کے اطراف سے ھالا نہیں جاتا اماں
مُجھ میں معصوم سی تیری بیٹی ابھی باقی ھے
جس کی ضِد کو کبھی ٹالا نہیں جاتا اماں