• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ماں‘‘ کی آغوش، واحد اور مضبوط ترین پناہ گاہ

روبینہ یوسف

ماں کا لفظ منہ پہ آتے ہی گہری آسودگی، طمانیت اور فرحت کا احساس ہوتا ہے۔ یوں جیسے ہماری واحد اور مضبوط ترین پناہ گاہ ماں کی آغوش ہے۔ ماں وہ رشتہ ہے، جس سے بچہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی جُڑ جاتا ہے۔ ماں صرف ایک بندھن نہیں بلکہ حیات انسانی کا ایک طاقتور احساس ہے جو زبانوں اور قومیت سے بالاتر ہے۔ بچے کا پہلا لمس، پہلی خوشبو اور پہلی آواز ماں سے جُڑی ہے ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں ماں کے لیے جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ 

ان میں ’’م ‘‘کا لفظ مشترک ہونا کوئی اتفاقی امر نہیں بلکہ اس کی جڑیں انسانی فطرت اور ارتقائی زبان کی ابتدا میں پیوست ہیں۔ ذرا ملاحظہ کیجئے اردو اور ہندی میں ماں، عربی میں ام، انگریزی میں موم ،مدر، مم، فرانسیسی میں mere, maman, جرمنی میں mutter, mama, اطالوی اور ہسپانوی زبان میں mana, روسی میں mat, فارسی میں مادر ،پشتو میں مور،بنگالی میں maa, سواحلی میں mama, mazazi, کورین میں eomma, یونانی میں miteraa. ۔م وہ آواز ہے ،جو شیر خوار قدرتی طور پر سب سے پہلے ادا کرنا سیکھتے ہیں۔ میم ایک لب بند لفظ ہے جو دونوں ہونٹوں کو بند کر کے آسانی سے ادا ہو جاتا ہے۔ 

لسانی ماہر رومن جیکب سن کے مطابق دنیا کی تمام زبانوں میں ماں کے الفاظ میں حیرت انگیز مشابہت کا پایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ زبانیں جغرافیہ سے زیادہ انسانی فطری ساخت سے متاثر ہوتی ہیں۔ ماں کا لفظ کسی بھی زبان میں بولا جائے اس کی مٹھاس اور محبت ایک جیسی ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بیشتر زبانوں نے فطرت کی زبان یعنی بچے کی پہلی آواز کو ماں سے جوڑ دیا۔ میم محض ایک لفظ نہیں بلکہ ایک گہرا، اٹوٹ اور سدا بہار تعلق ہے۔

حضرت ہاجرہ علیہ السلام کی اپنے لخت جگر کے لیے صحرا میں پانی کی تلاش میں بے قرار دوڑنا اس بات کا ثبوت ہے کہ صفا اور مروہ کے درمیان ممتا کے نور کا ایک دریا بہہ رہا ہے۔ جنگ عظیم دوم کے دوران ایک ماں نے اپنے بچے کو سردی سے بچانے کے لیے اپنا کوٹ اسے اوڑھا دیا اور خود شدید سردی سے ٹھٹھر کر جان دے دی۔ بعد میں وہ بچہ زندہ ملا۔ تاریخ میں کئی ایسی مائیں گزری ہیں جنہوں نے نہ صرف عسکری قیادت کا مظاہرہ کیا بلکہ اپنی قوم خاندان یا نظریات کی حفاظت میں جرات مندانہ کردار ادا کیا۔

رانی کی جھانسی کا نام لکشمی بائی تھا۔وہ ریاست جھانسی کی مہارانی تھیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران انہوں نے برطانوی فوج کے خلاف نہایت جرات سے جنگ کی۔ وہ ایک ماں تھیں اور اپنے بچے کو پشت پر باندھ کر گھوڑے پر سوار ہو کر جنگ لڑتی تھیں۔ 

ان کی تلوار بازی اور قیادت تاریخ میں مثال ہے۔ ترانہ ادیبی جنہیں مادر ترانہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، البانیہ کی ایک معروف مزاحمتی ماں تھیں۔ انہوں نے اپنے تمام بیٹوں کو آزادی کی جنگ میں قربان کر دیا اور خود بھی ہتھیار اٹھا کر دشمن کے خلاف لڑیں۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران کئی یورپی خواتین خصوصاً فرانس، پولینڈ اور روس میں نہ صرف مجاہدین کو پناہ دیتی رہیں بلکہ خود بھی اسلحہ استعمال کر کے مزاحمت کا حصہ بنیں۔ ان میں کئی ایسی مائیں بھی تھیں جنہوں نے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ دشمن کے خلاف جنگ بھی لڑی گویا ماں اپنی ذات میں ایک مکمل تاریخ ہے ۔ 2005 ءکے زلزلے میں ایک ماں نے گرتی چھت کے نیچے اپنے بچے کو بچانے کے لیے خود کو اس پر ڈال دیا، جب ملبہ ہٹایا گیا تو بچہ زندہ تھا، مگر ماں جان کی بازی ہار چکی تھی۔

تاریخ انسانی ماں کی قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ ماں کی فطرت میں حوصلہ قربانی، محبت اور برداشت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ صفات ہیں۔قرآن میں بھی ماں کے مقام کو بہت بلند رکھا گیا ہے۔ خدا نے بھی اپنی محبت کو کسی اور رشتے سے نہیں بلکہ ماں کی محبت سے تشبیہ دی ہے۔ فطری جذبہ اولاد کے لیے بے لوث محبت قربانی اور تحفظ پر آمادہ کرتا ہے۔ زندگی کے ابتدائی مراحل میں اس کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ 

درد کی انتہاؤں میں بھی مسکرا کر اپنے نومولود کا استقبال کرتی ہے۔ اپنی نیند، خواہشات حتٰی کہ اپنی زندگی تک قربان کر دیتی ہے۔ اس کا دل اولاد کے لیے ہمہ وقت دعا، خیر خواہی اور رہنمائی کے جذبات سے لبریز ہوتا ہے۔ یہ روحانی وابستگی اسے ایک خاص داخلی طاقت بخشتی ہے جو مشکل حالات میں بھی اسے کمزور نہیں ہونے دیتی۔

اس کی ذات بچے کے لیے سماجی اور اخلاقی تربیت کی بنیاد ہوتی ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تربیت آنے والی نسل کے لیے زندگی کا نصب العین متعین کرے گی۔ اس لیے وہ نہایت صبر، حوصلے اور محبوبیت سے اپنے بچوں کی پروورش کرتی ہے۔

مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود جلتی رہی دھوپ میں

میں نے دیکھا ہے ایک فرشتہ ماں کے روپ میں

زمانۂ قدیم میں ایسی ماؤں کے تذکرے ملیں گے جنہوں نے جہاد یا جنگ پر جانے سے پہلے اپنے راج دلاروں کو خود تیار کیا۔ ان کے حوصلے بڑھائے۔ مائیں قریب ہوں تو ان کے گلے لگ کر اپنے تمام دکھ کہہ دینے سے عجب قرار سا آ جاتا ہے۔ اگر وہ دور ہوں تو ہر لمحے رگِ جان سے قریب محسوس ہوتی ہیں۔ سچ ہے کہ کوکھ کا رشتہ سب سے زیادہ پائیدار اور سحر انگیز ہے۔

ماں تو تِیرگیوں میں روشنی، اندھیروں میں سحر، مایوسیوں میں امید کا چراغ، خزاں میں غنچوں جیسی بہار ہے۔ وہ ہستی جس کی دعاؤں کے سائے تلے ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ اس کی محبت بغیر شرط کے بے لوث اور بے مثل ہوتی ہے۔ اس کی گود دنیا میں سب سے پرسکون پناہ گاہ ہے۔ اگر دنیا میں جنت کا کوئی عکس ہے تو وہ اس کے قدموں تلے ہے۔ 

اس کا دل خدا کی رحمتوں کا خزانہ ہے۔ اس کی دعائیں وقت کی دیواریں گرا سکتی ہیں۔ اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو عرش تک ہلا دیتے ہیں۔ اس کی محبت کسی صلے کی محتاج نہیں اور نہ کسی تعریف کی طالب۔ وہ ہنس دیتی ہے۔ سہتی ہے اور دعاؤں کی چادر تان کر اولاد کو زندگی کے طوفانوں سے بچا لیتی ہے۔ وہ ایک مکمل کائنات ہے ۔خدا کی محبت کا زمینی عکس ہے۔ رب کریم سب کی ماؤں کا سایہ ان کے سر پر گھنے شجر کی طرح تا دیر قائم رکھے۔ آمین ثم آمین۔