• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اینٹی بایوٹِکس: جراثیم کے خلاف مؤثر ہتھیار، مگر

انسانی زندگی اور شعبۂ طب میں اینٹی بائیوٹکس انتہائی اہمیت کی حامل ہیں کہ یہ جسم پر حملہ آور ہونے والے جراثیم کے خلاف سب سے اہم اور مؤثر ہتھیار گردانی جاتی ہیں، لیکن یہ ادویہ صرف معالج ہی کے مشورے سے استعمال کی جائیں، کیوں کہ جب اینٹی بایوٹکس کا مسلسل، غیر ضروری اور غلط استعمال کیا جاتا ہے، تو معمولی نوعیت کے انفیکشن کا علاج بھی مشکل امر بن جاتا ہے۔ 

واضح رہے، اینٹی بائیوٹکس صرف اُن ہی انفیکشنزکے خلاف استعمال کی جاتی ہیں، جو جراثیم کی وجہ سے لاحق ہوں،کیوں کہ وائرسز سے جنم لینے والے تمام انفیکشنز میں ان کا استعمال غیر ضروری ثابت ہوتا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پچاس فی صد معالجین بھی غیرضروری اینٹی بائیوٹکس تجویز کرتے ہیں۔ 

یہ ہمارامشاہدہ ہے کہ اکثر افراد سَر درد سے نجات کے لیے دافع درد دوا کے بجائے اینٹی بائیوٹکس استعمال کرتے ہیں۔اس کے علاوہ کئی افراد معمولی سے انفیکشن میں(چاہے بیکٹیریل ہو یا وائرل)مبتلا ہوجائیں، تو معالج سے رجوع کرنے کی بجائے مختلف میڈیکل اسٹورز سے اپنی مرضی کی اینٹی بایوٹکس خرید کر استعمال کرلیتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مریض اپنی تجویز کردہ اینٹی بائیوٹکس ایک یا دو دِن استعمال کرتے ہیں اور جوں ہی ذرا سا افاقہ ہوتا ہے، دوا کا استعمال ترک کردیا جاتا ہے۔ اس طرح نہ صرف وہ خود پر ظلم کرتے ہیں، بلکہ پوری انسانیت کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں، کیوں کہ اینٹی بائیوٹکس کے ایک یا دو دِن کے استعمال سے جسم سے جراثیم کا خاتمہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ نیم مردہ ہوجاتے ہیں اور کچھ عرصے بعد تازہ دَم ہو کر مریض پر دوبارہ حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ 

اسے مزاحمت کا عمل کہا جاتا ہے۔ یعنی جراثیم پر ادویہ اثرانداز نہیں ہوتیں۔ دراصل اینٹی بایوٹکس جراثیم ختم کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں،مگر جب بعض جراثیم ہلاک ہونے سے بچ جائیں، تو نہ صرف وہ اپنی تعداد میں اضافہ کرلیتے ہیں، بلکہ ساتھ ہی ادویہ کے خلاف مزاحمت بھی کرنے لگتے ہیں۔ اِس لاپروائی اور غیر ذمّے دارانہ استعمال کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ اینٹی بائیوٹکس غیر مؤثر ہونے کے نتیجے میں جہاں انسانی جانیں کئی خطرات کی زد میں آجاتی ہیں،وہیں ایسی نئی اینٹی بائیوٹکس دریافت کرنا پڑتی ہیں، جو جراثیم کے خلاف مؤثر ثابت ہوں،مگر کچھ ہی عرصے بعد یہ نئی اینٹی بائیوٹکس بھی غیر مؤثر ثابت ہوجاتی ہیں۔ 

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق، امریکا جیسے ترقّی یافتہ مُلک میں ہر سال کم از کم ایک لاکھ سے زائد مریض اُن انفیکشنز کی وجہ سے لقمۂ اجل بنتے ہیں، جن پر اینٹی بائیوٹکس اثر انداز نہیں ہوتیں۔ اِسی طرح یورپ میں بھی سالانہ لاکھوں مریض اِسی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ عام طور پر اس طرح کے انفیکشنز کا گڑھ اسپتال ہوتے ہیں، جہاں سے لوگ ان کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اِس عمل کو اینٹی بائیوٹکس کے خلاف جراثیمی مزاحمت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر ہمیں جراثیمی مزاحمت سے محفوظ رہنا ہے، تو معالج اور مریض دونوں ہی کو نہایت ذمّے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، تاکہ انسانی زندگی بچانے کے ساتھ اینٹی بائیوٹکس کی افادیت بھی برقرار رکھی جا سکے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اینٹی بائیوٹکس کے استعمال کے ضمن میں مریض اور معالج پر کیا ذمّے داریاں عائد ہوتی ہیں، تو یاد رکھیے، کسی بھی صُورت اینٹی بائیوٹکس ازخود یا رشتے داروں، دوست احباب اوردیگر افراد (بشمول میڈیکل اسٹورز)کے مشورے سے استعمال نہ کی جائیں۔ نیز،اینٹی بائیوٹکس کے استعمال میں جلد بازی کریں، نہ معالج سے اپنی مرضی کی دوا کا تقاضا کریں۔ جب بھی معالج اینٹی بائیوٹکس تجویز کرے، تو اس سے وجہ ضرور معلوم کریں۔

یہ ادویہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ مقدار اور مدّت کے مطابق استعمال کی جائیں ناکہ دورانِ علاج علامات ختم ہوتے ہی ان کا استعمال ترک کردیا جائے۔ اینٹی بائیوٹکس کے ضمنی اثرات مثلاً دست وغیرہ کی صُورت میں بھی دوا کا استعمال مقررہ مدّت تک جاری رکھیں،کیوں کہ یہ اثرات وقتی ہوتے ہیں، جو بعدازاں خودبخود ختم ہوجاتے ہیں، لیکن اپنے معالج کو ان سےضرور آگاہ کریں۔اِسی طرح بعض ادویہ کا استعمال بچّوں اور عُمر رسیدہ افراد کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

مثلاً  گُردوں کا فعل ہر عُمر میں مختلف ہوتا اور جوں جوں عُمر بڑھتی ہے، گُردوں کے افعال سُست پڑتے چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات نوجوانوں میں دوا کی خوراک زائد مقدار میں تجویز کی جاتی ہے، لہٰذا عُمر چُھپانے سے بھی گریز کیا جائے۔ اسی طرح اگر حاملہ بیمار پڑ جائے، تو معالج کو حمل سے متعلق ضرور بتائیں، تاکہ شکم میں پلنے والے بچّے پر مضر اثرات مرتّب نہ ہوں۔ یہی احتیاط دودھ پلانے والی ماؤں کو بھی برتنی چاہیے۔ واضح رہے، حمل کے ابتدائی تین ماہ میں بچّے کو نقصان پہنچنےکےامکانات زیادہ پائے جاتے ہیں،لہٰذا اس عرصے میں خاص احتیاط برتی جائے۔ 

اِسی طرح اگر اینٹی بائیوٹکس سے الرجی ہو، تو بھی معالج کو لازماً آگاہ کریں۔ عموماً معالجین ہر عُمر کے مریضوں ،خصوصاً خواتین اور بچّوں میں اینٹی بائیوٹکس کی ایک جیسی مقدار تجویز کر تےہیں، جو قطعاً درست نہیں۔ ہر مریض کے لیے دوا تجویز کرتے ہوئے مختلف عوامل پر نظر رکھنا ازحد ضروری ہے۔ اگر مریض نے حال ہی میں کوئی اینٹی بائیوٹکس استعمال کی ہو، تو بھی ڈاکٹر کو ضرور بتائیں، کیوں کہ بعض اوقات اینٹی بائیوٹکس استعمال کرنے کے تین ماہ بعد وہی مرض دوبارہ لاحق ہوجاتا ہے، جس کا واضح مطلب ہے کہ جراثیمی مزاحمت شروع ہوچُکی ہے، لہٰذا کوئی دوسری اینٹی بائیوٹک استعمال کرنی پڑے گی۔

بعض افراد پیدایشی طور پر مخصوص اینٹی بائیوٹکس سے الرجک ہوتے ہیں۔ ان میںبعض اوقات اتنا شدید ردِّعمل ظاہر ہوتا ہے کہ موت تک واقع ہوجاتی ہے۔ اِسی طرح اگر کوئی انفیکشن کا شکار ہو ، تو پہلےیہ تسلّی کرلیں کہ کہیں وہ اسپتال سے تو انفیکشن کا شکارنہیں ہوا۔ دراصل اسپتالوں میں پائے جانے والے جراثیم کئی اقسام کی اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت ظاہر کر سکتے ہیں۔ ایسی صُورتِ حال میں Culture And Sensitivity نامی ٹیسٹ کروانا ناگزیر ہے۔ اس ٹیسٹ کے ذریعے مرض کی تشخیص کے علاوہ یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ کس بیکٹیریا کے خلاف کون سی اینٹی بائیوٹکس مؤثر ثابت ہوگی۔

لیکن اگر معالج کے پاس کوئی مریض اس حال میں آئے کہ اس کا گلا خراب، سُرخ، متوّرم ہو اور ساتھ ہی کھانسی، تیز بخار بھی ہو، تو فوراً Broad Spectrum Antibiotics شروع کروا دی جاتی ہیں، لیکن اگر ٹیسٹ کروانے کے بعد ایک چھوٹے اسپیکٹرم والی اینٹی بائیوٹکس مؤثر ثابت ہو، تو بہتر ہوگا کہ ادویہ تبدیل کر دی جائیں اس طرح صرف مخصوص جراثیم کا خاتمہ ہوگا اور دیگر مفید بیکٹیریا محفوظ رہیں اور ان میں اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت بھی پیدا نہیں ہوگی۔ یہ چند ایسی احتیاطی تدابیر ہیں، جن پر عمل کرنے سے ڈاکٹر اور مریض دونوں ہی کا بھلا ہو سکتا ہے۔ مریض اینٹی بائیوٹکس کے غیر ضروری استعمال اور ان کے مضر اثرات سے بھی محفوظ رہتا ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید