25 جولائی 2018ء ، وہ دن تھا،جب لاکھوںنوجوان پاکستانیوں کی طرح ہمارادل بھی اس احساس سے لب ریزتھا کہ آج وطنِ عزیز اوراس کے باسیوں کی قسمت بدلنے والی ہے۔ہم پورے ہوش و حواس، انتہائی دل چسپی کے ساتھ انتخابی مہم فالو کر رہےتھے اورعوام کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران روایتی امیدواروں کی ’’عزت افزائی‘‘ پر خوش بھی ہو رہے تھے۔ نہ جانے کیوں دل میں ایک اُمید، جوش و جذبہ تھا کہ بس اب وہ دن دُور نہیں کہ جب پاکستانی عوام، بالخصوص نوجوان ،ووٹ کی طاقت سے اس مُلک کے حالات بدل دیں گے، اسٹیٹس کو کا خاتمہ ہوجائے گا،وڈیرہ شاہی سے نجات ملے گی، سرداری نظام کا قلع قمع ہوگا، وزارتوں، محکموں، خاص طور پر محکمۂ تعلیم پر تعلیم یافتہ طبقے کی حکم رانی ہو گی۔
بےروزگاری کا نام و نشان رہے گا، نہ منہگائی کا عفریت سروں پر منڈلائے گا۔ مڈل کلاس اور پس ماندہ طبقے کا معیارِ زندگی بہتر ہوگا،خوش حالی آئےگی، نوکریوں کی بھرمار ہوگی اور…تحریکِ انصاف کا دَورِ حکم رانی پاکستانی تاریخ میں امر ہو جائے گا(یاد تو اب بھی رکھا جائے گا، مگر…)، ہمارا آکسفورڈ گریجویٹ، موسٹ ہینڈسم، دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے ، کرپٹ سیاست دانوں کو للکارنے والا، وزیر اعظم نجات دہندہ ثابت ہوگا۔ لیکن …وہ میر تقی میر نے بھی کیا خُوب کہا ہے کہ ؎ اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں ،کچھ نہ دوا نے کام کیا۔ تو ہماری تدبیریں بھی کچھ ایسی اُلٹی پڑیںکہ جن کا خمیازہ پوراپاکستان بھگت رہاہے۔ جب ایک جلسے کے دوران وزیرِ اعظم صاحب نے فرمایا تھا کہ ’’مَیں انہیں رُلاؤں گا۔‘‘ تو ہم سب بہت خوش ہوئے تھے، پر کون جانتا تھا کہ’’ انہیں‘‘ سے مراد ’’عوام النّاس‘‘ تھےکہ آج کے دَور میں تووہی خون کے آنسو رو رہے ہیں۔
ہم نے جس قدرجوش و خروش سے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا ، آج اُسی قدر افسوس اور شرمندگی میں مبتلا ہیں کہ موجودہ حالات کےکہیں نہ کہیں ذمّے دار ہم بھی ہیں اور یہ شرمندگی تب کچھ اور بھی بڑھ گئی، جب حکومت نے سال کے آخری تحفے کے طور پر مِنی بجٹ کی ’’نوید‘‘سُنا ئی ۔ یقین کریں، بچّوں کے دودھ ،نمک اور کتابوں کی قیمتوں میں اضافے کا سُن کر تودل خون کے آنسو رودیا۔خود کوبہت کوسا، ضمیر حد درجہ ملامت کرتا رہا کہ ہم نے یہ کن نا تجربہ کاروں کے ہاتھ مُلک کی باگ ڈور تھما دی ہے۔
ملکی معیشت کس نہج تک پہنچ گئی ہے کہ ان لوگوں سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں تک کنٹرول نہیں کی جا رہیں۔ ہر چھے، سات ماہ میں وزیرِ خزانہ بدلنے والے ، عوام کی مسیحائی کے’’ علَم بردار‘‘، وزیر اعظم کو گزشتہ ساڑھے تین، چار برسوں میں کوئی ایک معقول، باصلاحیت، ماہرِ معاشیات میسّر نہیں آیا، جو عالمی مالیاتی اداروں کو خوش کرنے کے لیے نہیں ،عوام کی مشکلات دُور کرنے کی پالیسیز بنائے؟ ایسی پالیسیز ، جوعوام پر بھی بم کی طرح نہ گریں اور ملکی مفاد میں بھی ہوں۔
ہمارا مُلک خواہ کتنا ہی پس ماندہ ہے، مگر ایک بات تو طے ہے کہ ہمارے ہاں زرخیز ذہنوں، ہر شعبے کے ماہرین، دردمند، محبّ ِ وطن پاکستانیوں کی ہر گزکوئی کمی نہیں۔ خان صاحب اگرروایتی ماہرینِ معاشیات، آئی ایم ایف کے سابق ملازمین کی جگہ، مستند ماہرین ، اساتذہ سے مدد مانگتے، اُنہیں اہم عُہدوں پر تعینات کرتے تو آج حالات اس حد تک دگرگوں نہ ہوتے۔ ستم تو یہ ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے با وجود کچھ وزرا کو منہگائی نظر آتی ہے، بے روزگاری، بھوک، ننگ،نہ عوام کی کسمپرسی ، بلکہ وزیر خزانہ تو یہ فرماتے نظر آئے کہ ’’صرف دو ارب روپے ہی توٹیکس لگے گا‘‘تو صاحب یہ بھی سُن لیں کہ آپ اور آپ کے قبیل کے دیگر افراد کے لیے جو ’’صرف‘‘ ہے ناں، وہ اس مُلک کے کروڑوں غریب عوام کے منہ کا نوالہ اور ان کے بچّوں سے حصولِ تعلیم کا حق چھیننے کا موجب بن رہا ہے۔
آپ لوگوں کے لیے مُلک چلانا ایک چیلنج یا ٹاسک ہوگا، مگریہاں ہماری چیخیں نکل رہی ہیں۔ اورجب حکومت اور اس کی ناقص پالیسیز پر تنقید کی جائے ،تو سارا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈال کے بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ تو جنابِ والا !اگر تھوڑی بہت یادداشت باقی ہو تو یاد کرلیں کہ آپ عوام کو ریلیف ، کروڑوں نوکریاں دینے کے وعدوں سمیت بے شمار بلند بانگ دعووں کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے۔ مگر اُن میں سے کوئی ایک سچ ہوا، نہ ہوتا دِکھائی نہیں دے رہا۔اُلٹا ’’پرانے پاکستان‘‘ کا بھی سوا ستیاناس کر دیا گیا ہے۔
بدعنوانیوں پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے ،’’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ‘‘ نےگزشتہ دِنوں پاکستان کے حوالے سے نیشنل کرپشن کے عنوان سےایک سروے رپورٹ شایع کی، جس میں یہ ہوش رُبا انکشاف کیا گیا کہ گزشتہ 3 برسوں میں پاکستان میں کرپشن میں کمی کےبجائے اضافہ ہوا،جب کہ سرکاری شعبوں میں تو کرپشن عروج پر ہے۔ یہی نہیں، کرپٹ ترین اداروں میں پولیس پہلے، عدلیہ دوسرے،سرکاری ٹینڈرنگ اور ٹھیکے داری تیسرے اور صحت کا شعبہ چوتھے نمبر پر ہے۔ حالیہ سروے میں پاکستان میں منہگائی کا موازنہ بھی کیا گیا،جس کا ذمّےدار موجودہ حکومت کو قرار دیا گیا۔
سروے میں بتایا گیا کہ 92.9 فی صد عوام کا کہنا ہے کہ ’’گزشتہ حکومتوں کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے 3 سالہ دَورِ حکومت میں منہگائی بلند ترین سطح پر ہے،جب کہ (نون) لیگ کے دَور میں منہگائی کا تناسب 4 فی صد تھا۔‘‘پی ٹی آئی دَورِ حکومت میں 86فی صد پاکستانیوں کی آمدنی بڑھنے کے بجائے کم ہو ئی اور عوام نے اس کا ذمّے دار حکومت کو ٹھہرایا۔ اس کے باوجود وزیرِ اعظم اور ان کی کچن کابینہ پاکستان کو دنیا کا سَستا ترین مُلک قرار دینے میں ذرا نہیں ہچکچاتی۔ واضح رہے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے گزشتہ سال کے آغاز پر جاری کردہ ’’کرپشن رینکنگ کی سالانہ رپورٹ‘‘ میں بھی پاکستان کو 180 ممالک میں سے 124 ویں نمبر پر رکھا تھا۔
اس طرح گزشتہ 3 برسوں میں کرپشن کی عالمی فہرست میں پاکستان کی 7 درجے تنزّلی ہوئی۔یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہےکہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کوئی پاکستانی ادارہ نہیں، نہ اُس کے کوئی سیاسی مفادات ہیں،جس کی رپورٹ شک کی نگاہ سے دیکھی جائے۔یہ ایک ایسے ادارے کی رپورٹ ہے، جسے پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اسی طرح دسمبر 2021ء کے آخری ہفتے میں وفاقی ادارۂ شماریات کی جانب سے جاری کردہ منہگائی کی ہفتہ وار رپورٹ میں بتایا گیا کہ’’ ایک ہفتے کے دوران 23اشیا ءکی قیمتوں میں اضافہ ہوا ۔جیسے، ٹماٹر کی فی کلوقیمت میں 5 روپے 42پیسے،چینی کی فی کلوقیمت میں 1 روپیا 32 پیسے،انڈوں کی فی درجن قیمت میں 5 روپے 3 پیسےاوردال ماش کی قیمت میں فی کلو 3 روپے47 پیسےکا اضافہ ہوا۔‘‘
نیز، یکم جنوری 2022ء کوادارۂ شماریات کی شایع کردہ ایک رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ’’ دسمبر 2020 ءکے مقابلے میں دسمبر 2021 ءمیں منہگائی کی شرح 12.3فی صد ریکارڈ کی گئی ۔جب کہ ایک سال میں شہروں میں منہگائی میں 12.7فی صد، جب کہ دیہات میں 11.6فی صد اضافہ ہوا۔2021 ء میں سرسوں کا تیل 60.7فی صد، کوکنگ آئل 59.3، گھی 56.3 ، دال مسور 33.5، پھل 29.9، گوشت 20.4 ، چنا 20، آٹا 19 اور گندم 14.6 فی صد منہگی ہوئی۔
علاوہ ازیں، دودھ 14.4، لوبیا 14.2، گڑ 14، کپڑے دھونے کا صابن اور ماچس16.5اور چینی 13.28 فی صد منہگی ہوئی،جب کہ بجلی کی قیمت میں 59.3 فی صداور تعمیراتی سامان کی قیمت میں11.3فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا۔‘‘یاد رہے، ادارۂ شماریات کوئی نجی یا اپوزیشن کے تحت چلنے والا ادارہ نہیں، بلکہ ایک وفاقی ادارہ ہے، یعنی ایک طرف وفاقی ادارے کے جاری کردہ اعدادو شمار ہیں، تو دوسری جانب حکومتی دعوے۔اور یہاں وفاقی اور بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کا حوالہ دینے کا مقصدبھی یہی ہے کہ ہم چند ’’حکومتی نمایندوں‘‘ کی طرح ہوا میں باتیں نہیں کر رہے ، اعداد و شمار کی روشنی میں حقائق بیان کر رہے ہیں۔
تحر یک ِانصاف جب مُلک میں موجود اسٹیٹس کو کا خاتمہ کرنے کے بلند بانگ دعووں،کروڑوں نوکریاں،گھر دینے،’’تبدیلی، تبدیلی‘‘ کےنعرے لگا کر برسرِ اقتدار آئی تھی،توان وعدوں کی تکمیل کے لیے چند اقدامات بھی انتہائی ضروری تھے، جیسے قومی زندگی کے ہر شعبے کا پالیسی ڈاکومینٹ،ہوم ورک کے طورپر اقتدار سنبھالنے سے قبل ہی تیار ہوجانا چاہیے تھا۔قومی اقتصادی حکمتِ عملی ،قانون سازی کا مکمل ڈرافٹ موجود ہوتا، نیز،جن شعبوں کے لیے پالیسیز بنائی جاتیں،اُن کے ماہرین کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی خدمات فراہم کرنےکے لیے تیارہوتی۔لیکن مُلک کی بدقسمتی کہیے یا پی ٹی آئی کی کہ تحریکِ انصاف کی مقبولیت دیکھتے ہوئے بہت سے’’ لَوٹوں ‘‘نے پارٹی کا رُخ کر لیا ۔
نتیجتاً،پارٹی کی تنظیم،اندرونی استحکام، میرٹ اور مردم شناسی کو شدید نقصان پہنچااور عمران خان وزیر اعظم اور پی ٹی آئی حکم ران جماعت تو بن گئی،لیکن اسمبلیوں،کابینہ میں اُنہی لوگوں کی اکثریت پہنچی،جو ہر بار پہنچتی ہے۔سونے پہ سہاگا ،معاشی پالیسی سازی میں ایسے ایسے شاہ کارتجربات کیے گئےاور تا حال کیے جا رہے ہیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ ایسا ہی ایک تجربہ سال کے اختتام پر مِنی بجٹ کی صُورت دیکھنے میں آیا، جس کے اطلاق کے بعد بھوک و افلاس سے دوچار عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی ممکن نہ رہے گا۔
یاد رہے، 6ارب ڈالرز کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کی بحالی کے لیے درکار پالیسیزاور اصلاحات پر گزشتہ دِنوں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ملکی تاریخ کی سخت ترین شرائط کے تحت جو معاہدہ طے پایا، اس سے مزید ایک ارب 5کروڑ 90لاکھ ڈالرز (قرضے کی وصولی کی صُورت میں) ملنے والے فنڈ کی مجموعی رقم 3.027 ارب ڈالر ہو جائے گی، جس کی ادائی کے لیے وفاقی حکومت نے ’’ضمنی فنانس بل 2021ء‘‘اپوزیشن کی شدید مزاحمت کے دوران قومی اسمبلی میں پیش کیااورجس سے حکومت کو اپنے خزانے میں 343 ارب روپے اضافے کی توقع ہے۔
مِنی بجٹ میں جن اشیا ءاور خدمات پر اضافی ٹیکسز عائد کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے، اُن میں کمپیوٹرز، آیوڈین نمک، درآمدی گوشت، بیکری آئٹمز، لگژری اشیا،بچّوں کا دودھ،نیوز پرنٹ، کتابیں، سلائی مشینز،کپاس کے بیج،ادویہ کا خام مال،پولٹری مصنوعات، کوکنگ آئل، پلانٹس،درآمد شُدہ مشینری، زندہ جانور،ڈرائی کلیننگ، کار ڈیلنگ کے شعبے، آٹو ورک شاپس، صنعتی مشینری، شادی ہالز، کیٹرنگ، پنڈال، آئی ٹی خدمات، ویب ڈیزائننگ،نیٹ ورک ڈیزائننگ اورکال سینٹرز وغیرہ شامل ہیں۔ حکومت کے بقول متذکرہ تمام اشیاء’’ لگژری کیٹیگری‘‘ میں آتی ہیں،لیکن عقل یہ تسلیم کرنے سے گریزاں ہے۔
اب کوئی ذی شعور یہ بتا سکتا ہے کہ کیا نمک، بچّوں کا دودھ، کتابیں، سلائی مشینز، کُھلے مسالے، کپاس کے بیج وغیرہ لگژری آئٹمز ہیں؟ اور جب ادویہ کے خام مال پر ٹیکس عائد کیا جائے گا، تو کیا فارما کمپنیز ادویہ کی قیمتوں میں مزید اضافہ نہیں کریں گی؟ ( حکومت کا کہنا ہے کہ ادویہ کے خام مال کی درآمد پر 17فی صد جی ایس ٹی قابلِ واپسی ہو گا، مگر پاکستان میں ری فنڈز کی تاریخ کا جائزہ لیاجائے،تو یہ ری فنڈز ایک طویل عرصے بعد ہوتے ہیں، تب تک صنعت کار قیمتوں میں اضافہ کر کےاپنے نقصان کی بھرپائی کر چُکےہوتے ہیں۔)
نیز، کتابیں منہگی ہونے سے پہلے ہی سے انحطاط کا شکار شعبۂ تعلیم مزید متاثر نہیں ہوگا؟ سلائی کڑھائی کر کے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے والی خواتین کا کیا ہوگا؟کیا ریاستِ مدینہ ایسی تھی؟یہ ہے وہ نیا پاکستان، جس کے خواب دِکھا کر پتّھرکے دَور میں لے جایا جا رہا ہے؟ یہ تو ظلم کی انتہا ہے اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ وزیرِ اعظم یا وزرا اس بات پر پشیمان تو کیا ہوںگے، وہ تو یہ ماننے ہی کو تیار نہیں کہ مُلک میں منہگائی ہے یا عوام مِنی بجٹ سے متاثر ہوں گے۔
یاد رہے، آئی ایم ایف گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کی حکومتوں سے ٹیکس اصلاحات کا مطالبہ کر رہا تھا، لیکن ماضی کی حکومتیں دوسرے راستے نکالتی رہیں، لیکن موجودہ حکومت نے اس ضمن میں کوئی کام نہیں کیا، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ امیروں کو جو سبسڈیز دی گئیں، اب ان کی قیمت بھی غریب عوام سے وصول کی جا رہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ حکومت کو اس وقت غیر ملکی قرضوں کی اقساط کی ادائی، زرِمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے رجحان اور گردشی قرضوں سمیت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، لیکن کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ اس بحران کی بنیادی ذمّے دار خود حکومت، اس کے نا اہل وزرا اور ناقص پالیسیز ہی ہیں۔ جب کہ کچھ کسر کورونا وائرس نےبھی پوری کردی ہے۔
’’مِنی بجٹ‘‘ آئی ایم ایف کی شرائط کی محض ایک کڑی ہے، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر، آئی بی اے،پروفیسرڈاکٹر ایس اکبر زیدی
’’منی بجٹ کیا ہے اور یہ عوام پر کس طرح اثر انداز ہوگا؟‘‘ ہم نے پوچھا تو، معروف سیاسی ماہرِ معاشیات (Political economist) ، گزشتہ چار دَہائیوں سے درس وتدریس سے وابستہ،کئی اکیڈمک مضامین کے مصنّف، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر، انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن، کراچی،پروفیسرڈاکٹر ایس اکبر زیدی کچھ یوں گویا ہوئے کہ ’’میرا خیال ہے اور خود وزیر خزانہ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ یہ بجٹ بین الاقوامی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف )کے کہنے پر ہم پر مسلّط کیا گیا ہے۔ یہ صرف بجٹ نہیں، انتہائی ظلم اور ناانصافی ہے، جس کا بوجھ پاکستانی غریب عوام پر ڈالا جا رہا ہے، جس کے معاشرے پربے حد سنگین اثرات مرتّب ہوں گے۔
دوسری اہم بات، جس پر کسی کا دھیان نہیں جا رہا ،وہ یہ ہے کہ مِنی بجٹ، آئی ایم ایف کی ایک شرط نہیں، بلکہ اس کی کڑی شرائط کی ایک کڑی ہے، تو ہمیں مِنی بجٹ کو علیحدہ سے نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ اس کے ساتھ باقی چیزوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ یہ کیوں آیا، اس سے پہلے کیا حالات تھے، ماضی میں کیا ہوتا رہااور گزشتہ کچھ ماہ سے جو منہگائی کی شرح میں اضافہ ہوا، وہ بھی آئی ایم ایف ہی کی ہدایات پر عمل تھااور اب شرائط مزید سخت اور کڑی کر دی گئیں، لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی کہ ہمارے لیے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ مالیاتی ادارے کے کہنے پر اس قدر سخت شرائط کے اطلاق کی خبر، آئی ایم ایف کے قرض دینے کے فیصلہ کرنے سے پہلے ہی سُنا دی گئی، وہ قرض، جس کی رقم ایک ارب روپے سے زیادہ نہیں۔ شرم ناک بات تو یہ ہے کہ اس معمولی سی رقم کے لیے ہم نے اپنا ضمیر، اپنا قومی تشخّص، سب کچھ بیچ ڈالا۔ مَیں تو حیران ہوں کہ حکومت نے کس عجیب و غریب انداز سے اس بجٹ میں، جسے مَیں’’ مِنی بجٹ‘‘ نہیں، مالیاتی ادارے کی شرائط کی کڑی کہتا ہوں ، چیزوں کو ترتیب دیا۔
قیمتوں کا تعیّن کیسے کیا گیا، ٹیکسز کی چُھوٹ واپس لےلی گئی۔ جیسے، ماچس کی قیمت بڑھادی، ڈبل روٹی ، بیکری آئٹمز،موبائل فونز،لیپ ٹاپس، بچّوں کے دودھ ،ڈیری پراڈکٹس پر ٹیکسز لگا دئیے۔پھر ایک طرف تو وزیر اعظم صاحب اور ان کے وزرا کہتے ہیں کہ پاکستان، پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا عَلم بردار ہے، تو دوسری جانب سولر پینلز پر ٹیکس لگا دیا، الیکٹرانک گاڑیوں پر دوبارہ ٹیکسز عائد کر دئیےاور یہ سب وہ چیزیں ہیں، جو حکومت اور پالیسی ساز اداروں کے ہاتھوں میں ہیں کہ وہ ان پر چُھوٹ دے سکتے تھے، لیکن دینا نہیں چاہی۔
پھر کہتے ہیں کہ ’’عام آدمی اس سےمتاثر نہیں ہوگا‘‘ یعنی کس قدر عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو آپ ماچس کی ڈبیا،نمک، ڈبل روٹی، بچّوں کے دودھ جیسی چیزوں پر ٹیکسز عائد کرکے ان کی قیمتیں بڑھا رہے ہیں، تو دوسری جانب یہ کہتے ہوئے زبان بھی نہیں لڑکھڑا رہی کہ’’ہم نے عوام پر بوجھ نہیں ڈالا۔‘‘لیکن مَیں بار بار یہی کہہ رہا ہوں کہ عوام صرف بجٹ کو نہیں،اس کے پیچھےحکومتی پالیسیز کو دیکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ اصل چیز مِنی بجٹ نہیں، اس حکومت کی آئی ایم ایف کے ساتھ مشروط اقتصادی پالیسی ہے۔ اب آپ دیکھیں کہ سال کے آخری دن اسمبلی میں بجٹ تجویز کیا گیا اور یکم جنوی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اچانک ہی چار روپے کا اضافہ کر دیا گیا، جس کاکہیں کوئی ذکر ہی نہیں کیا گیا تھا۔
ایسا اس لیے کیا گیا کہ لوگوں کا دھیان ضمنی بجٹ میں الجھ کر دیگر سنگین مسائل سے ہٹ جائے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہی رہے گا، نتیجتاً، منہگائی میں بھی کمی نہیں آئےگی۔ اور اس کا ذمّے دارآئی ایم ایف نہیں، ہماری حکومت کی نااہلی، ناقص پالیسیز ہیں۔ ہماری حکومت اس قدر نکمّی ہےکہ اس مُلک اور عوام کے اقتصادی مسائل حل ہی نہیں کرپا رہی۔ مثال کے طور پر ہمارے مُلک میں منہگائی پہلے ہی بہت زیادہ ہے، اُس پر لوگوں کے ذریعۂ معاش، جیسے سلائی مشینز وغیرہ کو بھی منہگا کر دیا گیا۔
ایک طرف تو خان صاحب نے اقتدار سنبھالتے ہی قوم سے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ ہم مُلک سے جہالت مٹانے اور شرحِ خواندگی بڑھانے پر کام کریں گے، تو دوسری جانب لیپ ٹاپس، کتابوں پر ٹیکسز عائد کر دئیے گئے۔ کووِڈ کے بعد سے تو لیپ ٹاپس ، موبائل فونز، انٹرنیٹ ہر طالبِ علم کی بنیادی ضرورت بن چُکا ہے۔ مَیں اپنے ہی ادارے کی مثال دوں گا کہ گزشتہ دو برس میں آئی بی اے میں تعلیمی سلسلہ ایک دن کے لیے بھی منقطع نہیں ہوا کہ ہم نے فی الفور آن لائن کلاسز کا آغاز کر دیا تھا، جن طلبہ کے پاس لیپ ٹاپ کی سہولت نہیں تھی، انہیں یہ سہولت فراہم کی گئی تاکہ ان کی تعلیم کا حرج نہ ہو۔‘‘
’’ معاشی بحران سے نکلنے کا کیا طریقۂ کار ہو سکتا ہے؟‘‘ہمارا سوال تھا، جس پر اکبر زیدی نے کہا،’’بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانے ، قرضوں کا ریٹ بڑھانے سےسے بہتر ہے کہ مُلک کی اشرافیہ پر ٹیکسز لگائے جائیں، ان سے پیسےنکلوائے جائیں، جو ایک انتہائی مشکل کام ہے کہ یہ خود بھی تو اسی کلاس کا حصّہ ہیں۔ اصل میں اس حکومت کا ایک سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ مُلک کی دو بڑی جماعتوں(مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی) سے بات نہیں کرتے، انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، تو جب تک یہ بلا تخصیص معاشی ماہرین سے مشاورت نہیں کریں گے، معاشی بحران ٹلے گا، نہ مُلکی معیشت میں استحکام آئے گا۔