محمد حسن
ایک اسکول میں ٹیچر نے بچوں سے وعدہ کیا کہ جو ٹیسٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کرے گا، اُسے انعام میں نئے جوتے دوں گی۔ ٹیسٹ میں سب بچوں نے یکساں نمبر حاصل کیے۔ اب ایک جوتے کا جوڑا سب کو دینا نا ممکن تھا، اس لیے ٹیچر نے کہا کہ،’ ’چلیں قرعہ اندازی کرتے ہیں جس کا بھی نام نکل آیا ، نئے جوتے اُسے دیئے جائیں گے، لہذا قرعہ اندازی کے لیے سب کو کاغذ پر اپنا نام لکھنے اور ڈبے میں ڈالنے کا کہا ۔
ٹیچرنے ڈبے میں موجود کاغذ کے ٹکڑوں کو مکس کیا ،تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو، پھر سب کے سامنے ایک اٹھایا اور کھولا تو اس پر لکھا تھا وفا عبد الکریم سب نے تالیاں بجائیں۔ وہ اشکبار آنکھوں سے اٹھی اور اپنا انعام وصول کیا۔ کیوں کہ وہ پٹھے پرانےجوتوں سے تنگ آگئی تھی۔ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا اور ماںکی اتنی استعداد نہیں تھی، اس لیے جوتوں کا یہ انعام اس کے لیے بہت معنی رکھتا تھا۔
جب ٹیچر گھر گئیں تو روتے ہوئے یہ واقعہ اپنے شوہر کو سنایا، جس پر انہوں نے خوشی کا اظہار کیا اور ساتھ رونے کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا، رونا بچوں کی احساس اور اپنی بے حسی پر آرہا ہے۔ جب میں نے ڈبے میں موجود دیگر کاغذ کے ٹکڑوں کو چیک کیا تو سب نے ایک ہی نام لکھا تھا’’وفا عبد الکریم ‘‘ان معصوم بچوں نے اس کے چہرے پر موجود لاچاری ، درد اور کرب محسوس کر لیا تھا لیکن میں نہیں کر سکی جس کا مجھے افسوس ہے۔
بچوں کے اندر احساس پیدا کرنا اور سخاوت کا درس دینا سب سے بہترین تربیت ہے۔ ہمارے کئی اسلاف کے بارے میں کتابوں میں موجود ہے کہ وہ خیرات، صدقات اور زکوات اپنے ہاتھوں سے نہیں دیتے بلکہ بچوں کو دے کر ان سے تقسیم کرواتے تھے۔ اُن سے جب اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ اس سے بچوں کے اندر بچپن سے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ بچو! آپ بھی مستحق، نادار کی مدد ضروکیا کریں۔ یہ عمل اللہ کو بھی بہت پسند ہے۔