فرانس میں بےشمار قبرستان، صدیوں پرانی تاریخ کے ساتھ موجود ہیں جن میں بڑی بڑی نامور شخصیات مکمل ریکارڈ کے ساتھ دفن ہیں۔ علاوہ ازیں بہت زیادہ لائبریریاں جن میں عام معلومات، تاریخ، ناولوں سمیت متعدد شخصیات کی زندگی اور اعلیٰ کارکردگی پر مبنی کتابیں موجود ہیں۔ موجودہ حکمران اعلیٰ کارکردگی کی حامل شخصیات سے نہ صرف رابطے میں ہوتے ہیں اور ان کی کارکردگی اور صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہیں بلکہ اکثر ٹربیونل اور کمشنز بھی انہی افراد پر مشتمل ہوتے ہیں۔ قدرتی حادثات دنیا بھر میں رونما ہوتے ہیں، 2005میں کشمیر سے کوہستان تک آنے والے خطرناک زلزلے کو آج تک نہیں بھلایا جا سکا، اُس وقت کی وزیرِ سیاحت محترمہ نیلوفر بختیار نےزلزلے سے متاثرہ لوگوں کے لیے فنڈ جمع کرنے کی مہم کے سلسلے میں فرانس میں ایک طیارے سے پیرا شوٹ کے ذریعے چھلانگ لگائی تھی، طیارے سے چھلانگ لگانے کے بعد محترمہ نیلوفر بختیار کے خلاف ایک فتویٰ جاری کیا گیا تھا، فتویٰ جاری کرنے والے صاحب کا کہنا تھا کہ محترمہ وزیر کا طرزِ عمل بطور ایک مسلم خاتون، درست نہیں تھا۔ اس کے جواب میں نیلوفر بختیار کا کہنا تھا کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ محترمہ نیلو بختیار نے اِس فتویٰ کے بعد استعفیٰ دے دیا لیکن اُس موقع پر فرانسیسی ذرائع ابلاغ نے ان کے بہادرانہ اقدام کو سراہا تھا لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے کچھ عناصر نے اس نیک مقصد کو مذموم انداز میں پیش کیا‘۔ ان کا کہنا تھا کہ پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ کو جس ہیجان انگیز انداز میں پیش کیا گیا ہے، اس سے انہیں تکلیف ہوئی ہے۔ ان کا یہ اقدام نیک مقصد کے لیے اُٹھایا اور دوبارہ ایسا اقدام دہرانے کے لیے بھی تیار ہیں ’’مجھے اپنے اقدام پر کوئی تاسف نہیں ہے اور کسی نیک مقصد کے لیے اگر مجھے ایک مرتبہ پھر یہ کرنا پڑا تو میں کروں گی‘‘۔ فرانسیسی حکومت نے ان کو پورے خاندان کے ساتھ فرانس کی نیشنیلٹی دینے کا اعلان کیا مگر محترمہ نیلوفر بختیار نے یہ کہہ کر پیشکش مسترد کر دی تھی کہ اُنہیں پاکستانی ہونے پر فخر ہے اور ملک میں خدمات جاری رکھیں گی۔ اسی دوران 2005میں پنجاب کے صوبائی سیکرٹری صحت جاوید ملک تھے، آزاد کشمیر میں انتہائی خوفناک زلزلہ کے موقع پر انہوںنے پنجاب سے متاثرہ علاقوں میں ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل اسٹاف گھنٹوں میں کشمیر پہنچا کر عوام کو ضروری طبعی امداد کی وہ تاریخ رقم کی تھی جس کی آج بھی مثال دی جاتی ہے۔ اسی طرح غالب اقبال نے فرانس میں پاکستان کیلئے کامیاب سفارت کاری کی، وہ اپنی فرانس میں تعیناتی کے دوران ایسی تبدیلی لائے کہ اب بھی پاکستانی نژاد فرانسیسی جب کسی کام کی غرض سفارت خانے جائیں تو ان کو دعائیں دیتے ہیں، جہاں میرٹ پر خود بخود عوام کو درپیش مسائل حل ہوتے ہیں۔
سانحۂ مری کے تناظر میں پاکستان کے چند قابل افسروں کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے مختلف محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے اُن باصلاحیت تجربہ کار ریٹائرڈ افسروں کی اعزازی خدمات حاصل کرکے مختلف امور کے بورڈ اور کمیشن بنائے جائیں، جس طرح مری کا سانحہ رونما ہوا اگر یہ بورڈ اور کمیشن ہوتے تو مختلف محکموں کی طرف سےقبل از وقت موسمی معلومات اور ضروری اقدامات جن کی نشاندہی کی گئی تھی حکومت کوآگاہی حاصل ہوجاتی کیونکہ وطن عزیز میں موجودہ انتظامی ادارے اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ کئی ضروری امور اور اقدامات کی فائلیں کئی کئی روز ان کے سامنے پڑی رہتی ہیں۔ سانحہ مری کے متعلق اب جو شواہد سامنے آئے ہیں ان میں یہ بات خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ بر وقت محکمہ موسمیات کی اطلاعات کی فائل دفتروں کے میز پر پڑی رہی، اگر بروقت اقدامات کیے جاتے تو اتنی انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہوتا، اب کمیشن بنیں گے، تحقیقات ہوں گی لیکن کچھ روز بعد سب کچھ ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔ اوورسیز پاکستانی اس بات پر سخت تعجب کا شکار ہیں کہ کیا مری میں سماجی خدمات سرانجام دینے والی کسی ایسوسی ایشن یا تنظیم کے رضا کار موجود نہیں تھے جو فوراً باہر نکلتے اور متاثرین کی مدد کرتے، سماجی شخصیات کی طرف سے اِس ضمن میں مکمل خاموشی معنی خیز ہے۔ یورپی ممالک میں اکثر اوقات ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں مگر عوام اپنی مدد آپ کے تحت اکثر واقعات سے خود نمٹ لیتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)