رضوانہ وسیم
امی میں اس بار سال گرہ پر اپنی پسند کا تحفہ لوں گی نازیہ لاڈ سے امی کے گلے میں جھول گئی۔
امی نے بھی پیار سے نازیہ کو گلے لگاتے ہوئے حامی بھر لی اور نازیہ کو پیسے بھی نکال کے دے دیے وہ جانتی تھیں کہ نازیہ اکیلی توبازار جا نہیں سکتی، ظاہر ہے میرے ساتھ ہی جائے گی، چلو اس کی خوشی کے لیے اسےدےدوں۔ ابھی سالگرہ میں تو ایک ہفتہ باقی تھا امی کو اندازہ تھا کہ نازیہ کو بڑا سا ڈول ہاؤس بہت اچھا لگا تھا جب وہ کچھ دنوں پہلے اُن کے ساتھ بازار گئی تھی یقینا وہ اسی کو خریدنا چاہتی ہے۔
ویسے تو نازیہ کے پاس کھلونوں کی کوئی کمی نہ تھی وہ خاندان بھر کی لاڈلی تھی ۔ اس کے چچا ،ماموں، خالہ، پھوپھی اکثر اس کےلئے نت نئے گفٹ لاتے رہتے تھے، جنہیں وہ بہت سنبھال کر رکھتی تھی۔ نازیہ بہت فرمابردار، نیک دل اور سلجھی ہوئی بچی تھی ۔ وہ امی کی ہر بات کو دھیان سے سنتی اور اس پر عمل بھی کرتی تھی اسی لئے کبھی بھی امی کو اس پر غصہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑی ۔وہ دوسری جماعت میں پڑھتی تھی۔
نازیہ کی امی اُسے خوبصورت اور رنگین اسٹوری بکس بھی لا کر دیتی تھی، جس میں بچوں کے لئے بہت اچھی اچھی اصلاحی کہانیاں ہوتی تھیں۔ نازیہ ان کتابوں کو بہت شوق سے پڑھتی اور ان اچھی باتوں پر عمل کرتی تھی ، جوبھی نازیہ سے ملتا تو بہت خوش ہوتا کیونکہ وہ سب کا خیال کرنے والی پیاری سی بچی تھی ۔
نازیہ کے گھر ایک ماسی کام کرنے آتی تھی اس کے ساتھ اس کی بچی بھی آتی تھی جو تقریبا اُسی کی ہم عمر تھی۔ نازیہ اکثر اپنے کھلونے کپڑے جوتے اس کو دے دیتی اور اسے پڑھاتی بھی تھی۔ ایک دن ماسی کی بیٹی بہت چپ اور اداس نظر آئی تونازیہ نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ، ’’ میرا چھوٹا بھائی بہت بیمار ہے۔
ڈاکٹر نے اسے نمونیہ بتایا ہے اور ہر وقت گرم کپڑے پہننے کی ہدایت کی ہے کیونکہ اگر احتیاط نہ کی تو اُس کی طبیعت زیادہ خراب ہوسکتی ہے، لیکن ہمارے پاس نہ تو گرم کپڑے ہیں اور نہ ہی موٹے لحاف اور کمبل بس ایک پھٹا ہوا کمبل ہے، جوامی بھائی کو اوڑھا دیتی ہیں ،ویسے بھی ہم سب زمین پر سوتے ہیں، اس لیے ہمیں سردی بہت زیادہ لگتی ہے۔‘‘ نازیہ کو یہ سن کر بہت افسوس ہوا۔
شام کو امی جب کچن کے کام سے فارغ ہوئیں تو نازیہ نے انہیں یاد دلایا کہ میرا گفٹ لینے بازار جانا ہے، امی نے کہا،’’ مجھے یاد ہے آج ہم بازار چلیں گے‘‘۔ یہ لوگ جب مارکیٹ پہنچے تو نازیہ سیدھی بلینکٹ کی بڑی سی شاپ پر رک گئی۔ امی بہت حیران ہوئیں کیونکہ اس کے پاس کمبل موجود تھالیکن وہ نازیہ سے اس کی پسند کے گفٹ کا وعدہ کر چکی تھیں اس لیے خاموش رہیں۔
نازیہ نے بہت خوبصورت موٹا سا کمبل پسند کیا جو بڑی خوبصورت پیکنگ میں تھا ، نازیہ خوشی خوشی وہ گفٹ لے کر گھر آگئی۔ دوسرے دن جب ماسی آئی تو نازیہ نے وہ کمبل اٹھا کر ماسی کو دے دیا اور کہا کہ، یہ آپ اپنے بیٹے کے لئے لے جائیں اسے کمبل کی ضرورت ہے۔‘‘
ماسی کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو آ گئے۔اُس نے نازیہ کو ڈھیروں دعائیں دیں۔ یہ دیکھ کر اُس کی امی یہ سوچنے لگیں کہ مجھ سے زیادہ حساس اور سمجھدار تو میری بیٹی ہے جس نے ماسی کی تکلیف کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس کا مسئلہ بھی حل کیا امی نے ایسی نیک اولاد عطا کرنے پر اللہ تعالی کا بہت شکریہ ادا کیا اور گھر سے مزید گرم کپڑے نکال کر ماسی کو دیے تاکہ ان کا سردی کا موسم سکون سے گزر جائے۔
اس طرح ایک چھوٹی سی بچی کی ہمدردانہ سوچ کی وجہ سے بغیر مانگے ماسی کا بہت بڑا مسئلہ حل ہوگیا اور نازیہ کو اپنی سالگرہ میں سچی خوشی کا نایاب تحفہ ملا۔ سچ ہے کہ اللہ تعالی نیکی کرنے والوں کو اطمینان اور خوشی عطا کرتا ہے۔پیارے بچو! آپ بھی اپنے ارد گرد دیکھیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو ان کی مدد ضرور کریں،کیوں کہ اللہ تعالٰی غریبوں کی مدد کرنے والوں سے خوش ہوتا ہے۔