• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم کے آنے سے چار دن پہلے میں اپنے عزیز دوست اور معروف صحافی جناب نصیر احمد سلیمی کے صاحبزادے کی شادی میں شرکت کے لیے کراچی آ گیا تھا۔ اِن چار دنوں میں کراچی کے حالات کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اورتجزیہ کرنے کا موقع ملا۔ ایک ظہرانے میں چند اہلِ دانش اور سابق بیوروکریٹس سے ملاقات ہو گئی۔ وہ سرکاری افسر بھی ملے جو 1986ء سے الطاف بھائی کو ڈیل کرتے آئے ہیں۔ اُن کا تجزیہ تھا کہ کراچی کے حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں اور بنیادی طور پر یہ ذمے داری پولیس اور سول انتظامیہ کی ہے اور انہی میں اصلاحات لانے اور بعض فوری اقدمات کرنے سے عوام کو عدم تحفظ کے عذاب سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ اُن کی رائے میں سندھ کے موجودہ چیف سیکرٹری جناب اعجاز چودھری نہایت قابل  فرض شناس اور دیانت دار افسر ہیں اور اگر ذوالفقار چیمہ آئی جی سندھ لگا دیے جائیں  تو جرائم پیشہ عناصر یا ملک چھوڑ جائیں گے یا قانون کے آگے سرنڈر کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اُنہوں نے 1995ء کے آپریشن کا ذکر کیا کہ جناب شعیب سڈل کی اعلیٰ قیادت اور نصیر الله بابر کی سیاسی بصیرت نے کراچی میں امن بحال کر دیا تھا۔
ایک وسیع النظر دانش ور کی رائے تھی کہ اب ایم کیو ایم بھتہ خوری اور بوری بند لاشوں کے کلچر کے خاتمے کی آرزو مند نظر آتی ہے۔ اُس کے اپنے ممبرانِ اسمبلی اور سیاسی کارکن موت کی نیند سلا ئے جا رہے ہیں اور اغوا برائے تاوان کے سوداگر اب اُن کے لیے بھی عذابِ جاں بنتے جا رہے ہیں۔مجھے جماعت اسلامی کی قیادت سے ملنے اور نائن زیرو جانے کا اتفاق ہوا۔ جماعت اسلامی کا ایک مضبوط حلقہ آج بھی موجود ہے اور وہ قیامِ امن میں نہایت موٴثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ اِس کی جواں عمر اور بالغ نظر قیادت نے مشورہ دیا کہ آپریشن کا بہت زیادہ چرچا کرنے کے بجائے ٹھوس بنیادوں پر جچے تُلے اقدامات کیے جائیں  پولیس کے اندر ایک نئی روح پھونکی جائے اور فوجی قیادت سے کہا جائے کہ وہ رینجرز کو واضح احکام دیں کہ اُنہیں ہر قیمت پر امن قائم کرنا ہے۔ جناب حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ بعض خرابیوں کے باوجود رینجرز فورس جرائم پیشہ گروہوں کی طاقت پر کاری ضرب لگانے اور پولیس کی بروقت اعانت کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ہم تین دوست جناب حسن امام کی معیت میں نائن زیرو گئے جہاں ڈاکٹر فاروق ستار  جناب کنور خالد یونس اور جناب احمد سلیم صدیقی کے ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے گفتگو کا دور چلتا رہا۔ یہ وہی نازک وقت تھا جب وفاقی کابینہ میں اُن کی شمولیت کا دعوت نامہ منسوخ کر دیا گیا تھا اور وہ اِس پر سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے۔ میں نے کہا جناب وزیراعظم نے آپ کو ون ٹو ون ملاقات کی دعوت دی ہے  آپ اپنا پورا موقف اُن کے سامنے رکھ دیجیے اور بحالی ٴ امن کی مہم اور جہاد میں پورا حصہ لیجیے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم نے کابینہ کے سامنے تمام حقائق لانے کی presentationتیار کی تھی تاکہ وہ صحیح فیصلے تک پہنچ سکے  مگر دعوت نامہ واپس لے کر 85فی صد مینڈیٹ کی توہین کی گئی ہے  تاہم قیامِ امن کے عمل میں حصہ لینے کے لیے ہم نے اپنے نمائندے بھیج دیے ہیں۔ اُن کا یہ بھی اصرار تھا کہ ہمارا کوئی مسلح ونگ نہیں اور ہم بھتہ خوروں،قاتلوں،اغوا برائے تاوان کے سوداگروں کے خلاف بلاامتیاز اور بے رحمانہ آپریشن کے حق میں ہیں۔
صحافیوں اور بعض تاجروں سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ اُن سب کا اِس امر پر اتفاق تھا کہ کراچی کے حالات غیرمعمولی اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں لیکن اُن کی کامیابی کے لیے جوش کے بجائے ہوش سے منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ ”آپریشن“ کا نام سن کر غیر ملکی طاقتیں بھی سرگرم ہو گئی ہیں اور ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کا عمل تیز تر ہو گیا ہے۔ ہمارے وزیر داخلہ شدید اعصابی دباوٴ میں نظر آتے ہیں ۔ دشمنوں کی غالباً کوشش یہ ہے کہ رینجرز اور فوج کراچی کی دلدل میں پھنستے چلے جائیں اور سیاسی قیادت حواس باختہ ہو جائے۔ ہمارے ایک جہاندیدہ صحافی نے کہا کہ ہمیں کراچی میں وزیراعظم کے آنے کی بہت خوشی ہے اور ہم اُن کے اندر کھولتے ہوئے اضطراب کا بھی بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں  لیکن اُنہیں واقعات کی گرمی اور حدت میں سوچ سمجھ کر اور ٹھنڈے دماغ سے فیصلے کرنا ہوں گے۔ پوری قوم اُن کے ساتھ ہے اور اُن کے اقدمات کی کامیابی کے لیے دعاگو ہے۔ اُنہیں ایک مضبوط اور طویل جدوجہد کے لیے اپنے آپ کو اور سرکاری مشینری کو تیار کرنا ہو گا۔
وزیراعظم مقررہ وقت پر میڈیا کے نمائندوں سے ملنے آئے  دو ڈھائی گھنٹے آزادانہ تبادلہٴ خیال ہوا۔ ایڈیٹر حضرات نے بڑی بیش قیمت اور قابلِ عمل تجاویز پیش کیں۔ رینجرز اور پولیس فورس کے بخیے اُدھیڑے گئے۔ بعض دوستوں نے انسدادِ دہشت گردی عدالتوں کو مضبوط بنانے اور قانونِ شہادت میں ترمیم کرنے کا مشورہ دیا۔ اِس امر پر سبھی کا اتفاق تھا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھا جائے اور سندھ حکومت کو بنیادی کردار سونپا جائے۔ عزیزی مجیب الرحمن شامی نے بڑے اختصار کے ساتھ اہم نکات بیان کیے۔ اُنہوں نے کہا کہ آپریشن کی ہائپ createکرنے کے بجائے یہ کہا جائے کہ قیامِ امن کے لیے جچے تُلے اقدمات کیے جائیں گے اور فوری ضرورت پولیس میں تطہیر اور اِس میں بنیادی اصلاحات نافذ کرنے کی ہے۔ تیسری اہم بات یہ کہ وہ ممالک جو دہشت گردی کا شکار ہیں  وہاں جج بھی نقاب پوش ہوتے ہیں اور گواہ بھی پردے میں ہوتے ہیں  چنانچہ ہمیں قانون میں تبدیلی کے علاوہ عدالتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے مالی وسائل بھی فراہم کرنا ہوں گے۔ ہمیں بھی عدالتی نظام کو تحفظ فراہم کرنا اور عدلیہ کی قیادت کو اعتماد میں لینا ہو گا۔ ہمارے سیکورٹی کا نظام خامیوں سے پُر ہے  اِس کی اصلاح کے لیے مربوط کوششوں کو تیزتر کرنا ہو گا۔ اُن کا خیال تھا کہ فیصلے تدبیر اور حوصلہ مندی سے کیے جائیں اور ایک تدریج کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔ اِس جدوجہد میں کئی ماہ اور ایک دو سال بھی لگ سکتے ہیں  تاہم سوچے سمجھے اقدامات کا آغاز چند ہفتوں میں بھی کیا جا سکتا ہے۔
جناب نوازشریف جو مکالمے میں پوری دلجمعی سے حصہ لے رہے تھے  اُنہوں نے اپنے افتتاحی کلمات میں بحران کی سنگینی کا اعتراف کرتے ہوئے اِس امر کا اعلان کیا کہ ہم ایک طویل جدوجہد کے لیے تیار ہیں اور کوئی ہیجان پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ ہو سکتا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی میں ہمیں چھ ماہ یا ایک سال لگ جائے  مگر ہم کراچی میں قیامِ امن تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ہماری پولیس فورس ناکارہ ہو چکی ہے  ہم اِس کی جگہ تازہ دم فورس لائیں گے جسے فوجی خطوط پر تربیت دی جائے گی۔ ہم رینجرز کو نئے اختیارات دینے پر غوروخوص کر رہے ہیں تاکہ مجرموں کو پکڑا اور اُن پر مقدمہ چلایا جا سکے اور اُنہیں سزا بھی دی جا ئے۔ ہم ایسا نظام وضع کرنے کا عزم کر چکے ہیں جس میں اتنے سنگین لوگ سزا سے نہ بچ سکیں۔ ہم بتدریج اور حکمت کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور بلاوجہ جلد بازی سے کام نہیں لیں گے۔ ہم آپ سے مشاورت کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور آئین اور قانون کی عملداری پر آنچ نہیں آنے دیں گے  مگر ریاست دشمن عناصر کو بھی عوام کی جان و مال اور عزت سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ میں نے باآوازِ بلند کہا کہ آپ نے کراچی کی آزمائش گاہ میں اُترتے وقت صحیح سمت کا انتخاب کیا ہے اور اِس سے انحراف کسی صورت بھی نہیں ہونا چاہیے۔ انحراف کا تو ابھی پتہ نہیں چلا  البتہ ٹی وی پر چیف سیکرٹری اور آئی جی سندھ کے تبادلوں کی جھوٹی خبر نشر ہو جانے سے آغاز ہی میں بڑی بدمزگی پیدا ہو گئی ہے۔ ہمارے وزیرِ اطلاعات و نشریات کو اِس ضمن میں عبرت آموز کارروائی کرنی چاہئے۔
تازہ ترین