تھیوسوفیکل ہال لائبریری
تھیوسوفیکل ہال لائبریری کراچی کی پرانی و تاریخی لائبریری ہے۔ 1910ء میں یہ عمارت قائم ہوئی، اس لائبریری و ہال کی تعمیر پر بلدیہ کا سرمایہ توخرچ نہیں ہوا مگر جمشید نسر و انجی جو شہر کے مشہور سماجی رہنما تھے، بلدیہ کے صدر اور میئر رہے، ان کی کوششیں اور بلدیہ کراچی کے ماہرین کی فنی و دیگر خدمات اس میں شامل رہیں۔1910ء کا سال بلدیہ کراچی کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل اور خوش کن سال رہا۔
اس سال کراچی کے شہریوں کو اپنا نمائندہ منتخب کرنے کا اختیار ملا جو بلدیہ سربراہ تھا لہٰذا اکتوبر1910ء میں بلدیہ کراچی نے اپنے اولین منتخب صدر کی حیثیت سے مسٹر چارلس مولز کو منتخب کیا، چارلس مولز بلدیہ کراچی کے آخری غیر منتخب اور پہلے منتخب صدر تھے۔ اس وقت بلدیہ کراچی کے 36ممبران تھے جن میں 24منتخب اور12 نام زد تھے۔
اس سے قبل بلدیہ کی کونسل کے انتخابات تو ہوتے رہے مگر صدر حکومت کا مقرر کردہ ہوتا تھا تاہم اب کونسل کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے صدر کو منتخب کرے، اس فیصلے کے وقت مسٹر چارلس مولز ہی بلدیہ کے صدر تھے، جنہیں اب منتخب صدر کی حیثیت حاصل ہوئی اور وہ اس عہدے پر چند ماہ تک فائز رہے، بعد ازاں 1911ء میں ہر چند داس کو صدر منتخب کیا گیا۔
کراچی ’’پیرس آف ایشیاء؟‘‘
کراچی ہر دور میں باہر سے آنے والوں کی اکثریت کا شہر رہا۔ انگریزوں کی حکومت کے شروعات سے ہندو اور مسلمان ایک ساتھ ہندوستان کے مختلف حصوں سے کاروبار کرنے کراچی آتے رہے۔ ان میں سے اکثریت نے یہاں رہنا پسند کیا ، یوں آبادی میں اضافہ ہوتا رہا۔ بلدیہ کراچی اور اس کے سربراہ نے ہر دور میں اپنے شہریوں کے مسائل حل کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ 19ویں صدی کی پہلی دہائی تک بلدیہ کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کے باعث شہر میں سیاسی استحکام اور معاشی و معاشرتی سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی تھیں۔
ان سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے برطانوی حکام ، خصوصاً اس وقت کے چیئرمین بلدیہ کراچی کے منتخب صدر، سر چارلس میولز نے شہر کو خوبصورت بنانے کی خصوصی مہم شروع کی جس میں بالکل نئی اور صاف ستھری سڑکوں ، فٹ پاتھ ، پارکس کی تعمیر اور ترقی ، شجر کاری ، جدید سہولتوں سے آراستہ رہائشی اور تفریحی منصوبوں سمیت شہر کی ترقی اور خوبصورتی کے متعدد دیگر منصوبے شامل تھے۔ان منصوبوں اور بیوٹی فکشن مہم سے شہر اتنا صاف ستھرا اور خوبصورت ہوا کہ ایک برطانوی مصنف نے کراچی کو ایشیا کا پیرس قرار دیا۔
عوامی گھروں کی تعمیر
میونسپلٹی نے سال1910 میں ایک اور کارنامہ انجام دیا کہ پہلی مرتبہ ان مچھیروں کے لئے جو گندی بستی میں گھانس اور بانس کے جھونپڑوں میں رہتے تھے، چھوٹے چھوٹے مگر پختہ گھر تعمیر کیے۔ فشر لائن میں ان گھروں کو تعمیر کر کے سمندر کے کنارے آباد مچھیروں کو آسان اور بہت کم کرایہ پر فراہم کر دیے گئے۔ یہ کراچی میں تعمیرات اور شہریوں کو پختہ رہائش کی فراہمی کا پہلا عوامی منصوبہ تھا۔ میونسپلٹی کے اس عمل سے جدید شہر کی طرف کراچی کے سفر کا آغاز ہوا۔
انگریز سرکار کی زیر نگرانی کام کرنے والی میونسپلٹی کی یہ کوشش دراصل شہر سے جھونپڑی کلچر کا خاتمہ ، بانس اور گھاس پھوس سے قائم جھونپڑیوں میں رہائش پذیر پرانے شہریوں کو جدید رہائشی سہولتوں کی فراہمی تھی تاکہ پرانی آبادی اور نئی تعمیرات میں پیدا ہونے والے فرق کو کم کیا جا سکے۔
اس کوشش میں انگریز کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے مگر کچھ وقت گزرنے کے بعد ہی ایسا ممکن ہو سکا کیوں کہ لوگوں کو پرانا طرز رہائش اور آبائو اجداد کے طور طریقوں کو چھوڑنے میں وقت لگا۔ کھلی فضاء میں رہنے والے افراد کو بند کمروں میں رہنا مشکل لگتا، مگر آہستہ آہستہ انگریزوں نے وہ فرسودہ ثقافت تبدیل کی جس سے شہری بہت تنگ تھے۔
پختہ سڑکوں کی تعمیر کا آغاز
سال 1910 میں کراچی میں پختہ سڑکوں کی تعمیر کے کام میں تیزی لائی گئی، نیپئر روڈ کے ایک کلو میٹر طویل حصے کی پختہ تعمیر کر کے برصغیر کے دیگر بڑے شہروں کی طرح کراچی کو بھی خوب صورت بنانے کا آغاز ہوا۔ کراچی کی تاریخ میں یہ پہلی سڑک تھی جو کرش، کنکریٹ، پتھروں اور سیمنٹ سے تعمیر ہوئی انگریزوں نے ابتداء میں جو سڑکیں تعمیر کیں وہ ماضی قریب میں پاکستان چوک کے اطراف کی گلیوں میں دیکھی جاسکتی تھیں جہاں خوب صورت پتھر اور سفید سیمنٹ استعمال ہوا تھا۔
یہ پرانی عمارتوں کے فرش کی طرح خوب صورت محسوس ہوتی تھی۔ 1980ء کی دہائی تک پاکستان چوک کے اطراف میں رنگ برنگے پتھروں اور سفید سیمنٹ کی سڑکیں دیکھ سکتی تھیں مگر اب موجود نہیں۔ اس سال بلدیہ کراچی نے مزید سڑکوں کی تعمیر بھی مکمل کی۔