کیف، ماسکو، لندن، برلن، واشنگٹن (خبر ایجنسیاں، جنگ نیوز، مانیٹرنگ نیوز)یوکرین کے دارالحکومت کیف کی گلیوں میں لڑائی جاری،کروز میزائلوں سے روسی حملے،شہر ملیتو پول پر قبضے کا دعویٰ،ایک لاکھ شہری یوکرین سے نکل گئے۔
روسی جنگی طیارہ گرانے کا دعویٰ،کیف میں پیر تک کرفیو نافذ، یوکرینی صدر نے کہاہےکہ انخلاء کی سہولت نہیں، اسلحہ چاہیے،یوکرین کیلئے 350ملین ڈالرز کی امریکی امداد،جرمنی،نیدرلینڈ ، بلجیم اورفرانس کا بھی یوکرین کو دفاعی ہتھیار و آلات کی فراہمی کا اعلان،فرانس نے روس کا مال بردار جہاز پکڑ لیا۔
چیچن سربراہ نے یوکرینی صدر کو مشورہ دیا کہ پیوٹن سے معافی مانگ لیں،ادھر روس نے یوکرین پر حملے سے متعلق سلامتی کونسل میں امریکی قرار داد ویٹو کردی، چین، بھارت، امارات نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ۔
تفصیلات کےمطابق روس کی جانب سےجمعرات کو طلوع آفتاب سے قبل شروع ہونے والی کارروائی میں بڑے پیمانے پر فضائی اور میزائل حملوں اور شمال، مشرق اور جنوب سے یوکرین میں فوجیں داخل ہونے کے بعد سے ابتک200سے زائد افراد ہلاک اور ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
یوکرین کی ملٹری کمانڈ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ روس نے بحر اسود سےکلیبر کروز میزائل داغے جبکہ یوکرین کے صدارتی دفترکے مشیر کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ یوکرین کے شہروں خیر سون، میکولیف اور اڈیسا کے قریب لڑائی جاری ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق روس نے دارالحکومت کیف میں زولینی ایئرپورٹ اور سیوستوپول اسکوائر کےقریب رہائشی عمارت کو میزائل سے نشانہ بنایاگیا ہے، روس کی وزارت دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی فوج نے یوکرین کے شہر ملیتو پول پر قبضہ کر لیا، روسی فوج یوکرین میں فوجی اہداف کو کروز میزائلوں سے نشانہ بنا رہے ہیں۔
ادھر یوکرین کی فوج کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ اب تک 3500 سے زائد روسی فوجی ہلاک اور 200 کے قریب قیدی بنائے گئے ہیں،یوکرینی فوج کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس کے 14 طیارے، 8 ہیلی کاپٹر اور 102 ٹینک تباہ کیے جا چکے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ʼکے مطابق کیف کے سرحدی علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں سے پتا چلتا ہے کہ چھوٹے روسی یونٹس یوکرین کے دفاعی نظام کا اندازہ لگا رہے ہیں تاکہ مرکزی افواج کے لیے راستہ صاف کیا جاسکےتاہم 3دن سے بھی کم لڑائی کے بعد فوجیوں کی تیز رفتار حرکت نے روسی حملے کے بعد جمہوری حکومت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
کیف میں شہر کے حکام نے رہائشیوں پر زور دیا کہ وہ محفوظ جگہ پر پناہ لیں، کھڑکیوں سے دور رہیں اور اڑتے ملبے یا گولیوں سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
ماسکو نے کہا کہ اس نے فوجی اہداف پر کروز میزائل داغے ہیں اور یوکرین کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کو’’مسترد‘‘ کیے جانے کے بعد اب ہر سمت سے یوکرین پر حملے بڑھائے جائیںگے۔
پولینڈ کے نائب وزیر داخلہ پاول زیفرناکر نے بتایاہےکہ اس ہفتے روس کے حملے کے بعد سے 115,000 افراد یوکرین سے سرحد عبور کر کے پولینڈ پہنچے ہیں۔
یوکرین کی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ اس نے روسی فوجیوں سے بھرے ایک جہاز کو کیف کے قریب مار گرایا ہے جس کے باعث بڑی تعداد میں روسی فوجی ہلاک ہو گئے ہیں،برطانوی نشریاتی ادارہ اس دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا ہے اور روسی وزارتِ دفاع نے ابھی تک اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
یوکرینی حکام نے کہا کہ وہ یوکرین کے دارالحکومت کیف میں روسی افواج کے داخل ہونے کے بعد پیر کی صبح تک دن اور رات کا کرفیو نافذ کر رہے ہیں،کیف میں کرفیو ہفتے کو شام 5 بجےسے لیکر پیر کو 8:00تک رہے گا، کیف میں حکام نے اعلان کیا ہے کہ ایسے تمام شہری جو اس دوران گلیوں میں دکھائی دیے انہیں دشمن تصور کیا جائے گا۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے امریکا کی جانب سے انخلا کرانے کی پیشکش مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں اسلحہ چاہیے ،کیف سے انخلا کےلئے سواری نہیں،میں اورمیرے حکومتی ارکان کیف میں ہی رہیں گے، یہاں جنگ ہورہی ہے،ہمیں ٹینک تباہ کرنے کے لئے گولہ بارود چاہئے۔
اس سے قبل یورپی رہنمائوں سے ٹیلی فونک رابطے میں یوکرینی صدرکا کہنا تھا کہ وہ روس کا اولین ہدف ہیں، ممکن ہے کہ آپ مجھے آئندہ زندہ نہ دیکھ سکیں، میں اورمیرے حکومتی ارکان دارالحکومت کیف میں ہی رہیں گے۔روس نے یوکرین پر الزام عائد کیا ہے کہ مذاکرات سے انکار کرکے تنازع کو مزید طول دے رہا ہے جبکہ مغربی ممالک کی جانب سے روس پر دباؤ بڑھایا جارہا ہے۔
غیر ملکی خبرایجنسی کی رپورٹ کے مطابق کریملن کے ترجمان دیمتری پسیکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ ‘متوقع مذاکرات کے حوالے سے روسی صدر نے گزشتہ روز روسی فورس کو پیش قدمی روکنے کا حکم دیا تھا،انہوں نے کہا کہ جیسا کہ یوکرین کی جانب سے مذاکرات سے انکار کردیا گیا تو روسی فورسز نے دوپہر کو پیش قدمی دوبارہ شروع کردی’۔
دوسری جانب یوکرین اس تاثر کو رد کر رہا ہے کہ وہ جنگ بندی کےلیے روس کے ساتھ مذکرات سے انکار کر رہا ہے لیکن واضح کیا کہ وہ بھی الٹی میٹمز یا ناقابل قبول شرائط ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
یوکرین کے صدر ویلادیمیر زیلینسکی کے دفتر کے مشیر میخائل پوڈولیک نے غیرملکی خبرایجنسی کو بتایا کہ یوکرین مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن روس کی جانب سے مذاکرات کے لیے ناقابل عمل شرائط رکھی جارہی ہیں۔
ایک سینئر امریکی دفاعی اہلکار نے کہا ہے کہ روس کی وسیع حملہ آور فوج کا کم از کم 50 فیصد یوکرین کے اندر موجود ہےلیکن غیر متوقع طور پر سخت مزاحمت کی وجہ سے وہ سست پیش رفت کر پارہے ہیں۔
اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے پر اصرار کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے پاس ایسی اطلاعات ہیں کہ روسی گزشتہ 24 گھنٹوں میں خاص طور پر یوکرین کے شمالی حصوں میں اپنی رفتار کی سستی کی وجہ سے تیزی سے مایوس ہو رہے ہیں۔
برطانیہ کی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ روسی فوج کی کیئو کی جانب پیش قدمی عارضی طور پر سست پڑ گئی ہے جس کی وجوہات ممکنہ طور پر تقل و حمل سے منسلک مشکلات اور یوکرین کی جانب سے سخت مزاحمت ہو سکتی ہیں۔
ایک پیغام میں وزارت کی جانب سے کہا گیا کہ روسی فوجی یوکرینی آبادیوں اور مراکز کو تیزی سے عبور کرتے جا رہے ہیں لیکن اس کی وجہ سے ان کا گھیراؤ کرنا اور انھیں تنہا کرنا ممکن ہو رہا ہے،وزارت کا مزید کہنا تھا کہ یوکرین کے دارالحکومت کیف پر قبضہ کرنا اب بھی روس کا سب سے اہم ہدف ہے۔
ادھر امریکی صدر بائیڈن نے یوکرین کے لیےاضافی فوجی امداد کا اعلان کیا ہے،امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلنکن نے ایک بیان میں کہا ہےکہ صدر بائیڈن نے یوکرین کے لیے اضافی فوجی امداد کا اعلان کیا ہے جس کے تحت یوکرین کو 35 کروڑ ڈالر کی اضافی فوجی امداد فراہم کی جائےگی۔
انتھونی بلنکن نے بتایا کہ روسی حملےکے خلاف امریکی پیکیج میں ہلاکت خیز ہتھیاروں کی دفاعی امداد شامل ہوگی،پنٹاگون کا کہنا ہےکہ یوکرین کو فراہم کیے جانے والے اسلحے میں ٹینک شکن سمیت متعدد ایسے ہتھیار ہیں جو فرنٹ لائن پر موجود یوکرینی فوجیوں کے کام آئیں گے۔
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے حالیہ کچھ عرصوں میں یوکرین کو ایک ارب ڈالر سے زائد فوجی امداد فراہم کی گئی ہے۔دوسری جانب یورپی ممالک کی جانب سے بھی روسی حملےکے بعد یوکرین کو عسکری امداد کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
نیدرلینڈکی جانب سے 200 طیارہ شکن اسٹنگر میزائل فراہم کیے جارہے ہیں اور اس حوالے سے ولندیزی حکومت نے جلد ازجلد میزائل فراہم کرنےکے لیے پارلیمنٹ کو خط لکھا ہے۔ایک اور یورپی ملک بلجیم نے 2 ہزار مشین گن اور ہزاروں ٹن فیول فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
فرانس نے بھی یوکرین کو دفاعی آلات کی فراہمی کا فیصلہ کیا ہے، فرانسیسی فوج کے ترجمان نےکہا ہےکہ یوکرین کو دفاعی کے علاوہ روس کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے بھی ہتھیار فراہم کیے جارہے ہیں۔
جرمنی کی جانب سے یوکرین کو تیسرے ملک سے جرمن ساختہ اسلحے کی فراہمی سے متعلق پابندی ہٹا دی گئی ہے،اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ نیدرلینڈز جرمن ساختہ 400 راکٹ گرینیڈ لانچر یوکرین بھجوا سکے گا۔جرمنی کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ وہ یوکرین کو 1000 توپ شکن ہتھیار اور پانچ سو ’سٹنگر‘ میزائل فراہم کرے گا۔
یہ اقدام جرمنی کی اس طویل عرصے سے موجود پالیسی میں واضح تبدیلی ہے جس کے مطابق وہ جنگ زدہ علاقوں میں ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی عائد رکھے گا۔
چانسلر اولاف سکولز کا کہنا ہے کہ ’اس صورتحال میں یہ ہماری ڈیوٹی ہے کہ ہم یوکرین کی جس قدر ہو سکے مدد کریں تاکہ وہ ولادیمیر پوتن کی حملہ آور فوج کے خلاف مقابلہ کر سکیں۔
مزید برآں برطانوی نشریاتی ادارے کو معلوم ہوا ہے کہ فرانسیسی بحریہ نے انگلش چینل میں ایک ایسے بحری جہاز کو پکڑ لیا ہے جو روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ جا رہا تھا۔
فرانسیسی حکام نے بتایا کہ اس بحری جہاز کو یورپی یونین کی عائد کردہ نئی پابندیوں کی روشنی میں روکا گیا ہے،ایک عہدیدار نے بتایا کہ 127 میٹر طویل اس روسی مال بردار جہاز ’بالٹک لیڈر‘ کو فرانسیسی بحریہ نے انگلش چینل میں رات گئے روکا ہے اور اب اسے شمالی فرانس کی ایک بندرگاہ بھیج دیا گیا ہے۔
اسے فرانسیسی حکومت کی درخواست پر ایک فرانسیسی بندرگاہ کی جانب بھیجا جا رہا ہے کیونکہ یہ مبینہ طور پر ایسی کمپنی کا ہے جو ماسکو پر یورپی یونین کی پابندیوں کی زد میں آتی ہے۔
فرانسیسی سرحدی اہلکار اس وقت مال بردار جہاز کا جائزہ لے رہے ہیں اور ’بالٹک لیڈر‘ کا عملہ فرانسیسی حکام سے تعاون کر رہا ہے۔‘روسی خبر رساں ادارے آر آئی اے کے مطابق فرانس میں روسی سفارت خانے نے فرانسیسی حکام سے اس معاملے پر وضاحت طلب کر لی ہے۔
علاوہ ازیں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے روس کےعوام سےان کی زبان میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے یوکرینی پڑوسیوں کے خلاف ’’بے معنی جنگ‘‘ کے مستحق نہیں ہیں،آپ سارے جہاںکے لوگوں کی طرح سلامتی اور وقار کے ساتھ رہنے کے مستحق ہیں۔
مزید برآں روس کی نیم خودمختار مسلم اکثریتی آبادی والی ریاست چیچنیا کے سربراہ رمضان قادریوف نے یوکرینی صدر زیلنسکی کو روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے معافی مانگنے کا مشورہ دے دیا،روس کی نیم خودمختار ریاست چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی میں 12 ہزار کے قریب چیچن فورسز کے اہلکار اور رضاکار روسی حکومت کے اقدام کی حمایت میں جمع ہوئے اور روسی فوج سے یکجہتی کا اظہار کیا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیچنیا کے سربراہ رمضان قادریوف نےکہا کہ 12 ہزار چیچن اپنے ملک اور عوام کی حفاظت کیلئے کسی بھی قسم کے آپریشن میں حصہ لینے کو تیار ہیں، میں یوکرینی صدر کو مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ وہ پیوٹن کو فون کرکے معافی مانگیں اور یوکرین کو محفوظ بنائیں، یوکرینی صدر روس کی شرائط تسلیم کرلیں یہ ان کیلئے اچھا اقدام ہوگا۔
رمضان قادریوف نے روسی صدر پیوٹن سے بھی کہا کہ وہ یوکرینی صدر کو معاف کردیں۔ترک سفارتی ذرائع نے بتایا کہ ترک وزیر خارجہ چاوش اولونے بھی روسی ہم منصب سرگئی لائوروف کو فون کال کرکے یوکرین پر حملہ ختم کرنے کیلئے کہا۔
انقرہ نے بارہا یوکرین پر روسی حملے کو’’ناقابل قبول‘‘ قرار دیا ہے اور ماسکو اور کیف کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے،نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش رکھنے والے ذرائع نے بتایا کہ چاوش اولو نے لائوروف کو بتایا کہ مزید فوجی کشیدگی سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔
یہاں روس نے یوکرین پر حملے سے متعلق سلامتی کونسل کی مذمتی قرارداد کو ویٹو کر دیا۔غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق چین نے سلامتی کونسل میں یوکرین پر حملے سے متعلق مذمتی قرار داد کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔چین کے علاوہ بھارت اور متحدہ عرب امارات نے بھی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ہفتے کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے اقوام متحدہ میں’’سیاسی حمایت‘‘ کی درخواست کی تاہم نئی دہلی نے سلامتی کونسل میں ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔