• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ادب میں وفاداری سے کیا مراد ہے؟

اس سوال کو یوں بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ ادیب جب اپنی وابستگی کا اظہار کرتا ہے تو کس سے اور کس بنیاد پر؟ آیا کسی فکر یا نظریے کی بنیاد پر وہ اپنا یہ رشتہ استوار کرتا ہے کہ لسانی یا علاقائی بنیاد پر یا پھر وہ تہذیبی یا مذہبی بنیاد پر ایسا کرتا ہے یا ان سب سے الگ اور کوئی حوالہ اس کے پیشِ نظر ہوسکتا ہے؟ سوال کسی بھی طرح قائم کیا جائے، لیکن اس ذیل میں تفتیش اس بنیاد کی ہوگی جو ادیب کے یہاں وابستگی کا جواز بنتی ہے اور جس کے لیے وہ اپنے ہنر کو آزماتا ہے۔

کب سے ہمارے یہاں یہ مصرع گونج رہا ہے:

وفاداری بشرطِ استواری

اسی طرح گوئٹے نے کارلائل کے نام خطوط میں ایک جگہ لکھا ہے:

A genius is nothing but loyalty.

گویا مشرق ہو یا مغرب، دونوں ہی جگہ یہ مسئلہ عرصے سے توجہ طلب چلا آتا ہے۔ اپنے عصری، معاشرتی اور تہذیبی تناظر میں آج پھر یہ سوال ہمیں ایک نئی تفتیش کی دعوت دیتا ہے۔ مراد یہ کہ دوسرے بہت سے سوالوں کی طرح یہ سوال بھی ہمارے ادب میں بالکل نیا تو نہیں ہے۔ تاہم یہ کوئی ایسی بات بھی نہیں، اس لیے کہ ہر عہد اپنے تناظر میں بڑے سوالوں کو بارِ دگر اٹھا کر دیکھتا ہے اور اپنے حوالے سے ان کے جوابات طلب کرتا ہے۔ یوں بھی جب قیامِ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں یہ سوال ہمارے یہاں پوچھا گیا تھا، اُس وقت اس کی نوعیت کچھ اور تھی۔ 

ایک نئی اور نظریاتی مملکت کے قیام کے فوری بعد، دائیں اور بائیں کی باہم آویز قوتوں کی کشاکش کے مابین دنیا میں جب تہذیبیں ایک نقطئہ توازن کی تلاش میں تھیں، اُس وقت اس سوال کا معنیٰ وہ نہیں تھا، جو آج ہے۔ اس لیے کہ آج ہم یک قطبی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جہاں طاقت کے توازن کا تصور مفقود ہے، اس لیے کہ اقتصادی، سیاسی اور حربی اعتبار سے ایک غالب قوت یا مقتدرہ اپنی منشا اور مفادات کے تحت اس دنیا کی نظام سازی کر رہی ہے بلکہ ہم دیکھ رہے ہیں، یہ نظام بڑی حد تک اب دنیا کے مختلف خطوں میں رُو بہ عمل ہے اور اس کے زیرِ اثر اس دنیا کی صورت بھی بدل رہی ہے۔ یہ تبدیلی کہیں سیاسی نوعیت کی ہے تو کہیں جغرافیائی اور کہیں اقتصادی نوعیت کی۔

سارا ماجرا فقط اسی پر موقوف نہیں بلکہ آج کی دنیا چھہ سات دہائی قبل کی دنیا سے یوں بھی بہت مختلف ہے کہ اس میں زندگی کے اسلوب اور انسانی تجربہ و احساس کے سانچے میں بھی نمایاں قسم کی تبدیلی آئی ہے۔ اس تبدیلی کا سرنامہ ٹیکنالوجی میں برپا ہونے والا انقلاب ہے، جس نے ایک طرف رسل و رسائل اور نقل و حمل کی دنیا کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے تو دوسری طرف اس کے زیرِ اثر روزمرہ انسانی صورتِ حال میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن کا غیرمعمولی اثر انسانی سائیکی میں آنے والے تغیر کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ 

چناںچہ وہ جو کہا جاتا ہے کہ اب ہم ایک گلوبل ولیج میں سانس لے رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں نہ صرف حقیقتوں کی نوعیت بدل گئی ہے بلکہ ان کے انکشافات کا تناسب اور رفتار بھی بدل گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان پر اُن کے اثرات کی کیفیت اور شدت بھی تبدیل ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے پھر ان کے تحت انسان کا ردِ عمل یا رویہ بھی بدلا ہے۔

البتہ اہم اور غور طلب بات یہ ہے کہ اس گلوبل ولیج میں ذہنِ انسانی کے عصبی رویے بالکل نہیں بدلے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ زیادہ نمایاں اور محکم ہوئے ہیں لیکن قوموں اور تہذیبوں کے وہ امتیازی نقوش جو ان کے نظامِ اقدار اور طرزِ حیات میں ظاہر ہوتے تھے، وہ ماند پڑتے جاتے ہیں اور یہ کام قدرے تیزی سے ہو رہا ہے۔ غالب نے جب کہا تھا:

ہم مؤحد ہیں، ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم

ملّتیں جب مٹ گئیں اجزاے ایماں ہوگئیں

تو اُس کے پیشِ نظر مسئلہ ترکِ رسوم کا تھا جب کہ عہدِ جدید کا تہذیبوں سے مطالبہ اپنے اپنے اصلِ اصول سے دست برداری کا ہے۔ دراصل عہدِ جدید پورے عالمِ انسانی کو ایک ایسا ریوڑ بنانا چاہتا ہے جسے ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاسکے۔ دوسرے لفظوں میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ پورے انسانی سماج کو ایک روبوٹ قسم کی زندگی کے سانچے میں ڈھالنا عہدِ جدید کا منشا ہے۔ 

اس کے لیے جو کاوش اور اہتمام کیا گیا ہے، اس کے خاطرخواہ نتائج بھی حاصل ہو رہے ہیں۔ اس لیے کہ سعدی، حافظ، رومی اور قاآنی کی قوم یا بابا فرید، بابا بلھے شاہ، شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی قوم یا اسی طرح میر، غالب، انیس اور اقبال کی قوم ذرا ایک نظر خود پر ڈال پائے تو باآسانی اندازہ کرسکتی ہے کہ کولا، فاسٹ فوڈ، موبائل اور انٹرنیٹ والی قوم کے سانچے میں پوری طرح فٹ بیٹھنے میں اُسے مزید کتنا وقت درکار ہوگا۔

تمہید نے طول کھینچا لیکن اس صراحت کے بغیر ہم اپنے سوال کی نوعیت اور معنویت کو اپنے عہد کے سیاق و سباق میں درست طور پر سمجھ بھی نہیں سکتے تھے۔ تو آیئے اس سوال کو ایک بار پھر قائم کرتے ہیں اب سوال یہ کہ عہدِ جدید کے اس گلوبل ولیج میں کہ جہاں تہذیبیں اپنا اقداری نظام کھو رہی ہیں اور اُن کے امتیازی نشانات زائل ہو رہے ہیں، ذہنی سرگرمیوں کا مزاج اور جذبہ و احساس کا رنگ بدل رہا ہے، ادیب کی وابستگی کس سے ہوگی یا ادب میں وفاداری سے کیا مراد لی جائے گی؟

ادب اور ادیب کا سروکار انسانیت سے ہوتا ہے، لہٰذا اس کی وفاداری بھی بلاامتیازِ رنگ و نسل اور بلاتفریقِ ملک و ملت، انسان سے اور انسانیت سے ہونا چاہیے۔ انسانیت کے آدرش ادب کے آدرش ہونے چاہییں۔ بادی النظر میں یہ جواب درست اور جامع ہے، لیکن دشواری یہ ہے کہ آج کے مخصوص انسانی حالات کے پیشِ نظر یہ مسئلہ خاصا پیچیدہ ہوچکا ہے، لہٰذا آج یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ جواب اپنے اندر جو عینیت لیے ہوئے ہے، کیا وہ اس عہد کی زندگی کے ٹھوس اور اٹل حقائق کے تقابل میں کوئی معنویت اور کوئی جواز رکھتی ہے؟ جی نہیں!

ادیب کے خواب، اس کی تمنائیں، آرزوئیں اور اس کے آدرش خواہ کتنے ہی بلند، مثالی اور عینیت پسندانہ کیوں نہ ہوں لیکن اس کا تمام تر سروکار اپنے عہد کی حقیقتوں سے ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کے خواب اگر زندگی سے ربط اُستوار نہیں کرتے اور ّمتصل نہیں ہوتے، تو وہ صرف اور صرف خواب ہیں، محض فینٹیسی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ خواب اور فینٹیسی بھی ادب کے Paraphernalia میں بے کار نہیں ہوتے، کام آتے ہیں لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ادب کے اجزا کی حیثیت رکھتے ہیں، ُکل ادب بہرحال نہیں ہیں۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کوئی ادب حقیقت سے ماورا نہیں ہوسکتا اور کوئی حقیقت اپنے عصری، سماجی اور تہذیبی تناظر سے لاتعلق نہیں ہوسکتی۔ حقیقت انفرادی ہو یا اجتماعی اس کی معنویت کا تعین زمانی و مکانی حوالوں کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ چناںچہ ادیب اپنے زمانے سے لاتعلق ہوسکتا ہے اور نہ ہی اپنی زمین سے۔ اس کا فن ان دو حوالوں کے بغیر تعینِ قدر کے دائرے میں آ ہی نہیں سکتا، اس لیے کہ وہ جس انسانی تجربے کی جمالیاتی تشکیل کرتا ہے، وہ زمان و مکاں سے مشروط ہے۔ ان حوالوں کے بغیر قدر و قیمت تو رہی ایک طرف، اس واقعے کی واقعیت کا اثبات تک نہیں ہوسکتا۔

اگر آج یہ سوال کہ ادب کسی نظریے کے تحت تخلیق ہوسکتا ہے یا نظریے کے بغیر، اتنا اہم نہیں رہا تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ایسی بحث طلب نہیں رہی کہ ادیب کا مشرب انسانیت بہ حیثیتِ قدر ہے کہ نہیں۔ اس لیے کہ جس طرح یہ طے ہوچکا ہے کہ وہ شے جو کسی ادبی نگارش کو بڑا بناتی ہے، وہ ادیب کا نظریہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ کچھ اور عناصر ہوتے ہیں جو کسی نظریے کے ہونے یا نہ ہونے سے مشروط نہیں ہوتے۔ اسی طرح یہ بات بھی ّمسلمہ ہے کہ ادیب کا پہلا سروکار اس انسانی، سماجی اور تہذیبی دائرے سے ہوتا ہے جس میں وہ جی رہا ہے، جو اس کے مشاہدات، تجربات، تعقّلات یہاں تک کہ تعصبات تک کی بنیاد میں عامل کا کردار ادا کرتا ہے۔

اس مرحلے پر اس امر کے اظہار میں کوئی تأمل نہیں ہونا چاہیے کہ اپنے سماج اور اس کے اقداری نظام سے ضروری نہیں کہ ادیب کا رشتہ قبول ہی کا ہو، یہ رد کا بھی ہوسکتا ہے۔ ادیب یوں بھی اپنی فطرت میں non-conformist ہوتا ہے۔ اپنے عہد اور اپنے سماج سے عدم اطمینان کا اظہار وہ آزادی سے کرسکتا ہے، بلکہ اگر وہ عدم اطمینانی محسوس کرتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ اس کا اظہار کرے۔ اسی سے اُس کے فن کو آب ملتی ہے اور بیان کو تاثیر۔ تاہم معاملہ قبول کا ہو یا رد کا، ادیب کا رشتہ بہرحال اپنے عہد اور اپنے سماج سے ہوتا ہے۔ادیب کی اپنے سماج سے وابستگی کی ضرورت اور اہمیت محض آج کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ 

یوں دیکھا جائے تو گوئٹے اور ٹامس مان کو جرمن سماج سے، جب کہ چوسر اور شیکسپیئر اور وکٹورین عہد کے سارے ناول نگاروں کو برطانوی سماج سے اپنی وابستگی عزیز تھی، ییٹس نے تو جنگ کے زمانے میں نغمے تک لکھے تھے اور ٹی ایس ایلیٹ تو اپنی سماجی وابستگی پر باقاعدہ اصرار کرتا ہے۔ اسی طرح روس کے عہدِ زرّیں کے جس افسانہ یا ناول نگار کو اٹھا کر دیکھیے ٹولسٹوئے، دوستوئیفسکی، گورکی، چیخوف، شولوخوف سب کے سب اپنے سماج سے وابستگی کو اعزاز جانتے تھے، یہ الگ بات کہ مقننہ اور کلیسا سے بیزاری کا اظہار کرتے رہے۔ 

اسی طرح فرانس میں فلوبیئر، بالزاک، بودلیئر، والیری اور راںبو کو دیکھ لیجیے، وہ چاہے اپنے سماجی ڈھانچے کی کم زوری اور خامی سے کتنے ہی نالاں اور شاکی ہوں لیکن اپنی وابستگی کا اظہار اسی سے کرتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یورپ کے مختلف معاشروں اور مختلف ادوار میں ہمیں اپنے عہد اور اس کی انسانی اور مخصوص سماجی صورتِ حال سے ادیبوں کی وابستگی اور وفاداری کا اظہار ُکھلے بندوں نظر آتا ہے۔ سو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں اگر آج ہم اپنے ادیب سے اس کا سوال کرتے ہیں۔

دیکھا جائے تو عہدِ جدید کے ادیب کے ساتھ تو مسئلہ اور گمبھیر ہے۔ اس کی انسان دوستی یا انسانیت پسندی اپنی جگہ، مگر اس عہد میں جس طرح تہذیبوں کو فنا کا اور شناخت کے گم ہوجانے کا خوف لاحق ہے، اس وقت تو ادیب کی بالخصوص یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنے معاشرے اور اس کے تہذیبی نقوش کی بقا کا سامان بالارادہ اور بالالتزام سر انجام دے۔ 

انسانیت اور اس کے آدرشوں سے اس کی وفاداری بے شک اہمیت رکھتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے بھی پہلے تو اصل میں اُسے اپنے عہد اور سماج کے انسانی رویوں اور تہذیبی رُجحانات کی فکر کرنی ہے، جس معاشرے نے اُسے انسانیت کا شعور دیا اور اقدارِ حیات سے آگاہ کیا ہے اور جو اس کے فن کے لیے raw material فراہم کرتا ہے، اس کی بقا اور پاس داری کا احساس اُسے سب سے پہلے کرنا ہے۔ 

چناںچہ آج پاکستان کے ادیبوں اور شاعروں کو بھی اپنے عہد کے مطالبات کو سمجھتے ہوئے اپنے تہذیبی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے امتیازی نشانات کی بقا اور تحفظ کا نہ صرف ادراک کرنا ہے بلکہ اپنے فن کے ذریعے اس شعور کو اُجاگر بھی کرنا ہے۔ اپنے فن سے، ادب سے، تہذیب سے اور انسانیت سے ان کی وفاداری کا یہی اہم ترین اور اوّلین مطالبہ ہے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔

ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی