• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈائیلاگ ہار کر جیتنے والے کو بازی گر کہتے ہیں، شاہ رخ کی پہچان بن گیا

ممبئی (مانیٹرنگ ڈیسک ) بھارتی ہدایتکار عباس مستان نے امریکی مصنف ایرا لیون کے ناول ’اے کِس بیفور ڈائنگ‘ پر مبنی بولی وڈ فلم فلم ’بازی گر‘بنانے کا منصوبہ بنایا، عباس مستان نے’بازی گر‘ بنانے کا فیصلہ کیا تو منفی مرکزی کردار کی وجہ سےاکشے کمار، انیل کپوراورسلمان خان کے انکار بعد شاہ رخ خان سے رابطہ کیا۔اسکرپٹ سننے کے بعدشاہ رخ خان نے پہلی ہی ملاقات میں حامی بھرلی۔بازی گر‘ میں شاہ رخ خان کے علاوہ کاجول، شلپا شیٹی، راکھی اور دلیپ تاہل نمایاں ستاروں میں شامل تھے۔بازی گر‘ کا مشہور مکالمہ اتنے برس گزرنے کے باوجود شاہ رخ خان کی پہچان بن چکا ہے۔اسکرپٹ اورا سکرین پلے رائٹرز کی ٹیم جو رابن بھٹ، آکاش کھرانہ اور جاوید صدیقی پر مبنی تھی ، لیکن نوجوان اسکرین رائٹر آدیش کے ارجن کا لکھا گیا ایک مکالمہ فلم کی جان اور یادگار ڈائیلاگ بن گیا۔فلم میں کاجول کے والد سے گاڑی کی ریس ہارنے کے بعد شاہ رخ خان کاجول سے مخاطب ہو کرمکالمہ ادا کرتے ہیں کہ ’کبھی کبھی جیتنے کے لیے کچھ ہارنا بھی پڑتا ہے اور ہار کر جیتنے والے کو بازی گر کہتے ہیں۔‘شاہ رخ خان کو یہ سکرپٹ تھمایا گیا تو انہوں نے اس میں یہ اضافہ کیا کہ وہ کاجول سے پوچھیں گے کہ ’کیا کہتے ہیں؟‘ تو وہ جواباً کہیں گی ’بازی گر۔‘شاہ رخ خان کے اس پراثر مکالمے کا کاجول پر ایسا جادو چلتا ہے کہ وہ ان کے پیار میں تڑپنے لگتی ہیں اور یہیں سے کہانی ایک نیا پلٹا کھاتی ہے۔عباس مستان کی ’بازی گر‘ 12 نومبر 1993 کو نمائش پذیر ہوئی تو اس نے باکس آفس پر تہلکہ مچا دیا۔ اس فلم نے اگلے برس فلم فیئر ایوارڈ میں سے 10 نامزدگیوں میں سے چار جیتے۔شاہ رخ خان کو بہترین اداکار، انو ملک کو موسیقار، بہترین گلوکار کا کمار سانو اور سب سے بڑھ کر بہترین سکرین پلے کا جاوید صدیقی، رابن بھٹ اور آکاش کھرانہ کو ایوارڈز دیئے گئے۔

دل لگی سے مزید