• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

Endangeredاسپیشزان انواع کو کہا جاتا ہے جن کا مستقل قریب میں معدوم ہونے کا قومی امکان ہے۔ ان کی معدومیت کی کئی بنیادی وجوہات ہیں۔ ان میں خاص کر ان کے مسکن کی تباہی، انسانی سرگرمیوں کا عمل دخل اور ماحولیاتی عمل کے ساتھ دوسرے اسپیز کا عمل ا ور ایک دوسرے پر حملہ آور ہونا ہے۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (IUCN) کے مطابق دنیا میں کئی نایاب جاندار اقسام اب ریڈ لسٹ (Red list) کا حصہ بن چکےہیں۔ بدقسمتی سے انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان میں حیاتیاتی تنوع (Biodiversity ) کو بہت نقصان کا سامنا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے ان کی تعداد میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔ 

پاکستان میں کئی ریگستانی علاقاجات انہی جانداروں کی خصوصیت پر شناخت کھو چکےہیں ۔ جانداروں کی معدومیت ایکوسسٹم میں ایک نہ ختم ہونے والا خلا پیدا کر رہی ہے، جس کی وجہ سے کئی پیچیدہ قسم کے مسائل جنم لےرہے ہیں ۔ان میں سر فہرست کئی جان لیوا بیماریاں، زمین کی زرخیزی میں کمی اور ہمارے سیارے پر کئی نادر و نایاب پودوں اور جانورں کا ناپید ( Extint )ہونا شامل ہے۔ اب ہمارے موجودہ سیارے پر چیتا، سرخاب پرندہ ۔ Indian Rhino شیر اور Gavial crocodile کا تصور صرف خواب رہ گیا ہے۔

ان نایاب اقسام سے ہم محروم ہو چکے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک تقریباً 500کے لگ بھگ پودے Endangered اسٹیٹ تک پہنچ چکے ہیں جن میں پودوں کی کئی اقسام طبی اہمیت کے حامل ہیں جن کا ماضی میں پیچیدہ بیماریوں کے علاج میں استعمال ہوتا تھا کئی قیمتی ادویات ان پودوں سے تیار ہوتی تھی اب ان پودوں کا تصور ہی ممکن نہیں ہے۔ بدقسمتی سے جنگلات کی کٹائی، شاپنگ مال اور بتدریج صنعتوں کا قیام اور کئی طرح کی غیر ضروری ہائوسنگ اسکیموں نے قدرتی مسکن کانظام درہم برہم کردیا ہے۔

قدرتی مسکن کی تباہی کے بعد اسپیشز کی بربادی کا آغاز ہوا اور اس نتیجے میں اب تک کئی نادر و نایاب اقسام دنیا سے غائب ہو چکی ہیں۔ ان کی معدومیت نےارتقاتی عمل میں ایک خلا پیدا کر دی ہے اور ارتقائی عمل کو سمجھنے کے لئے اس خلا کو پر کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ عالمی سطح پر حیوانیات اور نباتیات کی کئی اقسام ناپیدا ہورہی ہیں، ان اقسام کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن میں خاص درج ذیل ہیں۔ Extint (Ex) مکمل طور پر ناپیدا ہو جانا ایسی اقسام جو مکمل طور پر معدوم ہو چکی ہیں اور اب دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود نہیں ہیں۔

(Extint wild ) ان کی بقا ایک قانون کے طور پر ممکن ہے اور اگر ان کا یہ مسکن ختم ہو جائے تو یہ خطرے سے لاحق ہے۔ (Critically Endangered) یہ وہ اقسام ہیں جو مکمل طور پر خطرے سے لاحق ہیں اور مستقل قریب میں مکمل ناپید ہونے کا خطرہ ہے۔Endangered جو کہ موجودہ دور میں خطرے سے دوچار ہیں، تاہم Vulnerable species بھی کئی وجوہات کی بنا پر خطرے سے باہر نہیں ہیں جب کہ (Near threatened) وہ اقسام ہیں جو حالیہ انسانی سرگرمیوں اور دوسرے عوام کی وجہ سے خطرے سے دو چار ہیں اور یہ قوی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مستقل قریب میں یہ بھی ناپید ہو جائے گی۔

(Conservation Dependent) وہ انواع ہیں۔ جن کو محفوظ کرنے کی کوشش مختلف طریقے اپنا کر کی جا رہی ہیں یہ انواع بھی خطرے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں جب کہ (Least Concern ) ان میں وہ انواع شامل ہیں۔ جن کی بقا کو فی الحال کم سے کم خطرہ لاحق ہے، تاہم اگر ان کی بقا کی کوشش مناسب طریقے سے نہ کی گئی تو یہ بھی معدومیت کی سطح پر پہنچ جائے گی۔ اس زمرے میں وہ پودے اور جانور بھی شامل ہیں جن کے کئی Taxon عام ہیں اور فی الحال خطرے سے باہر تصور کیے جاتے ہیں۔ دراصل وہ انواع جو کہ معدومیت کی سطح کو چھو رہی ہیں۔ 

ان پر سائنسی تحقیقی کا فقدان ہے اور سائنسی بنیادوں پر تحقیق نہ ہونے کے باعث ان کی مناسب طریقے سے کوئی حفاظتی پلان موجود نہیں اور نہ ہی مرتب کیا جا سکتا ہے۔ جب تک ڈیٹا کی کمی کو پورا نہ کیا جائے۔ ڈیٹا کی کمی کے باعث کئی اقسام دریافت سے قبل ہی معدومیت کا شکار ہو چکی ہیں، جن کی چانچ پڑتال دنیا کے کسی بھی خطے سے نہیں کی گئی ہے اقسام جو کہ ارتقاء میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں جن کی شناخت اور ماحول کے ساتھ یکسانیت/ وابستگی دراصل اس کا ایکوسسٹم کے ساتھ تعلق کے کئی پہلوئوں کو اُجاگر کرتا ہے، لہٰذا ارتقائی عوامل پر مکمل دسترس حاصل کرنے کے لئے ان اقسام کو معدومیت کا شکار نہ ہونے دیا جائے۔

 IUCN کی ریڈلسٹ کے مطابق کئی نادر و نایاب اقسام معدومیت کے خطرے سے دو چار ہیں۔ ان کی بقا کے لئے IUCN نے کئی قوانین مرتب کیے ہیں جن میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر انواع کی بقاء کے لئے حفاظتی پلان مرتب کرنا اور ان اقسام کے شکار پر مکمل پابندی اور شکار کرنے والے کو سزا دینے کا حکم اور نیشنل پارک کا قیام شامل ہے،تاہم ان اقسام کی حفاظت کے لئے ان کو ایک محفوظ مقام پر (Captive Breeding) کے لئے رکھا جائے، تاکہ ان کی افزائش نسل برقرار رہ سکے۔

کسی نوع کا تحفظ اس امکان کا ضامن ہے کہ اگر ان کا بروقت تحفظ نہ کیا جائے تو یہ معدویت کے خطرے سے دوچار ہو جائے گی کسی نوع کے تحفظ کا ادارک کرنے کے لئے سب سے پہلے اس کے اعداد و شمار معلوم کیے جائے، تاکہ اس کی صحیح تعداد اور مسکن کا تعین کیا جائے اور موجودہ حالات میں یہ کن مشکلات کا شکار ہے ان تمام وجوہات کو نوٹ کیا جائے اور پھر یہ حکمت عملی مرتب کی جائے کہ اب اس کی افزائش نسل کو کس طرح بڑھایا جا سکے اور آئندہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی آبادی میں مجموعہ اضافہ/ کمی کس حد تک ممکن ہے یا اس کی افزائش نسل کی کامیابی یا ناکامی کن عناصر پر منحصر ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا میں تقریباً50 سے زیادہ اقسام معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ 

اسی وجہ کو سامنے رکھتے ہوئے بین ا لاقوامی طور پر ان کے تحفظ و بقا کے لئے ایک ایکشن پلان بنایا گیا ہے ،تاکہ خطرے سے دوچار اقسام کو بچانے کے لئے ایک موثرحکمت عملی واضع کی جائے۔ دنیا میں مختلف تنظیمیں جو وائلڈ لائف کی حفاظت کے لئے سرگرم عمل ہیں جن کا بنیادی مقصد دنیا میں کسی بھی خطے میں ناپید ہونے والےانواع کی حفاظت اور اس کی نسل کے بقا کے لئے کام کرنا ہے۔

ان میں انٹر نیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر ،ورلڈ وائلڈ لائف ،aware پروجیکٹ فائونڈیشن اور دیگر فائونڈیشنز بھر پور کوششوں کررہےہیں کہ کس طرح معدوم انواع کے تحفظ کو ممکن بنایا جا سکے ،تاہم ان فائونڈیشن کے بنائے ہوئے کچھ قوانین تنازعات کا شکار ہیں ۔نیشنل پارک کی کمی کی وجہ سے کئی موزوں علاقیںجہاں پر جانداروں کا قدرتی مسکن ہے وہاں ان کی حفاظت ممکن نہیں ہو سکتی ہے۔ اور اس طرح کے مسائل ہی فائونڈیشن کے قیام میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں ۔ 

ایک حالیہ سروے کے مطابق اب تک تقریباً 1556 انواع معدوم ہو چکی ہیں جن میں کئی معروف جانور فنگس اور پودے شامل ہیں بدقسمتی سے بہت نایاب اقسام جن میں ڈو ڈو ، مسافر کبوتر ،عظیم لوک، شمانہن ٹائیگر اور اسٹیلر کی سمندری گائے مکمل طور پر معدومیت کاشکار ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ گنجے عقاب، گریزی ریچھ، امریکن باسین، اسٹیرن ٹجرولف، اور سمندری کچھوے بھی ناپید ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اس طرح بڑی وہیل ، بلیو وہیل،بلیوہیڈ وہیل، فن بیک وہیل ، گرے وہیل اسپرم وہیل اور ہمپ بیک وہیل ان آٹھ وہیلوں میں سے کچھ ایسی ہیں جو فی الحال خطرے سے دو چار ہیں ،ان کی آبادی میں اضافہ کے لئے ہنگامی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

خطرے سے دوچار انواع کی حفاظت کا سب سے موثر طریقہ ان کی Captive Breeding ہے۔ ان کو اجتماعی طور پر ایک ایسا ماحول مہیا کیا جاتا ہے جہاں یہ آرام سے اپنی نسل افزائش کو پروان چڑھا سکے خطرے سے دو چار انواع کوکثیر تعداد میں پروان چڑھا کر ان کو مختلف جگہوں پر ریلیز کیا جا سکے اور جن جن علاقوں میں ماضی میں ان کے قدرتی مسکن تھے۔ وہاں ان کو ریلیزکر کے ان کی افزائش نسل کو قدرتی ماحول فراہم کیا جائے۔ اس طرح 1981میں چڑیا گھر اور ایکوپریم کی اسیوسی ایشن (AZA) نے بڑا فعال کردار ادا کرتے ہوئے ایک اسپیشز سروائیول پلان تشکیل دیا ،جس کو (SSP) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ 

اس پلان کے تحت خطرے سے دوچار انواع کی (Captive Breeding )کروائی گئی اور اس طریقے سے اس کو محفوظ رکھا گیا ،اس پلان کے ذریعے تقریباً 450انواع کی افزائش نسل کو موثر طریقے سے دوبارہ بحال کرنےکی کامیاب کوششیں کی گئیں،جس میں یہ ایسوسی ایشن کافی حد تک کامیاب رہی۔ ان ایسوسی ایشن کے ساتھ ساتھ کئی Taxon Advisory Groups بھی تشکیل دیئے گئے جو باقاعدہ طور پر SSP کے پروگراموں میں باقاعدگی کے ساتھ معدومیت کی شکار اقسام کی بحالی، وائلڈ لائف کی بیماریوں کے پھیلنے کے لئے ویٹرنری کیئر سینٹر کے قیام کو عمل میں لایا گیا۔ ان ایسوسی ایشن کے زیر نگرانی دیو ہیکل پانڈا۔

نچلے حصے کا گوریلا اور کیلیفورنیا کنڈروس شامل ہیں۔ اس طرح جنوبی بلیو فین ٹونا کی افزائش اور اس کو خطرے سے بچانے کے لئے 2015میں آسٹریلیا ماہرین نے اس کو بند ٹنکیوں کے ذریعے ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقل کیا اور پھر ان ہی ٹنکیوں میں اس کی افزائش کے لئے خاطر خواہ کوشش کی اس کی نسل کشی کی بنیادی وجہ بھی ماہی گیری تھی۔ پاکستان میں خطرے سے لاحق انواع میں کئی جانور شامل ہیں، ان کی معدومیت ایک نہ ختم ہونے والی خلا کی پیش قدمی ہے۔ 

دریائے سندھ کا نایاب جانور ،دریائی ڈولفن اب خطرے سے دوچار ہے اور دریائے سندھ میں اس کی بہت ہی قلیل تعداد تقریباً 600کے لگ بھگ رہ گئے ہیں ۔محکمہ وائلڈ لائف اس کی بقاء کے لئے ہر ممکن کوششوں میں سر گرم ہے، اس طرح اونی اڑتی گلہری بھی گلگت بلتستان کا ایک نایاب چوہا ہے جو کہ دیکھنے میں چمگاڈر معلوم ہوتا ہے اس کی اونچائی تقریباً 1.5 سے 2 فٹ تک ہے جو اس کو دوسری گلہریوں سے ممتاز کرتا ہے۔ بدقسمتی سے بلتستان میں بھی انسانی سرگرمیاں اس کے قدرتی مسکن کو تباہ کرنے کا باعث بنی رہی ہیں اور اب یہ نایاب پہنچان بھی معدوم کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ 

اس کے برعکس برفانی چیتا جو کہ صوبہ خیبر پختوانخوں کے پہاڑی علاقوں کی جان سمجھا جاتا تھا اور ساتھ ساتھ اس کو پاکستان کا قومی اثاثہ بھی کہا جاتاتھا اب بڑھتی ہوئی آلودگی، اور انسانی سرگرمیاں اس کی بقاء کے لیےبھی خطرے کی علامت بنتی جا رہی ہیں۔ اس چیتے کا وزن 30-70کلو گرام تک ہو سکتا ہے، تاہم سفید سر والی بطخ جو کہ پاکستان کے کئی کھلے علاقوں میں پائی جاتی تھی۔

اس کانر قدرت کے کئی معجزات میں سے ایک معجزہ تھا، اس کی آبادی بھی خطرے سے لاحق ہے اور اگر اس کی افزائش نسل کے لیےسنجیدگی سےکوششیں نہیں کی گئیں تو اس کی بقاء بھی ناگزیر ہو جائے گی اور آئندہ وقت میں ہم اس نایاب نسل سے بھی محروم ہو جائیں گے، مگرمچھ جو کہ کراچی کے آس پاس مچھلیوںم اور دلدل میں پایا جانے والے جانور تھا اور اس خوفناک مخلوق کا مشاہدہ منگھو پیر جیسی جگہوں پر گرمیوں کے مہینوں میں سورج کی روشنی میں بآسانی کیا جا سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے انسانی سرگرمیوں اور پانی کی آلودگی اس کی بقاء کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ 

پانی میں رہنے والی بلی ایک ناقابل یقین جانور ہے یہ پاکستانی ساحلوں کے قریب گھر بناتی ہے پانی سے مچھلیاں پکڑ کر کھاتی ہے۔ اس کی تیرنے کی صلاحیت15تا20کلو میٹر تک ہو سکتی ہے یہ بڑی حیران کن مخلوق جو دیکھنے میں بڑی معصوم سی معلوم ہوتی ہےلیکن بدقسمتی سے پانی کی آلودگی اور ساحلوں کی کٹائی نے اس کی نسل کی بقاء کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے، اور اب یہ بھی ریڈ لسٹ کا ممبر ہے۔

اس کے علاوہ سائیبرین آئی پیکس دراصل شمالی علاقہ جات کی پہچان ہے یہ عموماً عام بکریوں سے مختلف جانور ہے، تاہم اس کے سر پر بے شمار سینگ ہوتے ہیں اور یہ اپنے ظاہری خدوخال میں بھی دوسرے جانوروں سے ایک علیحدہ حیثیت رکھتا ہے جب کہ نرم شیلڈ ٹرٹل کچھوے کی ایک ایسی نایاب قسم ہے جو کہ نہ صرف پاکستان کی سرزمین کا خزانہ ہے بلکہ حیاتیا تی تنوع میں اس کی بہت اہمیت ہے یہ بڑا حیران کن رینگنے والاجانور ہے اور اس کے لمبے سنور کال نٹھنے اور چمڑے کے خول کے ساتھ بہت منفرد اور دوسرے کچھوئوں سے آسانی سے ممتاز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن ان جانوروں کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی کےساتھ ساتھ انسانی سرگرمیوں کی مداخلت ان کا قدرتی مسکن ختم ہونا ان کی آئندہ نسل کی بقاء میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ 

اور آخر میں اگر ہم اپنے قومی جانور مارخور کا ذکر کریں تو یہ بڑا تکلیف طلب عمل ہے کہ ہمارا یہ خوبصورت جانور بھی اب معدومیت کا شکار ہے ویسے اس کا آبائی مسکن شمالی پاکستان اور بلوچستان تھا یہ پہاڑی علاقہ جات کی پہچان سمجھا جاتا تھا لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر ہم اب اس قومی جانور کی شناخت کو بھی کھوتے جا رہے ہیں اور مستقبل قریب میں بھی شاید اس کا کوئی ایک جانور بھی میسر نہ ہو، تاہم اب ضرورت اس امر کی ہے کہ آخر اس معدومیت کا شکار اقسام کی بقاء اور ان کی افزائش نسل کے لیے کیا موثر اقدامات ہو سکتے ہیں۔ذیل میں کچھ سفارشات درج ہیں۔ اگر ان میں چند سفارشات پر بھی مکمل عمل ہو جائے تو ہم کس حد تک حیاتیا تی تنوع کو بچانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔

٭ معدومیت کا شکار تمام انواع کا مکمل ڈیٹا مہیا ہونا چاہئے، تاکہ اس سے علاقائی طور پر لوگ مستفید ہوں اور پھر ان کے شکار پر فوری پابندی عائد کی جائے ۔

٭چڑیا گھر، نیشنل پارک اور کچھ ایسی حفاظتی جگہوں کا یقین کیا جائے اور نیشنل پارک کو ممکن بنایا جائے، تاکہ ان کی حفاظتی جگہوں پر ان جانوروں/پودوں کیCaptive Breedingکروائی جائے۔

٭ اپنے گھر یا صحن میں مقامی پودوں کے ساتھ ساتھ پونیسٹراگارڈن قائم کریں، کیوں کہ مقامی پودے مقامی جنگی حیات کے لیے خوراک اور پناہ گاہ فراہم کرتے ہیں۔

٭کھاد اور کیمیکل کا استعمال کم سے کم کریں، تاکہ استعمال کے بعد یہ ندی نالوں میں بہہ کر امیبا اور پھلوں کی زندگی کو اجیرن کرنے کا باعث نہ بنیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے گھر اور باغ میں پانی کا استعمال کم کریں ،تاکہ ادنی مخلوق کو زندہ رہنے کا موقع ملے۔ پینٹ، تیل یا اینٹی فریز اور دیگرکیمیکل باہر نہ پھینکیں ،یہ پانی کو آلودہ کر کے پالتو جانوروں کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔

یہ جاندار جو ہماری دنیا کی خوبصورتی اور ایکوسسٹم کے توازن کو برقرار رکھنے کے ضامن ہیں، لہٰذا ان کی بقاء اور تحفظ کے لیے اقدامات کریں ۔ آپ کی چھوٹی سی کاوش یقیناً آئندہ آنے والے نسلوں کے لئے بہت بڑی قربانی ہو گی ، لہٰذا سالانہ اسٹاپ ایکسٹینشن چیلنج میں دوسروں کےساتھ تعاون کریں، قدرتی ارتقاء کوبرقرار رکھنے میں ہر ممکن کوشش کو بروئے کار لائیں ۔ان کے مسکن کی بحائی کو یقینی بنائے ۔ اس سیارے کو انپے لئے نہیں بلکہ اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے کار آمد بنائے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید