ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے، اس سے قبل نہیں تھی۔ تاہم، اہم سوال یہ ہے کہ یہ کام کیسے کیا جائے؟ یہ چیلنج اس قدر بڑا ہے کہ دنیا کی کوئی بھی حکومت اس سے تن تنہا نہیں نمٹ سکتی۔ دنیا میں 80فی صد کاربن اخراج عالمی سپلائی چین سے ہوتا ہے، جس کے باعث کاروباری اداروں سے یہ توقع رکھنا فطری ہے کہ وہ بھی اس اہم ترین مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ یہی وجہ ہے کہ سی او پی 26کانفرنس میں حکومتی سرابراہان کے ساتھ ساتھ نجی شعبہ کے کارپوریٹ لیڈرز کو بھی مدعو کیا گیا تھا کہ وہ آئیں اور اپنا کردار اجاگر کریں۔
ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق، کارپوریٹ لیڈرز کو اس مسئلہ کی ہنگامی نوعیت اور ذمہ داری کا احساس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2020ء سے ہم نے کئی کارپوریٹ اداروں کو نیٹ- زیرو اہداف کے حصول کا اعادہ کرتے دیکھا ہے۔ کئی اداروں نے کاربن اخراج کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بڑے پیما نے پر کام کا آغاز کردیا ہے، جس میں ’اسکوپ 3‘ اخراج بھی شامل ہے، جس کے ذمہ دار ان کے سپلائرز ہیں۔
’سپلائی چین اپروچ‘ کے حامل ادارے زیادہ وسیع اہداف رکھتے ہیںاور کلائمیٹ چینج کے لیے مؤثر کام کررہے ہیں۔
آخر عالمی سپلائی کو نیٹ- زیرو پر منتقل کرنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟
ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیٹ زیرو سپلائی چین کا ہدف حاصل کرنے کے لیے 2050ء تک درکار 100 ٹریلین ڈالر سرمایہ کاری میں سے 25سے 50 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری چھوٹے اور درمیانہ درجہ کے اداروں میں کرنا پڑے گی۔
سالانہ بنیاد پر اس سرمایہ کاری کا متوقع حجم چھوٹے کاروباروں کے لیے 0.6تا 1.5ٹریلین، درمیانہ درجہ کے اداروں کے لیے 0.5تا 1.3ٹریلین اور بڑے اداروں کے لیے 1.5 تا 3ٹریلین ڈالر بنتا ہے۔ یہ صورتِ حال ماحولیات کے چیلنج کو زیادہ مشکل بنا دیتی ہے، کیوں کہ چھوٹے اور درمیانہ درجہ کے اداروں میں ادارہ کی سطح پر ماحولیاتی ماہرین دستیاب نہیں ہوتے۔
یہ اعدادوشمار بہرحال حتمی نہیں ہیں اور جیسے جیسے صنعتوں کی جانب سے ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف سرمایہ کاری کی جائے گی، اس کے مطلوبہ حجم کا بہتر اندازہ ہوتا جائے گا۔ تحقیقی رپورٹ میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے درج ذیل 7اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
پراڈکٹ ڈیزائن کا ازسرنو جائزہ
کاروباری اداروں کو چاہیے کہ وہ ڈرائنگ بورڈ پر دوبارہ بیٹھیں اور پراڈکٹ ڈیزائن کا ازسرنو جائزہ لیں۔ صرف موجودہ پراسیس کو انتہائی افادیت کی سطح پر لے جانا کافی نہیں ہوگا۔ نیٹ زیرو سپلائی چین محض باہر سے چند تبدیلیاں لانے سے قائم نہیں کی جاسکتی، بلکہ اس کے لیے ایک پراڈکٹ کی تیاری سے لے کر صارفین کے ہاتھوں اس کے استعمال تک، ہر مرحلے کا ازسرنو جائزہ لینا پڑے گا۔
اشتراکیت کو اپنانا
سپلائی چین میں یکسانیت نہیں پائی جاتی۔ اعلیٰ معیار کا باصلاحیت ٹیلنٹ، تعلیم اور وسائل بڑے اداروں کو مہیا ہوتے ہیں جب کہ چھوٹے اور درمیانہ درجے کے ادارے جو پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلی سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں، ان کے پاس نا تو ٹیلنٹ دستیاب ہوتا ہے اور ناہی وسائل۔ ایسے میں یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ تمام چھوٹے، درمیانے اور بڑے ادارے ایک دوسرے سے اشتراک کریں اور اس چیلنج سے مل کر نمٹیں۔
تبدیلی کیلئے مطلوب استعداد پیدا کرنا
تجارت کے لیے عالمی سپلائی چین کو نیٹ زیرو پر منتقل کرنے کے عمل میں سب سے بڑا درپیش مسئلہ اس کے لیے مطلوب علم اور صلاحیتوں کے درمیان فرق کا ہوگا اور یہ فرق سب سے زیادہ چھوٹے اور درمیانہ درجہ کے کاروباری اداروں میں محسو س کیا جائے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عالمی سطح پر کاروباری اداروں میںاستعداد پیدا کرنے اور تربیت فراہم کرنے کے لیے کوششوں کو تیز کیا جائے۔
ماحولیات دوست ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری
اقوامِ متحدہ نے 2050ء تک نیٹ زیرو ہدف حاصل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے اور اس کے لیے عالمی ادارہ نے تمام ممالک سے وعدہ لیا ہے۔ تاہم، صرف کاغذی اہداف سے کام نہیں بنے گا۔ اس کے لیے دنیا کو ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ میں سرمایہ کاری کرنا پڑے گی۔ ایسا اسی وقت ممکن ہوگا جب صنعت، سائنس اور مالیات کے محکمے اس اختراع کو بڑے پیمانے پر متعارف کرانے کے لیے اشتراک میں کام کریں گے اور ایک دوسرے کو ہر ممکن سہولت فراہم کریں گے۔
بہتر اعدادوشمار حاصل کرنا
ایسے سسٹم بنانے کی ضرورت ہے جو سپلائی چین میں آپریشنل ڈیٹا کو بروقت اکٹھا کرسکیں تاکہ شفاف، قابلِ موازنہ اور مستقل ESGاشاریے حاصل کیے جاسکیں اور وہ بڑے پیمانے پر دستیاب بھی ہوں۔ اس میں فیکٹری سے لے کر صارف تک ہرمرحلے کے اعدادوشمار شامل ہوں تاکہ صارف خریداری کے وقت باخبر فیصلہ کرسکے۔
پالیسی اور معیارات کے بارے میں اجتماعی سوچ
دیکھا گیا ہے کہ پالیسیوں، معیارات اور مارکیٹ پریکٹس میں اجتماعی طور پر یکسانیت نہ ہونے کے باعث کاروباری اداروں کو اپنے شراکت داروں کی وقت بوقت بدلتی ضروریات پوری کرنے میں دقت کا سامنا ہوتا ہے، جس کے باعث کاروبار کرنے کی پیچیدگیاں اور لاگت بڑھ جاتی ہے۔
کاروباری مراحل میں یکسانیت اور پیشگی اندازہ ہونا ضروری ہے ورنہ غیرمتوقع صورتِ حال لاگت میں اضافے اور تاخیر کا باعث بنتی ہے۔ عالمی سطح پر سپلائی چین میں یکسانیت لانے کے لیے ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو اعلیٰ معیار کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ مشترکہ معیار کے حصول کے لیے بھی کوشاں ہوں۔
سرمایہ کی دستیابی
عالمی سپلائی چین کو بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کی دستیابی ضروری ہے لیکن پیسے کی فراہمی کو صرف بینک یقینی نہیں بنا سکتے۔ بینک، سنڈیکیٹ میں کام کرسکتے ہیں، کارپوریشنز کے ساتھ اشتراک اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ قائم کرسکتے ہیں تاکہ وہاں سرمایہ فراہم کیا جاسکے جہاں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس کے لیے شفاف اور قابلِ رسائی اعدادوشمار کی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ سرمایہ کہاں جارہا ہے، اسے کس طرح استعمال کیا جارہا ہے اور کون استعمال کررہا ہے۔
تبدیلی کیلئے تیار کارپوریٹ لیڈرشپ
عالمی کاروبار کرنے کے انداز بدل رہے ہیں، ایسے میں کارپوریٹ لیڈرز کو بھی نئے طور طریقے اپنانے کے لیے اپنے ذہن کو کھولنا ہوگا، ورنہ گزشتہ کل میں رہنے والے بند ذہن کے کارپوریٹ لیڈرز اپنے اداروں کو تنزلی کی طرف لے جائیں گے۔
کاروباری ادارے صرف یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ ماحولیاتی ضروریات ہوں یا ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری، یہ کام صرف ان کے سپلائرز کریں گے، بلکہ اس کے برعکس کاروباری اداروں کو ان اہداف کے حصول کے لیے اپنے سپلائرز کے ساتھ مل کر سرمایہ کاری کرنا پڑے گی۔
حکومتوں کو اقتصادی مساوات کو دوبارہ متوازن بنانے کے لیے ترغیبات قائم کرنے کی ضرورت ہوگی اور پالیسیوں کے ذریعے کاروبار کے مختلف مراحل کو ایک دوسرے کے ساتھ موافقت میں لانا ہوگا۔ اس میں بڑے کاروباری اداروں کو زیادہ ذمہ داری لینا ہوگی اور چھوٹے کاروباری اداروں کے لیے اس عمل کو سادہ اور آسان بنانا ہوگاتاکہ وہ اس عمل میں پیچھے نہ رہ جائیں۔
ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اگر بڑے کاروباری ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ چھوٹے کاروباری اداروں کو پیچھے چھوڑ کر وہ آگے بڑھ جائیں گے تو وہ غلطی پر ہوں گے، کیوں کہ اگر چھوٹے کاروباری ادارے نیٹ زیرو اہداف حاصل نہ کرسکے تو بڑے کاروباری اداروں کی محنت، پالیسیاں اور سرمایہ کاری بھی ضائع ہوجائے گی۔
صنعتی اور کاروباری تنظیموں اور غیرسرکاری تنظیموں کو اس سلسلے میں معلومات اور وسائل تقسیم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور سپلائی چین میں نیٹ زیرو اہداف کے فوائد سے متعلق تمام شراکت داروں کو آگاہ اور اس کی اہمیت سے باخبر کرنا ہوگا تاکہ بڑے پیمانے پر اہداف حاصل کرنے کے لائحہ عمل پر سب متفق ہوکر ملکر کام کرسکیں۔