حقانی القاسمی
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اردو ادب کو جو نیا وژن اور نئی نظر دی ہے، وہ اتنی پاور فل ہے کہ نظریے میں تبدیل کردی گئی ہے اور یہ اب ایسا ماورائے زماں و مکاں نظریہ بن چکا ہے کہ حال ہی نہیں، مستقبل میں بھی اپنی زندگی کا ثبوت دیتا رہے گا۔
اسے آپ نظریہ کہیں، مگر مجھ جیسا حقیر فقیر اسے کچھ دیر کے لیے نظر کا ہی نام دے گا کہ ان دنوں مغرب کے ادبی حلقوں میں تھیوریز کی موت پر مباحثوں کا سلسلہ جاری ہے، ایک تھیوری کریٹک جان ہولنڈرکا کہنا ہے کہ تھیوری کئی برسوں سے مررہی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ تھیورسٹ، اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
مغرب میں موت کے اعلانات عام ہوچکے ہیں۔ انسان، تہذیب اور مذہب کی موت کا بھی اعلان کیا جاچکا ہے۔ خود نظریہ ساز بھی اپنے پرانے موقف سے منحرف ہوتے جارہے ہیں۔ اپنے پرانے نظریات سے رجوع کررہے ہیں، ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ پھر ادبی مطالعات اور متون کی تفہیم و تعبیر کا کیا زاویہ ہوگا، جبکہ تھیوری کو تنقیدی مطالعات میں مرکزی حیثیت دے دی گئی ہے، اسی سے جڑا یہ سوال بھی ہے کہ کیا تھیوری کے بغیر اچھی تنقید نہیں لکھی جاسکتی۔ یہ بات ہے تو پھر نارنگ صاحب کے ان مضامین کے بارے میں کیا رائے ہوگی، جو کاغذ آتش زدہ اورتپش نامۂ تمنایا کسی اور مجموعے میں شائع ہوئے ہیں۔ اُن کے بہت سے مضامین میں بظاہر تھیوریز کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔
مغربی اعلانات کو مان لیا جائے تو گوپی چند نارنگ کی تھیوری بھی اس موت کی زد میں آسکتی ہے، مگر ان کی تھیوری کی موت کا سوال اس لیے پیدا نہیں ہوتا کہ نارنگ نے ایک ایسی آفاتی نظر کو نظریے میں تبدیل کیا ہے، جس کا کلی انسانی روایت اور آزادی سے رشتہ ہے۔ یہ کوئی اقتداری یا آمرانہ انسانیت کش نظریہ نہیں ہے، جس کی عمر ایک دہائی یا زیادہ سے زیادہ دو دہائی ہوتی ہے۔ گوپی چند نارنگ نے اپنی تھیوری میں تمام حیات بخش عناصر کو سمیٹ لیا ہے ، ان تمام موضوعات اور مسائل کو بھی جوابدیت کے حامل ہیں۔ اس میں نہ زماں کی حد بندی ہے، نہ مکاں کی محدودیت۔ اس میں مقامیت بھی ہے اور آفاقیت بھی۔ یہ ایک ایسا آفاقی نظریہ ہے، جس کی اطلاقی صورتیں میرو غالب کے ہاں بھی تلاش کی جاسکتی ہیں اور آج کے شعراء کے ہاں بھی۔ نظر کا یہی وہ تسلسل ہے ،جو قدیم سے جدید تک جاری ہے۔
گوپی چند نارنگ کی ما بعد جدیدیت مغرب کی، و ہ پوسٹ ماڈرنزم قطعی نہیں ہے، جس کی موت پر بہتوں نے دستخط کردیئے ہیں، بلکہ یہ مشرق کی وہ ما بعد جدیدیت ہے ،جسے وقت کی تناسخی گردشیں بھی ختم نہیں کرسکتیں کہ اس کی موت مشرقیت کی موت سے مشروط ہے اور مشرقیت اس لیے نہیں مرسکتی کہ مغربی ذہنوں کو لرج، شیلی ، ایلیٹ، ہنری ملر، ہرمن ہیس، تھامس کامبیل، بائرن، بودلیر اور بکسلے نے بھی اس کی زندگی کو تحریک اور نئی توانائی دے دی ہے۔ شعور ذات اور باطنی ذات کا فلسفہ جب تک زندہ ہے، مشرق مرنہیں سکتا۔ اور اتفاق سے یہ فلسفے انسانی زندگی اور کائنات سے جڑے ہوئے ہیں۔ انسانی وحدت اور آزادی سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ کائناتی تسلسل سے ان کا نہایت گہرا اور مضبوط رشتہ ہے۔
گوپی چند نارنگ کی مابعد جدیدیت کی تھیوری کی اساس مشرق ہے، اس لیے اس نظریے یعنی نظر کی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ کوئی اور نظریہ یہ بھی ما بعد جدید فکر کو منسوخ نہیں کرسکتا کہ اس نے کسی اور نظریے کے لیے گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ ما بعد کے سارے نظریے، اس کی توسیع یا تمدید ہی کہلائیں گے۔ یہ تو ممکن ہے کہ کوئی اور تھیوری اس میں مقامی حالات یا مقتضیات کے تحت کچھ اور شقوں یا عناصر کا اضافہ کر لے، مگر اس سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں ہوگا، کیونکہ نارنگ نے پہلے ہی تازہ ہوائوں کے لیے دریچے کھول رکھے ہیں اور مستقبل کے ممکنہ ابعاد اور اطراف کو اس میں سمیٹ لیا ہے۔ اُنہوں نے صاف کہا ہے کہ ما بعد جدیدیت کے زمانے میں ادیب اپنی اقداری اور آئیڈیالوجیکل ترجیح میں آزاد ہے۔ (خواہ وہ تانیثیت ہو، دلت وِ مرش، ثقافتی مطالعات، ردتشکیل یا مابعدِ نو آبادی مطالعات ہوں)۔
نارنگ نے ادیبوں کے لیے کوئی لکشمن ریکھا کھینچی ہوتی یا دائروں میں قید کیا ہوتا تو شاید مشکل پیش آتی، مگر یہاں تو سارا معاملہ ہی آزادی کا ہے۔ کھلے ڈلے رویے کا ہے، یہاں نظریاتی جبریا ادعائیت کا معاملہ ہی نہیں ہے۔ یہ بات نہ ہوتی تو گوپی چند نارنگ’’فیض کو کیسے نہ پڑھیں‘‘ جیسا مضمون نہ لکھتے کہ فیض مارکسی آئیڈیالوجی کے شاعر تھے اور نارنگ نے اُن کے نظریات سے قطع نظر، اُن کی جمالیاتی آئیڈیالوجی کے حوالے سے اطلاقی عملی تنقید کا بہت ہی عمدہ نمونہ پیش کیا۔
گھٹن اور حبس کے خلاف یہ وسعت ذہنی اس لیے ہے کہ نارنگ یک رخا ذہن نہیں رکھتے۔ اُنہوں نے مختلف اقوام و ممالک کے ادبیات، فلسفوں اور تہذیبوں کا گہرا مطالعہ کیا۔ برسوں سوچا ہے۔ ادراک اور عرفان کی نئی منزلوں سے گزرے ہیں، تب اپنی آفاقی بصیرت کو ایک مربوط اور منظّم شکل دی ہے، جسے اہلِ دانش اور اربابِ نظر نے ’’اردوئی ما بعدِ جدیدیت‘‘ سے موسوم کیا۔
گوپی چند نارنگ نے اگر اپنے نظریے کی بنیاد مغربی افکار و تصورات پر رکھی ہوتی تو شاید مغرب کی طرح اُن کی تھیوری کی موت کا اعلان ہوچکا ہوتا، مگر اُنہوں نے ایسا نہیں کیا، بلکہ مشرق و مغرب کے ثقافتی تعامل سے اردوئی مابعد جدیدکا خمیر تیار کیا اور اردو کی انجذابی قوت و کیفیت کے عین مطابق نظریاتی طرفیں کُھلی رکھیں۔
نارنگ نے مغرب میں ما بعد جدیدیت کے غلغلہ کے بعد مشرق میں اس کی تلاش اور دریافت کا عمل شروع کردیا تھا اور مشرق کی اس گمشدہ میراث کی جستجو میں وہ بہرہ مند ہوئے، پھر مابعد جدید رویے کو اردو میں متعارف کرایا۔ ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، کے ذریعے اس تصور کو عام کیا، چونکہ اس جستجو کا محرک مغرب تھا، اس لیے مغربی تصورات سے استفادے کا اعتراف بھی کیا۔
اُنہوں نے اپنی کتاب میں جلی حرفوں میں نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ اس سر چشمے کی تلاش کے ضمن میں مغرب کو ممنونیت کا کشادہ دلی سے اعتراف کیا کہ اس طرح کے ثقافتی تعامل اور ترابط سے ہی علمی اور فکری روایات کی توسیع ہوتی ہے، یہ سلسلہ بہت پرانا ہے کہ ایک دوسرے کی علمی اور تہذیبی روایات سے اخذ و استفادے کے ذریعے اپنی علمی اور فکری ثروت میں اضافہ کیا جائے۔
گوپی چند نارنگ نے لسانیات کی مبادیات سے لسانیات کے فلسفے معنی تک رسائی میں گہری ریاضت کا ثبوت دیا ہے۔ یہ اُن کی مطالعاتی وسعت ہی ہے کہ اُنہوں نے مغرب کی نقالی نہیں کی، بلکہ مغرب کی نقالی کا ثبوت مشرقی شعریات سے دلائل کے ساتھ پیش کردیا۔
نارنگ صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ سوسیئر کے خیالات عبدالقاہر جرجانی سے ملتے جلتے ہیں۔ اُنہوں نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ ردِ تشکیل کی پہلی اینٹ میں بھی مشرقیوں کاہاتھ لگا ہے۔ اُن کی یہ بھی نئی دریافت ہے کہ بھرتری ہری کے نظریہ سپھوٹ اور سوسئیر کے تصور ’نشان‘(Sign) میں مطابقت ہے، اور زبان کی افراقیت کا سوسئیری تصور واضح طور پر بودھ ’اپوہ‘ سےماخوذ ہے۔ معنی کی نفی درنفی یعنی(جدلیاتی حرکیات) اور دریدا کے نظریہ افتراق و التوا اور بودھی نظریہ’شونیہ‘ میں واضح متوازیت دیکھی جاسکتی ہے۔ اُنہوں نے اپنی کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ سوسئیر نہ صرف سنسکرت جانتا تھا، بلکہ انڈویورپین کے علاوہ وہ پیرس اور جینیوا میں سنسکرت پڑھتا بھی رہا ہے۔
نارنگ صاحب کی کتاب’’ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘کے عمیق مطالعے سے یہ عرفان ہوتا ہے کہ جو فکریات حیطہ مغرب سے حریم مشرق میں داخل ہورہے ہیں ، وہ پہلے سے ہی مشرق کا ورثہ رہے ہیں۔ نارنگ صاحب کا اردو مابعد جدیدیت کا نظریہ بھی اساسی طور پر مشرق سے ہی ماخوذ ہے۔ ’’ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ ما بعد جدید فکریات اور مباحث پر محیط ہے تو ’’اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب‘‘ اور بعد کی کتابیں اس کا عملی استشہاد ہیں۔ ان میں، اُنہوں نے مشرق کے قدیم و جدید، شعری تصوّرات اور ما بعد جدید فکریات میں مماثلت کی اطلاقی شکلیں پیش کردی ہیں، جو معمولی کارنامہ نہیں۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی