ادب کی زوال آمادگی کا مسئلہ ہمارے یہاں کچھ عرصے سے ایک بار پھر موضوعِ گفتگو بنا ہوا ہے۔ گو یہ بات مختلف حلقوں میں مختلف انداز سے کہی جارہی ہے لیکن سارے قصے کا خلاصہ ایک ہی نکلتا ہے، یہ کہ اردو ادب زوال پذیر ہے اور ہمارے یہاں اب کسی کو ادب سے کوئی سروکار نہیں رہا۔ بظاہر تو یہ بات درست ہی نظر آتی ہے اور ہمارے اطراف کی صورتِ حال ایک حد تک اس احساس کی تو ثیق بھی کرتی ہے۔
تاہم یہ کوئی معمولی یا بے ضرر سی بات نہیں ہے کہ اسے سرسری دیکھا اور نظر انداز کر دیا جائے۔ اس کے برعکس یہ مسئلہ اتنا اہم بلکہ سنگین ہے کہ اسے حتمی طور پر تسلیم کرنے سے قبل اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے— اور اگر ممکن ہو تو اس کو غلط ثابت کیا جائے۔ اس لیے کہ ہمیں اس حقیقت کو قطعیت کے ساتھ سمجھ لینا چاہیے کہ جس معاشرے میں ادب مرجاتا ہے، اس میں پھر تہذیب بھی زندہ نہیں رہتی، مادے اور جسم سے ماورا حقائق کا شعور بھی باقی نہیں رہتا اور اخلاقی و روحانی اقدار کا نظام بھی باقی نہیں رہتا۔
ہمارے یہاں ادب کی موت کا اعلان پہلی بار کوئی پینسٹھ سڑسٹھ برس قبل محمد حسن عسکری نے کیا تھا۔ پہلی بار سننے والوں کے لیے یہ خبر یقینا اندوہ ناک تجربہ رہی ہوگی۔ اس کے بعد ادب کی موت کا اعلان اس طرح تو نہیں ہوا لیکن ادب کے زوال کا چرچا گا ہے گاہے ضرور ہوتا رہا ہے۔ ہمارا نفسیاتی مدافعتی نظام اس معاملے میں اب پہلے کی طرح فوری اور شدید ردِ عمل کا اظہار نہیں کرتا۔ گویا ہم نے اس صورتِ حال کو کسی نہ کسی سطح پر قبول کرلیا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ادب کا مردہ اٹھائے پھرنے کی ضرورت کیا ہے۔ اس حقیقت کو ایک بار تسلیم کر کے روز روز کے اس مرنے جینے کے جھنجھٹ سے چھٹکارا کیوں نہ حاصل کر لیا جائے۔ لیکن کیا یہ بات اتنی ہی سادہ اور معمولی ہے؟
ماجرا اصل میں یہ ہے کہ ادب کے زوال سے مراد ہے پوری ایک تہذیب، اس کے پیدا کردہ طرزِ احساس اور انسانی اعمال اور تعلقات کی صورت میں ظاہر ہونے والے ذ ہنی و فکری رُجحانات کا زوال۔ چناں چہ ادب کے زوال پر بات کرنے یا اس کے انحطاط کا نقشہ مرتب کرنے سے پہلے بہتر ہوگا کہ ہم ایک نظر حقائق پر ڈالیں اور یہ دیکھ لیں کہ آج اس مسئلے کو ہمارے یہاں کس انداز سے دیکھا اور سمجھا جارہا ہے۔ ادب کے زوال پر گفتگو کرتے ہوئے قرۃ العین حیدر نے کہا تھا کہ ہمارے یہاں اجتماعی تجزیے کا وجود ہی نہیں۔ یاسیت اور اضمحلال کی رو میں تو یہ بات کہی جاسکتی ہے لیکن کیا اسے حتمی صداقت کے طور پر بھی قبول کیا جاسکتا ہے؟
اس لیے کہ ادب اپنی تفہیم کی ایک سطح پر اجتماعی تجربے اور اس کے تجزیے کی صورت بھی وضع کرتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ادب ہمیں اس تجربے کی معنویت کا فہم بھی عطا کرتا ہے اور اس میں شرکت کا موقع بھی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے عصری ادب سے اپنے عدم اطمینان کا اظہار نہایت شدت سے کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عہد کا ادب وہ عصری انسانی احساس سے عاری اور سچائی کے جوہر سے خالی ہے اور یہ کہ کوڑے کا ڈھیر ہے۔ انتظار حسین کو بھی ادب کا کاروبار ماند نظر آتا تھا۔ اس لیے کہ اب ادیب کی دل چسپی ادب سے زیادہ ادب کے ذریعے حاصل ہونے والی چیزوں میں ہے اور یہ کہ ادب اُسے جن عصری سوالوں اور مسائل پر سوچنے کی دعوت دیتا ہے، وہ ان سے لاتعلق ہے۔
حوالے اور اسباب گو کہ الگ ہیں اور مسئلے کو دیکھنے کا زاویہ بھی الگ ہے لیکن نتیجہ جب ہم دیکھتے ہیں تو وہ ایک ہی نظر آتا ہے، یہ کہ ادب پر زوال آیا ہوا ہے۔ اسے محض اتفاق سمجھنا چاہیے یا یہ ایک علاحدہ اور توجہ طلب موضوع ہے کہ جن تین نام ور ادیبوں کے حوالے سطورِ ما قبل میں پیش کیے گئے وہ ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، اُس نسل سے جس نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز چالیس کی دہائی میں کسی وقت کیا تھا۔
گویا ساٹھ پینسٹھ برس کے کام کے بعد یہ لوگ ادب اور اس کی صورتِ حال سے مایوسی یاکم سے کم لفظوں میں عدم اطمینانی کا شکار ہوئے تھے۔ کچھ ایسے ہی احساسات کا اظہار بعد کے زمانے میں ادب کے میدان میں اُترنے والی نسلوں کے بعض لوگ بھی کرتے نظر آتے ہیں، جنھیں اپنے شعری مجموعے اور افسانوں یا مضامین کی کتابیں شائع کرنے میں اس لیے تامل ہے کہ پڑھنے پڑھانے کا ذوق اب کہاں رہ گیا ہے۔ گویا انقباض کی کیفیت اس وقت ہماری ادبی فضا میں ہے۔
اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کیا جانا چاہیے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے کچھ اوپر کے عرصے میں پڑھنے لکھنے کے رُجحان میں کمی واقع ہوئی ہے۔ نتیجتاً کتابوں کی اشاعت متاثر ہوئی، ادبی رسائل کا حلقہ سمٹا، وہ جو سنجیدہ ادبی ہفتہ واری نشستیں ہوا کرتی تھیں ان میں بھی چلیے کسی قدر کمی نظر آتی ہے۔ یہ باتیں درست ہیں لیکن اس نئی دنیا اور نئے عہد میں یہ سب کچھ صرف ہمارے یہاں نہیں ہوا ہے۔ ہم تو تیسری دنیا کے باسی ہیں، اگر جہانِ اوّل کو دیکھیں تو وہاں بھی کچھ اس کے مماثل ہی صورتِ حال سامنے آتی ہے۔
گو تناسب کا فرق ضرور محسوس ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ عہدِ جدید اور اُس کے رُجحانات نے وہاں ادب اور دوسری سنجیدہ فکری و ذ ہنی سرگرمیوں کو مطلق متاثر ہی نہ کیا ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ تبدیلی جو نئے زمانے کے اثرات اور رُجحانات کے زیرِ اثر آئی ہے، اسے عالمی سطح پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس نئے زمانے میں تغیر کی رفتار ہوش رُبا ہے۔ انسانی زندگی کا تجربہ بہت کچھ بدل چکا ہے،اس کے احساس کی دنیا متغیر ہوچکی ہے، زندگی اور اس کے حقائق کا شعور تبدیل ہوچکا ہے، اپنے داخل اور خارج دونوں حوالوں سے انسان کے فکرو نظر میں تبدیلی آئی ہے۔ ان تغیرات کا اثر اس کائنات میں انسان کے سہ ابعادی رشتے (انسان کا خدا سے رشتہ، کائنات سے رشتہ اور انسان کا انسان سے رشتہ) پر بھی ہوا ہے۔
اس وجہ سے زندگی کی معنویت اور اس کا فہم بھی بدل گیا ہے۔ نئے زمانے کے انسان کے لیے ہر شے، ہر سرگرمی اور ہر رشتے کی اہمیت کا تعین اس کے مادی اور افادی پہلو سے ہوتا ہے۔ زندگی کے بیش تر معاملات اب اسی کسوٹی پر پرکھے جاتے ہیں اور ہر احساس اسی میزان پر پورا اترنے کی صورت میں بار پاتا ہے۔ یہ ہے نئی دنیا اور اس کی انسانی صورتِ حال۔ انسان اس منزل تک کیوں کر پہنچا ہے یا پہنچایا گیا ہے ؟ یہ ایک بالکل الگ اور تفصیل طلب موضوع ہے، جس پر ہم کسی اور موقعے پر بات کریں گے۔ فی الحال ہم اس صورتِ حال کے اپنے ادب اور ادیبوں پر اثرات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فکرو احساس کے اس تغیر اور اس کے ضرر رساں اثرات کو سب سے پہلے اور شدت کے ساتھ ہمارے ادب کی بزرگ نسل نے محسوس کیا۔ بعد کے زمانے کی نسلوں پر اس کے اثرات بتدریج کم رہے ہیں۔ اس کی اہم ترین و جہ یہ ہے کہ جتنی پرانی نسل کے لوگ ہیں، ان کے تجربے، مشاہدے اور حافظے میں اتنا ہی پرانا زمانہ، اس کی اقدار اور امی جمی کا احساس محفوظ ہے۔ جب کہ بعد والوں کو زمانے کے تغیر کے تناسب سے بدلی اور بدلتی ہوئی دنیا میسر آئی ہے اور اسی لحاظ سے ان کا ردِ عمل ظاہر ہوا ہے۔
چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسّی اور اس کے بعد کی نسل کا زمانی، تہذیبی اور فکری تجربہ اگلوں سے خاصا مختلف ہے اور اسی باعث نئے زمانے اور اس کی صورتِ حال کی طرف اُن کا رویہ بھی ماقبل نسلوں کے افراد سے مختلف ہے۔ خیر اس وقت اپنے ادب کی نئی اور پرانی نسلوں کے طرزِ احساس کا جائزہ اور موازنہ مقصود نہیں بلکہ غور طلب بات یہ ہے کہ ہم عصر انسانی صورتِ حال میں ادب کی طرف ہمارا اجتماعی رویہ کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟
زمانے کے تغیر اور ادب کے زوال کا احساس اور اس کے اسباب اپنی جگہ درست، اور یہ بھی تسلیم کہ نیا زمانہ اور اس کی تہذیب ایک ٹھوس سچائی ہے جو اپنی تمام تر بلا خیز قوتوں کے ساتھ ظہور کر رہی ہے۔ ہم اس کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور نہ ہی اس کو جھٹلا کر اس سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔ تو پھر ہم کیا کر سکتے ہیں؟
ہمارے پاس صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے، وہ یہ کہ ہم اس نئے زمانے اور نئی دنیا کو وہ کرنے دیں جو یہ کر رہی ہے اور کر کے رہے گی اور ہم وہ کریں جو اپنی تہذیب اور اس کے نظامِ اقدار کو بچانے کے لیے ہم کرسکتے ہیں۔ اس وقت ہمارا کام نہ تو زمانے کے بدلتے ہوئے حالات پر کڑھنے سے چلے گا اور نہ ہی صبر سے بیٹھ رہنا، اس مسئلے کا حل ہے۔ اس وقت ہمیں ایسے عمل کی ضرورت ہے جو ہماری تہذیب، اس کے اخلاقی و روحانی اور ثقافتی عناصر کی بقا اور استحکام کے لیے مفید ہوں۔
ہماری تہذیب کیا ہے، اس کی بنیاد کس پر ہے اور ہمارا ادب اس کے مظاہر میں کیا درجہ رکھتا ہے؟ یہ جاننے کے بعد ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہمارا عصری ادب کس حد تک ہمارے تہذیبی جوہر کی پاس داری کررہا ہے۔ تا ہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ کسی بھی عہد کا ادب کما حقہ، یکساں قدروقیمت کا حامل نہیں ہوتا لیکن من حیث المجموع اگر وہ اپنے تہذیبی حقائق کا نمائندہ ہے تو ہمیں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھناچاہیے۔ اس لیے کہ تغیر و تنزل کے زمانے میں بنیادی حقائق کا شعور اور اظہار ہی اصل جوہر کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد دوسری اہم بات یہ کہ جو کچھ ہم کررہے ہیں اسے لاحاصل نہیں سمجھنا چاہیے۔
زوال و ادبار کے زمانے میں بے یقینی سب سے بڑھ کر بے سمتی کا سبب بنتی ہے۔ عہدِ جدید اگر ہمارے تہذیبی وجود کو گھائل کرتے ہوئے گزر رہا ہے تو اس کے دیے ہوئے زخموں کو چاٹتے رہنا، ان کا علاج نہیں ہے۔ اس کے برعکس زخم چاٹنے سے ہم اپنی اذیتوں سے لذت کشی کے عادی ہوجائیں گے اور یہ خود رحمی کی بدترین شکل ہے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس احساس کو فروغ دیا جائے کہ ہم نے نئے زمانے اور اس کی قوتوں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں اور نہ ہی ڈالیں گے۔
جہاں بھی ہمارے یہاں لائقِ قدر کام ہورہا ہے، ہمیں اس کی بھر پور پذیرائی کرنی چاہیے۔ منفی احساسات بھی زندگی کا حصہ ہیں لیکن ہمیں تا دیر ان کے زیرِ اثر نہیں رہنا چاہیے اور ان کے پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ مثبت رویوں کی پاس داری ضروری ہے تاکہ یقین و ثبات کے احساس کو فروغ حاصل ہو۔ ہمارا عصری ادب ہماری تہذیبی اقدار کا آئینہ دار اور ہمارے زندہ و فعال شعور و احساس کا ترجمان ہے۔ نئی نسل کے جو لوگ ادب و تہذیب کی بقا اور استحکام کے لیے متانت کے سا تھ کام کررہے ہیں، وہ بھی اسی طرح قابلِ قدر ہیں جیسے ان سے پچھلی نسلوں کے لوگ۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اپنے ادب و تہذیب کی طرف سے آج ہماری بے اعتنائی یا اس کی بے مایگی کے احساس کا فروغ نادانستگی میں ہمیں تہذیب دشمن قوتوں کا آلۂ کار بنا دے گا۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی