پاکستان میں ٹیلی وژن کی آمد سے، جن ادیبوں نے اردو زبان کے ادبی منظرنامے پر جداگانہ مقام بنایا، پاکستانی ڈراما نگاری اور ڈراما سازی کی صنعت کو مضبوط کیا، ان میں سے ایک معروف براڈ کاسٹر، ادیب، ڈراما نگار، افسانہ نگار اور داستان گو’’اشفاق احمد‘‘ ہیں۔ جن کی کہانیوں نے سماج پر ادبی اثرات مرتب کیے۔ آج بھی مقبول اور بہت زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں، ان کی کتابیں سرفہرست ہیں۔ پاکستانی ادب اور ڈرامے کی تاریخ میں اشفاق احمد خود کئی ادوار کے چشم دید گواہ اور کئی معاملات میں شریک بھی رہے۔ ان کو پاکستانی ادبی تاریخ میں سیاست کی آمیزش کے تناظر میں بھی دیکھا جائے گا، لیکن اس کے باوجود، انہوں نے اپنے تخلیق کیے ہوئے ادب اور اپنی قصہ گوئی کی بدولت ایک بڑے طبقے کو متاثر کیا۔
اشفاق احمد 1925 کو غیر منقسم ہندوستان میں پیدا ہوئے، جبکہ ان کی رحلت 2004 کو لاہور میں ہوئی۔ ان کا خاندانی پس منظر مشہور پٹھان قبیلے’’مہمند‘‘ سے ہے۔ وہ قیام پاکستان کے موقع پر والدین کے ہمراہ لاہور آئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے اردو ادب میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ ان کی زوجہ اور معروف پاکستانی ادیبہ بانو قدسیہ ان کی ہم جماعت بھی تھیں۔ اشفاق احمد پنجابی، اردو ،ا نگریزی زبانوں کے ساتھ ساتھ اطالوی اور فرانسیسی زبانوں پر بھی عبور رکھتے تھے۔ ان کی ابتدائی کہانیاں بچوں کے معروف رسالے’’پھول‘‘ میں شائع ہوئیں۔
حکومت پاکستان کی طرف سے ان کو اٹلی بھیجا گیا، جہاں انہوں نے ایک طویل عرصہ گزارا۔ پاکستان واپسی کے بعد بچوں کے لیے ایک رسالہ جاری کیا، جس کا نام’’داستان گو‘‘ تھا۔ آپ ریڈیو پاکستان سے بطور کہانی نویس بھی وابستہ ہوگئے تھے۔ ایک معروف ادبی جریدے’’لیل و نہار‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ ریڈیو کے بعد یہ ’’مرکزی اردو بورڈ‘‘ اور’’اردو سائنس بورڈ‘‘ کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ سابق آمر ضیاالحق کے دور میں وزارت تعلیم کے مشیر بھی رہے۔ انہوں نے اردو زبان کے فروغ کے لیے’’مرکزی بورڈ برائے فروغ اردو‘‘ بھی تشکیل دیا۔
پچاس کی دہائی سے انہوں نے ادب لکھنے کی شروعات کی۔ 1955 میں ان کی کہانی’’گڈریا‘‘ کو بہت شہرت حاصل ہوئی، انہوں نے یہ کہانی اپنے ایک استاد کی محبت و شفقت کو خراج پیش کرنے کے لیے لکھی تھی۔ 60 کی دہائی میں ریڈیو پروگرامز’’تلقین شاہ‘‘ اور’’بیٹھک‘‘ ریڈیو پاکستان کے لیے پیش کیے، جن کو بہت پسند کیا گیا۔ جب ٹیلی وژن کادور آیا،تو آپ اس ابتدائی ٹیم کاحصہ تھے۔ آپ نے پاکستان ٹیلی وژن کے بے شمار ڈرامے لکھے۔
اپنے لکھے ہوئے بہت سارے ادب کو ڈرامائی شکل دی اور بہت سارے ڈراموں اور ٹی وی پروگراموں کو کتابی صورت میں ڈھالا۔ آپ کی درجنوں کتابیں ہیں، اب بھی جو شائع ہوتی اور بہت بڑی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔ ان میں سے چند مشہور کتابوں میں زاویہ، ایک محبت سو افسانے، ایک محبت سو ڈرامے، حیرت کدہ، سفر در سفر، توتا کہانی، گڈریا، اُجلے پھول اور دیگر شامل ہیں۔
راقم کی اشفاق احمد سے ایک ملاقات ہے، جو بانو قدسیہ کے توسط سے ہوئی تھی۔ میں نے اشفاق احمد کے گھر’’داستان سرائے‘‘ کے مہمان خانے میں، ان کی داستان گوئی کو قریب سے سنا اور دیکھا۔ یہ بھی میرے لیے ایک شاندار ادبی تجربہ تھا، کس طرح اشفاق احمد نوجوانوں سے ملاقات پر تسلسل کے ساتھ اپنی گفتگو سے ایک سماں باندھ دیا کرتے تھے۔
اشفاق حمد خود بھی کئی شخصیات سے متاثر رہے، جن میں سرفہرست معروف صوفی منش دانشور واصف علی واصف ہیں، جن کے افکار کی چھاپ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ پر واضح دکھائی دیتی ہے، پھر قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی اور اس حلقہ کے دیگر ادیبوں کی دوستی بھی سب پر عیاں ہے۔ ان کو پاکستان کے اہم ترین اعزازات’’ستارہ امتیاز‘‘ اور’’ستارہ حسن کارکردگی‘‘ سے بھی نوازا گیا۔
اشفاق احمد نے مغربی نظریات سے بھی کافی کچھ مستعار لیا، اس معاملے میں وہ وہاں کے واقعات اور قصے کہانیوں کا ذکر تو کرتے ہیں، مگر کن نظریات سے کیا کچھ اپنے ہاں تخلیقات کی صورت میں منتقل کیا، وہ حوالے زیادہ تر ندارد ہیں۔ اس کے باوجود، ان کی تخلیقات متاثرکن ہیں۔ مثال کے طور پر اشفاق احمد نے ایک معروف ڈراما’’من چلے کا سودا‘‘ لکھا، جو 1991 میں پاکستان ٹیلی وژن سے نشر ہوا۔
بعد میں یہ ڈراما کتابی شکل میں بھی اشاعت پذیر ہوا، اس ڈرامے اور کتاب دونوں کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ ’’من چلے کا سودا‘‘ میں مرکزی خیال سائنس اور تصوف پر مبنی ہے کہ یہ دو راستے ہیں، جن سے انسان ہوکر خدا تک پہنچتا ہے۔ اس خیال کو اشفاق احمد نے مزید کھول کر پیش کیا کہ سائنس اور بالخصوص کوانٹم سائنس کے نظریات اور تصوف کے نظریات مساوی ہیں۔
ایک تاثر یہ بھی ہے کہ اس ڈرامے کا مرکزی خیال اشفاق احمد نے ایک معروف مغربی ادیب’’فریتجوف کیپرا۔ Fritjof Capra‘‘ کی کتاب’’دی تائو آف فزکس‘‘ سے مستعار لیااور اس میں تصوف کی آمیزش کرکے مقامی انداز میں قلم بند کردیا۔ اس مغربی مصنف کی یہ کتاب 1975 میں شائع ہوئی تھی، جو اس طرح کے نظریات پر مشہور اور مستند ترین کتاب سمجھی جاتی ہے، جن کو اشفاق احمد نے اپنے ڈرامے ’’من چلے کا سودا‘‘ میں پیش کیا ہے،بہرحال مقامی انداز میں پیش کی گئی یہ ایک عمدہ کوشش اورکاوش ہے۔
’’من چلے کا سودا‘‘ پاکستان ٹیلی وژن پر 13 اقساط میں نشر ہوا، جس کی ہدایات و پیشکش راشد ڈار کی تھی، جنہوں نے سونا چاندی، اندھیرا اجالا، خواہش اور دیگر مشہور ڈراموں کو پروڈیوس کیا اور ان کی ہدایات دیں۔ اشفاق احمد کے لکھے اس ڈرامے’’من چلے کا سودا‘‘ میں مرکزی کردار خیام سرحدی اور فردوس جمال نے ادا کیے اور اپنی اداکاری سے اس کو یادگار بنا دیا۔ اس ڈرامے پر مبنی کتاب ’’من چلے کاسودا‘‘بے حد فروخت ہوتی ہے۔ ادب کی دنیااور ڈرامے کی نگری میں اس کہانی کو کبھی فراموش نہیں نہیں کیاجاسکے گا۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی