• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

موہن لعل روڈ (جسے اب اردوبازار کہتے ہیں) آج سے پچاس برس قبل اور قیام پاکستان کے وقت انتہائی صاف ستھری اور کھلی سڑک تھی۔ موہن لعل روڈ کے ارد گرد اور قریب اتنے تعلیمی ادارے ہیں کہ آپ کو نام پڑھ کر حیرت ہوگی۔ گورنمنٹ کالج لاہور، گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول لوئر مال، گورنمنٹ جونیئر ماڈل اسکول چیٹر جی روڈ، گورنمنٹ مسلم ماڈل اسکول، گورنمنٹ سلیم ماڈل اسکول، اورینٹیل کالج، پرانا لاء کالج، پنجاب یونیورسٹی، اسلامیہ کالج سول لائنز (دیانند ورنیکلر اسکول)، مسلم ہائی اسکول نمبر2، گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول دوم، گورنمنٹ ہائی اسکول خزانہ گیٹ، گورنمنٹ لدھیانہ اسکول (جس پر قبضہ مافیا نے قبضہ کرلیا تھا اور اس کی قیمتی زمین کو ہڑپ کرلیا تھا)، گورنمنٹ چشتیہ ہائی اسکول، گورنمنٹ اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ (اس اسکول کو حضرت علی ہجویریؒ کے مزار مبارک کی توسیع کے دوران گرا دیاگیا تھا۔ پھر دوبارہ اس کو بھاٹی گیٹ کے قریب بنایا گیا تھا۔ گورنمنٹ وکٹوریہ ہائی اسکول فارگرلز، گورنمنٹ سینٹ فرانسس ہائی اسکول، جان میکڈونلڈ اسکول (بڑا قدیم اور تاریخی اسکول)،سینٹرل ٹریننگ کالج (اب یونیورسٹی آف ایجوکیشن کا کیمپس ہے) لیڈی میکلیگن ہائی اسکول، لیڈی میکلیگن کالج (اب یہ بھی یونیورسٹی آف ایجوکیشن کا کیمپس ہے) ایم اے او کالج، یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز اور کمال جونیئر ماڈل اسکول (جو اب کہیں اور منتقل کردیاگیا ہے یا شاید ختم کردیا گیا ہے)۔بھاٹی گیٹ کا وہ تاریخی اور خوبصورت باغ بھی ختم ہوگیا۔ ہم اس 23مارچ کو اردو بازار گئے کہ تعطیل کا دن ہےتاکہ تمام پرانی عمارتیں تلاش کرکے ان پر کچھ لکھا جائے مگر تعطیل والے دن بھی یہاں سے گزرنا مشکل ہوگیا۔ سب کچھ ہی تباہ و برباد ہوگیا۔

موہن لعل لاہور میں کتابوں کا کاروبار کرنے والا ایک بہت بڑا تاجر تھا۔اس ہی کے نام پر سڑک کا یہ نام رکھا گیا۔ یہیں اس کے بیٹے گلاب سنگھ کا بہت بڑا پرنٹنگ پریس تھا جس پر مرکزی حکومت نے قبضہ کرکے اس کا نام گورنمنٹ پرنٹنگ کارپوریشن رکھ دیا تھا۔ اس تاریخی پرنٹنگ پریس کی کئی تاریخی عمارتوں کوگرا دیا گیا ہے اور کئی مشینیں غائب کردی گئی ہیں۔ اب بھی اس پریس میں بیلٹ پیپرز اور کچھ سرکاری دستاویزات چھاپی جاتی ہیں۔یہ پرنٹنگ پریس بہت وسیع رقبے پر ہے ، کسی بھی دن اس انتہائی قیمتی زمین پر قبضہ مافیاقبضہ کرلے گا اور ایک نام نہاد بولی میں یہ پرنٹنگ پریس جو کئی کنال پر محیط ہے، اپنے ہی لوگوں کو فروخت کردیاجائے گا۔ ہم بہت دیر تک اس کی لال رنگ کی تباہ ہوتی ہوئی عمارت کو دیکھتے رہے،بڑے ہارن دیے مگر کسی نے دروازہ نہ کھولا۔ یہیں پر گلاب سنگھ کی آج سے صرف 25 برس قبل بڑی خوبصورت حویلی تھی۔ کبھی اس حویلی میں کمال جونیئر ماڈل اسکول بھی تھا۔ ہم نے اس حویلی کا ایک ایک کمرہ دیکھا ہوا ہے۔ ہم اور ہمارے چند کلاس فیلو سینٹرل ماڈل اسکول کے استاد خواجہ ضیاء الدین سے اس حویلی کے ایک کمرے میں ٹیوشن پڑھتے تھے۔ اس حویلی میں کبھی آزاد کشمیر یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خواجہ غلام صادق اور ان کےکئی عزیز و اقارب رہا کرتے تھے۔ پھر حسبِ روایت یہ حویلی خاندانی جھگڑوں کی نذر ہوگئی۔ بڑی خوبصورت حویلی تھی۔ اس کا سفیدا ور کالا فرش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس حویلی کے گنبد بھی تھے۔ آج اس تاریخی حویلی کے دو تین کمرے رہ گئے ہیں جس پر سیمنٹ کا پلاسٹر کرکے عمارت کو انتہائی بدصورت کردیا گیا ہےاس حویلی کے دو تین بچے کھچے کمروں کے باہر دروازے پرایک ریٹائرڈ ایس پی امان اللہ نے اپنا نام لکھ دیا ہے۔کہتے ہیں کہ جب یہ حویلی گرائی گئی تو اس کے اندر زیر زمین کئی راستے اور سرنگیں تھیں ان کارخ لوہاری دروازے کی طرف اور موری دروازے کی طرف تھا۔ خیر ہمارے ہاں کسےفکر کہ وہ ان سرنگوں کی مزید کھدائی کرے اور دیکھے کہ یہ زیرزمین راستے کہاں جاتے ہیں۔ لاہور میں دہلی دروازے میں آج بھی چار سو برس پرانی دو ایسی حویلیاں ہیں جو سکھوں کے عہد کی ہیں۔ اس کے اندر کئی سرنگیں اور زیر زمین راستے ہیں۔ کبھی آپ کو ان دو حویلیوں کے بارے میں بھی بتائیں گے۔ یہ دونوں حویلیاں مسجد وزیر خان کے پاس ہیں۔

موہن لعل روڈ پر کبھی کئی تاریخی اور پرانی عمارتیں تھیں جو ہم نے کبھی دیکھی تھیں۔ کبھی یہیں لاہورکے سب سے قدیم اور مشہور خیمہ سازرولدو محمد دین، ظہور سنز اور منظور سنز بھی تھے۔اب ان کا نام و نشان نہیں۔ موہن لعل روڈ پر شاید اب کوئی ایک آدھا پرانا مکان یا مارکیٹ ہو۔ یہیں پر دو مندر بھی تھےجو ان پلازوں میں کہیں گم ہوگئے۔ ہری گیان کا مندر اور دوسرا مندر پتہ نہیں کس کا ہے۔گلاب سنگھ کے دوسرے بیٹے کا برف خانہ تھا۔

پاکستان پرنٹنگ کارپوریشن کی لال اینٹ کی عمارت کے کچھ کمرے ابھی باقی رہ گئے ہیں۔ منشی گلاب سنگھ کے دو بیٹے موہن لعل اور سوہن لعل تھے۔ منشی گلاب سنگھ لاہور کے سب سے بڑے پبلشرز تھے، جس پرنٹنگ پریس اور اس کی عمارت پر مرکزی حکومت نے قبضہ کر رکھا ہے وہ منشی گلاب سنگھ کے پرنٹنگ پریس کی عمارت ہے۔ البتہ ان کی اصل حویلی کا اب کوئی نام و نشان نہیں۔ لاہور میں کبھی موہن لعل روڈ (اردو بازار) سے زیادہ کتابوں کا کاروبار کشمیری بازار اور دہلی دروازے میںہوتا تھا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین