• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ اللہ کر کے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد آخری کھڑکی توڑ ہفتے میں داخل ہو گئی ہے، دونوں طرف سے گھن گرج جاری ہے۔ دونوں پارٹیاں اپنے اعدادو شمار بڑھا چڑھا کر بتا رہی ہیں، ایم این اے لاجز اور سندھ ہائوس میں 2معرکے بھی ہوچکے ہیں، فلور کراسنگ کروڑوں روپے کے عوض دیدہ دلیری سے جاری ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری ایک طرف پی ٹی آئی کے ناراض ایم این ایز اور ایم پی ایز کو نوازنے کے لیے کھلم کھلا بھائو تائو کر رہے ہیں تو دوسری طرف پی ٹی آئی کے اتحادیوں کو بھی مختلف پُر کشش پیکیج دے رہے ہیں۔ایم کیو ایم جس کا کہنا ہے اگر شہباز شریف یعنی مسلم لیگ ن پی پی پی کی ضامن بنے گی تو ہم پی ڈی ایم کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں گے اور مولانا فضل الرحمٰن عمل کرانے کے ذمہ دار ہوں گے،جبکہ دوسرے اتحادی مسلم لیگ (ق) والے چوہدری صاحبان مسلم لیگ (ن) کی پاکستان پیپلز پارٹی سے ضمانت مانگ رہے ہیں وہ پنجاب میں( ق) لیگ کا وزیر اعلیٰ بنانے کا عملی بندوبست کرے گی۔ دونوں اتحادی لوٹے کا کردار ادا نہیں کر رہے بلکہ پی ٹی آئی حکومت کی مسلسل وعدہ خلافیوں کی وجہ سے ان سے علیحدہ ہو رہے ہیں دوسری طرف ترین گروپ کا مطالبہ صرف اور صرف مائنس بزدارہے۔ کبھی خبر آتی ہے وزیر اعظم عمران خان بزدار کو ہٹانے کے لیے تیار ہیں تو کبھی بزدار کو بلا کر کہتے ہیں تم اپنا کام جاری رکھو۔ 8ارب کے رمضان پیکیج کا بھی اعلان ہو چکا ہے۔ تیسرے فریق عمران خان نے دیر کے جلسے میں منحرف پی ٹی آئی ممبران کیلئے عام معافی کا اعلان کر دیا ہے کہ ان سب کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور وزیر داخلہ شیخ رشید نے ضمانت دی ہے اور مزید یہ بھی کہا کہ جو حرام کے پیسے دے رہے ہیں ان سے وہ کروڑوں روپے وصول کر لیں اور اپوزیشن کی سازش میں بھی شامل نہ ہوں اور وزیر اعظم کا ساتھ دیں۔ آخری خبر آنے تک کچھ ناراض اراکین واپس آچکے ہیں جبکہ مختلف حکومتی شخصیات بھی اِس حوالے سے سرگرم ہیں کہ ہر صورت میں ان منحرف اراکین کو واپس لائیں اور تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنائیں، بظاہر دونوں پارٹیاں پر اعتماد ہیں۔ یعنی پی ڈی ایم اتحادیوں سے معاملا ت طے کر کے 200سے بھی زیادہ اعدادو شمار بتا رہی ہے۔ مگر عمران خان ڈٹے ہوئے ہیں وہ استعفیٰ دینے کے بجائے، سر پرائزدینے کی بات کر رہے ہیں یہ سرپرائز کیا ہو گا؟ بلاول بھٹو اور مریم نواز دبے لفظوں میں امپائر کی انگلی کے بجائے اسمبلی میں جمہوری طریقے سے عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کی بات کر رہے ہیں، ان کے الفاظ اور تقاریر میں بھی اب سختی آتی جا رہی ہے۔ وہ جارحانہ انداز میں عمران خان کو للکار رہے ہیں۔ ایک نئی سوچ بھی عوام میں جاگی ہے جب وزیر اعظم عمران خان نے روس کا دورہ کیا اور امریکہ، یورپی یونین کےحربے کو ناکام بنانے اور جواب میں یوکرین روس جنگ میں ساتھ دینے کے بجائے صاف صاف کہہ دیاکہ ہم کسی کی جنگ میں آلہ کار نہیں بنیں گے۔ہمیں ہر مرتبہ استعمال کر کے چھوڑ دیا گیا البتہ اگر امن کے لیے کوئی کردار ادا کرنا پڑے تو ہم تیار ہیں۔ اس جرأت کا مظاہرہ اور اسلامو فوبیا،مسئلہ کشمیر پریو این او میں خطاب عوام کو بہت پسند آیا،پھر او آئی سی کانفرنس کے انعقادمیں بھی عمران خان عوام کی نظرو ںمیں ہیرو بن چکے ہیں۔ مہنگائی اب ثانوی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ عوام میںاب ممبران کی خرید و فرخت کے بازار لگانے اور لوٹوں کا کردار اداکرنے سے پی ڈی ایم کا گراف کافی نیچے آچکا ہے۔ وزیر اعظم اگراسمبلی توڑ بھی دیتے ہیں اور عوام کی طرف لوٹتے ہیں تو عوام ان کی جرأت پر بہت خوش ہیں ۔ 30سال تک ہمارے حکمران کشمیر کا مسئلہ بھارت یا دنیا کے کسی بھی محاذپر اٹھانے سے کتراتے رہے۔ کم از کم اس حکومت نے سب کے کردار کو عوام کے سامنے لاکر بے نقاب کر دیا ہے جس کا کریڈٹ صرف وزیر اعظم عمران خان کو جاتا ہے۔ یہ ہفتہ پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرے گا۔خواہ عدم اعتماد کامیاب ہویا ناکام دونوں صورتوں میں وزیر اعظم نے پاکستانی عوام کے خصوصی اور عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کے عمومی طور پر دل جیت لیے ہیں۔ وہ ایک بے باک مسلمان لیڈر بن کر ابھرے ہیں۔وہ روس، چائنااور ایران کا نیا گروپ بنانے میں بھی اپنا کردار اداکر کے کامیاب ڈپلو میسی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ یقیناً اب آنے والے وقتوں میں جب پاکستان کی تاریخ لکھی جائے گی تو مورخ وزیراعظم عمران خان کو ایک سچا مسلمان اور پاکستانی لیڈر مانے گاجس نے پاکستان اور مسلمانوں کا کیس پوری دنیا کے سامنے پیش کرنے کا کریڈٹ سمیٹا اور منوایا اس کے دور رس نتائج نکلیں گے۔ان شا ء اللہ۔

ذرائع کہتے ہیں کہ کیا واقعی فوج عمران خان سے نالاں ہے؟پیپلز پاٹی اور نواز لیگ جب5 سال پورے کر سکتے ہیں تو تحریک انصاف کو بھی 5 سال پورے کرنے چاہئیں جبکہ تحریک انصاف کے دور میں پہلی بار حکومت اور فوج ایک پیج پر آئے ہیں۔اب تو فوج بھی امریکا سے جان چھڑانے کی پالیسی پر کار بند ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین