ہم سب کی طرح ادیب بھی اسی دُنیا کا حصہ ہوتا ہے، جس میں آپ اور ہم سانس لیتے ہیں، اپنی قسمت کے دُکھ اٹھاتے اور اپنے حصے کی خوشیاں پاتے ہیں۔ عناصر کی اِس کارگاہ میں ہم اپنا زورِ بازو آزمانے اور تقدیر کا َبل نکالنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں۔ یہی کچھ ادیب بھی کرتا ہے۔ اس لیے کہ اِس کارزارِ عمل میں حیاتِ انسانی کی بقا کا یہ ناگزیر تقاضا ہے۔ تاہم وہ آپ کی اور ہماری طرح محض اسی پر اکتفا نہیں کرتا۔
وہ اِس کے علاوہ بھی کچھ کرتا ہے، یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسے کچھ اور بھی کرنا پڑتا ہے۔ بس اس نکتے پر آکر سوالوں کا گویا ایک تانتا بندھ جاتا ہے، مثلاً یہی کہ اُسے ایسا کیوں کرنا پڑتا ہے؟ کیا اُس کی اور ہماری دنیا میں کوئی فرق ہوتا ہے؟ اگر فرق ہوتا ہے تو کس طرح کا؟ سوالوں کا سلسلہ دراز ہوسکتا ہے، لیکن ہم اس بحث کے بہ راہِ راست فیصلہ کن سوال پر آجاتے ہیں اور وہ یہ کہ ادیب اس دُنیا میں عام آدمی سے مختلف کیا کرتا ہے اور جو کچھ وہ کرتا ہے، اس کے اثرات اور نتائج اس کی ذات تک محدود ہوتے ہیں یا آپ اور ہم تک بھی پہنچتے ہیں؟
کسی دقیق بحث میں پڑے بغیر ان سوالوں کے سادہ جوابات کچھ یوں ہوسکتے ہیں۔ ادیب عام آدمی کے سے عمل کے علاوہ جو کچھ کرتا ہے یا جو کچھ اسے کرنا پڑتا ہے، وہ دراصل اُس کے داخلی مطالبے کے زیرِ اثر ہوتا ہے اور اس مطالبے کی تکمیل ہی کے ذریعے اصل میں اُس کے ادیب ہونے کا جواز یا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔ اب رہا اُس کی اور ہماری دُنیا میں فرق کا سوال، تو بادی النظر میں وہ ہماری اور آپ کی طرح اسی دُنیا میں جیتا ہے، لیکن اس کے اپنے اندر بھی ایک دُنیا آباد ہوا کرتی ہے۔
داخل کی یہ دُنیا اُس کے لیے زیادہ اہم، زیادہ وسیع، زیادہ معنویت اور زیادہ بڑی حقیقت کی حامل ہوتی ہے۔ کچھ اس نوع کی بات اہلِ حال بھی کہتے ہیں لیکن ہماری گفتگو کا دائرہ ادب اور ادیب کی حد تک ہے۔ چناںچہ ادیب کے فن میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے اندر کی دنیا کی بہبود اور بقا کا سامان اس کی فکر، آرزو اور جذبے کرتے ہیں۔ اُس کے داخل کی یہ دنیا جتنی وسیع اور رنگ رنگا ہوتی ہے، اور ادیب اس کی بقا کے لیے جتنا اور جیسا سامان کرتا ہے، اسی سے یہ طے ہوتا ہے کہ وہ کس قامت کا ادیب ہے۔
اب رہ گیا آخری سوال تو اُس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ ادیب اپنے خارج اور داخل کی دنیا کے مابین نکتۂ اتصال تلاش کرتا ہے۔ جب وہ یہ نکتہ پالیتا ہے تو اس کے ذریعے وہ ان دونوں دنیاؤں میں ربط قائم کرتا ہے۔ اس ربط کے ذریعے ایک بڑے کینوس پر وہ اپنی، یعنی انسانی زندگی کی ماہیت کو جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنے وجود کی حقیقت کو پانے کی جستجو کرتا ہے۔ انسانی ارادہ و عمل کی نوعیت پر غور کرتا ہے۔ تقدیر اور تدبیر کے رشتے اور اُن کے باہمی تناسب کو سمجھنے کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔
اس ساری کاوش و کد کے پس منظر میں دراصل ایک بنیادی محرک کارفرما ہوتا ہے، یعنی زندگی کی ماہیت کو سمجھتے ہوئے اُسے زیادہ سے زیادہ بامعنی بنانے کی آرزو۔ یہی وہ شے ہے جو ادیب کے اظہار کے قرینے کو مؤثر بناتی اور اس کے فن کو آب دیتی ہے۔ اُس کے فن کی اسی آب میں کبھی آپ اور ہم اپنا عکس دیکھتے ہیں اور کبھی ایک نئی زندگی کا چہرہ ابھرتا ہے۔ یہ عمل ضروری نہیں کہ ہر بار خوش گوار ہو، ناگوار بھی ہوسکتا ہے اور کبھی تشویش ناک، کبھی تکلیف دہ، کبھی حیرت انگیز، کبھی راحت افزا اور کبھی ملال آمیز بھی ہوسکتا ہے۔ تاہم بڑا ادیب حوصلہ شکن اور اندوہ ناک صورتِ حال کے رو بہ رو بھی اپنے فن میں امکان کا دیا روشن اور امید کا در بہرحال کھلا رکھتا ہے۔ وہ زندگی کو حتمی طور پر ناقابلِ برداشت کبھی نہیں ہونے دیتا۔
بہرحال، ہم دُنیا کی کسی بھی زبان کا ادب اٹھا کر پڑھیں، تھوڑے بہت فرق کے ساتھ کم و بیش انھی سب عناصر و عوامل کا احساس ہمیں اس مطالعے میں ہوتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ کسی بھی تہذیب و سماج کے ادیب کا مطالعہ کیجیے، اس کی دنیا لگ بھگ انھی عناصر سے مرکب اور انھی عوامل کے تحت تشکیل پاتی اور نمود کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ تاہم عصرِ حاضر کے اہلِ دانش اس وقت ایک اور مسئلے سے دوچار ہیں۔ وہ اس امر پہ غور کررہے ہیں کہ کیا آج بھی ادیب کی دنیا انھی عناصر و عوامل سے موسوم ہے؟ اس سوال کی ضرورت اصل میں اس لیے پیش آئی کہ آج فکر و نظر کے سبھی شعبوں میں یہ احساس واضح طور پر پایا جاتا ہے کہ اکیس ویں صدی اپنے مزاج، اپنی سرشت میں ماقبل تمام ادوارِ تاریخ سے اصولی اور اساسی طور پر مختلف ہے۔
ورچول رئیلٹی کی یہ دُنیا اپنی نہاد میں جن دو رویوں سے مملو نظر آتی ہے، وہ مطلق العنانیت اور اضافیت ہیں۔ اوّل الذکر اس کے سیاسی طرزِ عمل میں اور ثانی الذکر روز افزوں صارفیت کے رجحان میں نمایاں ہوا ہے۔ چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسیات اور اقتصادیات آج کی دنیا کے صرف دو موضوعات یا دو مضامین ہی نہیں ہیں، بلکہ دو ایسے حقائق ہیں جن کے بیچ اس عہد کی انسانی زندگی کا پنڈولم جھول رہا ہے۔ مطلق العنانیت اور صارفیت کے زیرِ اثر زندگی کا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ آج کے انسانی سماج میں بے حسی اور لاتعلقی کے رویے کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ تہذیبوں کی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف ادوار کی سیاسی اور معاشی صورتِ حال کے زیرِ اثر سماجی رویے تغیر پذیر ہوتے ہیں، لیکن جس تبدیلی کا اظہار ہماری اس صدی میں ہوا ہے اور جس طرح ہوا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایسی کسی بھی صورت گری کا کوئی نشان اس سے پہلے کی معلومہ انسانی تاریخ میں نہیں ملتا۔
تبدیلی کے اس عمل کو نمایاں کرنے ہی میں نہیں، بلکہ فروغ دینے میں بھی برقیاتی ذرائع کا بہت اہم کردار ہے اور آج دیکھا جائے تو سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا کا۔ سوشل میڈیا پر بڑے سے بڑا واقعہ بھی محض ایک کلپ یا امیج ہے۔ قطعِ نظر اس سے کہ یہ واقعہ خوش گوار ہے یا اندوہ ناک اور آپ کے اعصاب پر یہ کس طرح اور کتنا اثر انداز ہوگا، آپ کا ردِعمل اس کے بارے میں پہلے سے طے کردیا گیا ہے، یعنی کسی اُجلے پھول پر جھلملاتی ہوئی خوش رنگ تتلی، کسی دل کش چہرے پر چمکتی آنکھوں میں کھلتے ہوئے خواب، بستی کی بستی کو تہس نہس کرتے ہوئے گزرتی سمندر کی موج، بھوک اور بیماری کے ہاتھوں جیتے جی موت کی تجسیم کرتے ہوئے ہڈیوں کے ڈھانچے، ساحل پر گہری ابدی نیند سوئے ہوئے معصوم بچے کا لاشہ— ان میں سے کسی کے لیے بھی آپ کو جداگانہ ردِعمل کا اظہار نہیں کرنا— صرف اس ’کلپ‘ یا ’امیج‘ کو کسی طے شدہ انداز میں اپروو یا پھر انڈورس کرنا ہے۔ مساوی حقیقت پر انحصار اور اسرار کرتی ہوئی یہ دنیا آپ کو صرف گونگے اظہار یا خاموش تصدیق کی دعوت دیتی ہے۔ آپ کے ذاتی احساس یا نجی جذبے کے اظہار کی یہاں کوئی خاص ضرورت یا گنجائش نہیں ہے۔ یہ بات آپ کو کچھ کہے بغیر سمجھا دی گئی ہے۔ غور کیجیے کہ وہ کیسے؟ سادہ سی بات ہے، آپ کو طے شدہ سانچے کے مطابق اظہار کے آپشنز مہیا کرکے۔ یہ آپ کے احساس اور خیال ہی کی نہیں بلکہ اس کے اظہار کی بھی واضح حد بندی ہے۔
اب ذرا غور کیجیے کہ آج کے ادیب کی دنیا کیسی ہے؟ یاد رکھیے، ادیب بہ یک وقت دو دُنیاؤں میں زندہ رہتا ہے۔ آج اُس کے باہر کی دُنیا اُس سے کلام کا مطالبہ نہیں کرتی، بلکہ اُسے گونگا بنانے پر مصر ہے۔ اُسے صرف اور صرف ایک ’لائک‘ یا ایسے ہی پہلے سے متعین کسی اور اظہار کی توثیق مطلوب ہے۔ جب کہ اُس کے اندر کی دنیا اس گونگے پن پر اصرار کے ردِعمل میں اذیت ناک شور شرابے سے بھری ہوئی ہے۔ باہر کے ’لائک‘ کا مہیب سناٹا اسے ثابت و سالم نگل جانے کے درپے ہے اور پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرکے اڑا دینے والا اندر کا شور اس کے اعصاب کو کچلے چلا جارہا ہے۔ کس تناؤ اور کیسے دباؤ کی زندگی ہے آج کے ادیب کی زندگی بھی۔
جدید عہد کے تصورات اور افکار کی اس نئی دنیا میں ایک عام آدمی کے لیے تو یہ مشکل ہے ہی کہ وہ اپنے اعصاب کو نارمل رکھتے ہوئے زندگی گزارے، ادیب کے لیے سوا مشکل اور کہیں بڑی آزمائش ہے۔ اسے صرف اپنے اعصاب کو نارمل نہیں رکھنا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسا سامان بھی کرنا ہے کہ اُس کے پڑھنے والوں، سننے والوں کو اعصاب نارمل رکھ کر، جینے کا ہنر بہم ہو۔ اس کے بعد اُس کے لیے ایک اور بڑی آزمائش ہے، اور وہ ہے متبادل یا مساوی حقیقت پر اصرار کرتی ہوئی اس دنیا میں اصل حقیقت کو جاننا، اس کو شناخت کرنا اور اس کا ابلاغ کرنا۔ یہی حقیقت اُس کے سماجی اخلاق اور اجتماعی شعور کی تقویت اور بقا کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔
معجزہ گر ہیں وہ ادیب، وہ شاعر جو آج اپنے احساس کے ساتھ زندہ ہیں، سوچتے ہیں، لکھتے ہیں، بولتے ہیں، کچھ پوچھتے ہیں، کچھ بتاتے ہیں، کچھ سمجھتے ہیں، کچھ سجھاتے ہیں۔ یہ لوگ مساوی حقیقت کی دلدل میں دھنستی ہوئی اس دُنیا میں خواب دیکھتے ہیں، خواب دکھاتے ہیں، خواب کے لیے جیتے ہیں، خواب کے لیے جینا سکھاتے ہیں۔ آباد رہیں وہ تہذیبیں جن کے شعور کے گنبدوں میں ادب کی آواز گونجتی اور جن کے اجتماعی احساس کی محرابوں میں تخلیق کے چراغ جھلملاتے ہیں۔