اتوار کے روز قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے بغیر ووٹنگ مسترد کیے جانے کے بعد بحران اور سیاسی خلل کی جو کیفیت پیدا ہوئی، وہ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کیس کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد ہی دور ہو سکتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے جج صاحبان فوری طور حرکت میں نہ آتے تو افراتفری اور انتشار کی ناقابلِ بیان کیفیت سے پچنا شاید ممکن نہ ہوتا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عمران خان وزیراعظم کے عہدے سے ڈی نوٹیفکیشن کے بعد عبوری وزیراعظم کے تقرر کے وقت تک بطور نگراں کام کر رہے ہیں۔ صدر، وزیراعظم سمیت تمام عہدیدار اور ادارے سپریم کورٹ کی اجازت کے بغیر اہم فیصلے کرنے کے مجاز نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف اور دیگر پارٹیوں کے درمیان بیانات، جوابی بیانات کا سلسلہ جاری ہے اور طاقت کے بعض مظاہرے بھی سامنے آرہے ہیں۔ دوسری طرف چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سرکردگی میں پانچ رکنی لارجر بنچ از خود نوٹس کیس کی سماعت کر رہی ہے۔ وکلا کی بحث اور قانونی موشگافیوں کے دوران بسا اوقات مسئلے کے دائیں بائیں سمیت کئی زاویوں سے جائزے کے مطالبات سامنے آتے ہیں جن سے مقدمے کے کارروائی میں طوالت کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ جبکہ درپیش ملکی صورتحال متقاضی ہے کہ موجودہ بےیقینی کی صورتحال جلد ختم ہو۔ یہ مقصد مقدمے کا فیصلہ جلد سامنے آنے کی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے۔ لارجر بنچ نے ایک طرف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد تین اپریل تک قومی اسمبلی کے اجلاسوں کی تمام کارروائی طلب کر لی ہے۔ دوسری جانب منصفِ اعلیٰ کے منگل کے روز دیے گئے ریمارکس سے واضح ہے کہ عدالت ریاستی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ اسے صرف یہ دیکھنا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی ووٹنگ کے بغیر رولنگ کا عدالتی جائزہ لیا جا سکتا ہے یا نہیں، عدلیہ کو اقدامات کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے۔ ریمارکس سے ظاہر ہوتا ہے نگران حکومت کا قیام جیسے امور کا انحصار بھی اسی کیس کے فیصلے پر ہے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ عدالت جمعرات کی شام تک فیصلہ سنا سکتی ہے جو جمعہ کے اخبارات کی زینت بن سکتا ہے۔ ظاہر ہے یہ فیصلہ تمام فریقوں کو سن کر کیا جائے گا۔ ریمارکس سے یہ جائزہ لینے کا اشارہ بھی ملتا ہے کہ پارلیمان کی کارروائی کو کس حد تک استثنیٰ حاصل ہے۔ اس باب میں عدالت عظمیٰ کا جو بھی فیصلہ ہو گا وہ بلاشبہ اہم قانونی نظیر کے زمرے میں آئے گا۔ عدالتی فیصلہ ڈپٹی اسپیکر کی ووٹنگ سے پہلے کی صورت کی بحالی کی صورت میں ہو یا اعلان شدہ عام انتخابا ت کے نوے روز میں انعقاد کرانے سے متعلق ہو یا کوئی اور صورت سامنے آئے عام آدمی کا وہ مخمصہ دور ہو جائے گا جو اس وقت کاروباری و سماجی زندگی کے بڑی حد تک تعطل کی صورت میں سامنے آرہا ہے اور اسٹاک مارکیٹ سمیت بہت سی چیزوں پر اثرانداز ہے۔ عدالت عظمیٰ میں جاری از خود نوٹس کئی وجوہ سے اندرون و بیرون ملک توجہ طلب رہا ہے مگر متعدد تبصروں اور بیانات کے موضوعات ’’ڈپٹی اسپیکر کے ووٹنگ کرائے بغیر تحریک مسترد کرنے‘‘ کے اس موضوع سے ہٹے ہوئے اور وسیع تر ہیں جس موضوع کا ملک کی سب سے بڑی عدالت جائزہ لے رہی ہے۔ جہاں تک ازخود نوٹس کیس کا تعلق ہے ، عدالت عظمیٰ آئین کی کسٹوڈین ہونے کی حیثیت سے معاملے کے آئینی پہلو پر فیصلہ دے گی جو حتمی ہوگا اور جسے تمام سیاسی پارٹیوں کو خوشدلی سے تسلیم کرنا چاہئے۔ آئین کی پاسداری اور جمہوری اقدار کی روایات سربلند کرکے ہم اپنے ملک کو بحران کا شکار ہونے سے بچا سکتے اور بار وقار قوم کی حیثیت سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔