• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعمیرات ایک ایسا عمل ہے، جس میں وسائل کابے دریغ ضیاع کیا جاتا ہے۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ، اس کے نتیجے میں ماحولیات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے اور عالمی سطح پر زہریلی گیسوں کا 40فی صد اخراج صرف تعمیراتی عمل اور عمارتوں سے ہوتا ہے۔

حالیہ برسوں میں جب سے عالمی درجہ حرارت میں اضافے پر قابو پانے کی عالمی کوششوں کو بتدریج پذیرائی ملی ہے، تعمیراتی صنعت سے زہریلی گیسوں کے اخراج اور وسائل کے ضیاع کو کم کرنے پر بات ہونے لگی ہے۔ اس کے نتیجے میں تعمیراتی شعبہ سے وابستہ ماہرین ان مسائل سے نمٹنے کے مختلف حل پر بھی کام کررہے ہیں۔ 

سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے محققین کے کنسورشیم نے اس سلسلے میں روبوٹس سے کام لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ سوئٹزرلینڈ کے نیشنل سینٹر فار کامپیٹنس اِ ن ریسرچ (این سی سی آر) کا ڈیجیٹل فیبریکیشن ہاؤس (ڈی فیب ہاؤس) اس تصور کا ایک ثبوت ہے، جسے ڈیجیٹل فیبریکیشن کے طریقوں کو اپناتے ہوئے ڈیزائن اور پلان کی گئی دنیا کی اولین قابلِ رہائش عمارت کے طور پر مانا جاتا ہے۔

سوئٹزرلینڈ کے سب سے بڑے شہر زیورخ کے قریب اس عمارت کی تعمیر میں روبوٹس اور ٹیکنالوجی کا زبردست استعمال کیا گیا ہے اور اس کے نتائج انتہائی حوصلہ افزاء ہیں۔ یہ تین منزلہ عمارت تھری ڈی ٹیکنالوجی سے پرنٹ کردہ چھتوں، کم توانائی خرچ دیواروں اور لکڑی کے بیمز پر مشتمل ہے، جسے جائے تعمیر پر روبوٹس اور انٹیلی جنٹ ہوم سسٹم کے ذریعے نصب کیا گیا ہے۔ 2,370مربع فٹ (220مربع میٹر) رقبہ پر محیط اس’ڈی فیب ہاؤس‘ کو ای ٹی ایچ زیورخ یونیورسٹی کے ماہرین کی ٹیم اور اس صنعت سے وابستہ 30 شراکت داروں نے 4 برس کے عرصہ میں مکمل کیا ہے۔ اس کی تعمیر میں 60فیصد کم سیمنٹ استعمال ہوئی ہے اور اس نے سوئس اداروں کے سخت تعمیراتی ضابطوں کو پاس کیا ہے۔

ڈی فیب تحقیقی ٹیم کے رکن میتھیاز کوہلر کہتے ہیں، ’’یہ آرکیٹیکچر کو دیکھنے کا ایک نیا انداز ہے‘‘۔ ایک عرصہ گزر چکا ہے کہ آرکیٹیکٹس کے کام کو عمارتیں ڈیزائن کرنے کے حوالے سے پیش کیا جاتا رہا ہے، جب کہ تعمیرات کی تکنیکی خصوصیات کو پس منظر میں ڈال دیا گیا ہے۔ کوہلر کا کہنا ہے کہ یہ رجحان اب تیزی سے بدل رہا ہے۔

درحقیقت یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگی کہ ڈی فیب ہاؤس، ڈیجیٹل فیبریکیشن تکنیک استعمال کرنے والا پہلا عمارتی منصوبہ نہیں ہے۔2014ء میں وِن سَن نامی ایک چینی کمپنی نے ایک ہی دن میں سنگل اسٹوری (ایک منزلہ) کے 10گھر بناکر تھری ڈی پرنٹنگ کی تعمیراتی استعداد کا مظاہرہ کیا تھا۔ کوہلر بتاتے ہیں کہ تعمیراتی رفتار کے ریکارڈ توڑنا ضروری مقصد نہیں تھا۔ ’’بلاشبہ، ہم رفتار اور معیشت میں پیشرفت حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن ہم نے سب سے پہلے معیار کے نظریہ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی‘‘، وہ مزید کہتے ہیں۔ ’’آپ چیزوں کو بہت تیز رفتاری کے ساتھ کرسکتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پائیدار بھی ہوں گی‘‘۔

تعمیرات میں جب روبوٹ اور دیگر جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی بات کی جاتی ہے تو اس پر کچھ خدشات کا بھی اظہار کیا جاتا ہے۔ ان خدشات میں انسان کی نوکریوں پر روبوٹ کا قبضہ کرنا بھی شامل ہے۔ البتہ، کوہلر کا ماننا ہے کہ ٹیکنالوجی کو اختیار کرنا درحقیقت انسانی تخلیق کو اُبھارنے اور کاریگری کی بحالی کو آگے بڑھانے کا باعث بنے گی۔ ’’جیسے کسی کاریگر کی جیب میں جدید اسمارٹ فون ہوسکتا ہے، میرا خیال ہے کہ مستقبل کی مشینیں انسان سے کم الگ ہوں گی‘‘۔

یہ ایک پیچیدہ عمل ہوگا لیکن کوہلر تجویز کرتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ مشینوں پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ انسانی ہاتھ سے بنی ہوئی سطحوں کوجعلی انداز میں کریں، ڈیجیٹل فیبریکیشن کے ذریعے ایک مکمل طور پر نئی جمالیاتی شناخت حاصل کی جاسکتی ہے۔ ڈی فیب گھر کی سجاوٹی چھت، جسے بڑے پیمانے کے تھری ڈی سینڈ پرنٹر سے تخلیق کیا گیا ہے، ایسے ہی سجاوٹی امکانات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

ڈی فیب ٹیم کے تھری ڈی پرنٹنگ اسپیشلسٹ بینجمن ڈیلنبرگر، اس حوالے سے مزید کہتے ہیں کہ روبوٹس کے ساتھ کام تعمیراتی کارکنوں کی صحت کی حفاظت کرسکتا ہے۔ ’’کسی کو تعمیراتی سائٹ پر کام کرنے کو رومانویت نہیں دینی چاہیے‘‘، وہ خبردار کرتے ہیں۔ ’’ اس طرح کے باہمی تعاون کے سیٹ اَپ رکھنا واقعی سمجھ میں آتا ہے، جہاں روبوٹ اور انسان ایک ساتھ مل کر کام کریں‘‘۔

کوہلر اور ڈیلنبرگر کہتے ہیں کہ، سوئٹزرلینڈ میں تجرباتی ڈھانچے سے آگے بڑھ کر وہ عالمی آرکیٹیکچر اور تعمیراتی شعبے کے ساتھ بات چیت کو فروغ دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انھوں نے اوپن سورس ڈیٹا سیٹ بھی شائع کیے ہیں اور ’’ایک گھر کس طرح تعمیر کیا جائے: ڈیجیٹل عہد میں آرکیٹیکچرل تحقیق‘‘ کے عنوان سے گھومتی پھرتی نمائش بھی منعقد کی ہے۔

ڈیلنبرگر کا ماننا ہے کہ ڈی فیب گھر ان افراد کے لیے بھی دلچسپی کا باعث بنے گا جن کا آرکیٹیکچر اور تعمیراتی شعبے سے تعلق نہیں۔ ’’آرکیٹیکچر ہمیشہ ایک عوامی منصوبہ ہوتا ہے‘‘، وہ کہتے ہیں۔ ’’یہ ہر اس شخص کے بارے میں ہے جو یہ جاننے کا تجسس رکھتا ہے کہ ہم اپنا مستقبل کس طرح تعمیر کررہے ہیں‘‘۔