ڈاکٹر سید فراز معین
اسسٹنٹ پروفیسر پروٹیومکس سینٹر،جامعہ کراچی
دل کی بیماری دل یا خون کی نالیوں کو متاثر کرنے والی حالتوں کے لیے ایک عام اصطلاح ہے۔ یہ عام طور پر شریانوں کے اندر چربی کی موجودگی اور خون کے جمنے کے بڑھتے ہو ئے خطرے سے منسلک ہوتا ہے۔ دل کی بیماری دنیا بھر میں ہو نے والی اموات میں32 سے لے کر35 فی صد رکھتی ہے ،جس میں زیادہ تر مریض دل کے دورے کی وجہ سے مو ت کا شکار ہو تے ہیں۔ دل کے دورے کی وجہ زیادہ تر دل کو خون پہنچانے والی شریانیں جن کو کورونری شریان کہا جاتا ہے میں کسی قسم کی رکاوٹ ہو تی ہے، جس کی وجہ سے دل کے پٹھے کمزور ہو کر ختم ہونے لگتے ہیں اور سینے میں درد کا باعث بنتے ہیں۔
پاکستان میں دیگر بیماریوں کی طرح اسے بھی نظرانداز کیا جاتا رہا ہے اور بہت کم تشخیصی امراض میں رکھا گیا ہے
یہ علامت اس طرف اشارہ کر رہی ہو تی ہے کہ دل کو کسی قسم کا نقصان ہوا ہے۔ اس وجہ کے علاوہ دیگر وجوہات بھی ہیں جن سےدل کی بیماری ہو سکتی ہے ۔ جیسے ہاتھ اور ٹانگوں کو خون پہنچانے والی شریانوں میں خرابی ، دماغ کی شریان کی بیماری ، دل کے پٹھے یا دل کے اندر موجود والو کی خرابی ، پیدائشی طور پر دل کی خرابی اور پھیپھڑوں تک خون لانے والی شریان میں سدہ یا جمے ہو ئے خون کے ذرّات۔ عام طور سے پھیپھڑوں تک خون لانے والی شریان بند ہو نے کی وجہ سے جو دل کی بیماری ہو تی ہے اس طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ حالاں کہ یہ صورت حال انتہائی خطرناک ہو تی ہے جیسا کہ کورونری شریان کے بند ہو نے کی وجہ سے ہوتی ہے۔
عام حالات میں خون شریانوں میں رواں رہتا ہے۔ کسی جسمانی تبدیلی یا خرابی کی وجہ سے یہ ہو سکتا ہے کہ خون چھوٹے ذرّات کی شکل میں جسم کی کسی ایک یا ایک سے زیادہ شریانوں میں جم جائے ۔ خون کے جمنے کی یہ وجوہات مختلف ہوسکتی ہے۔ جیسے سگریٹ نوشی ، موٹاپا،سرجری ، غیر متحرک انداز زندگی ، کوئی اور جسمانی بیماری جس میں موروثی طور پر خاندان میں موجود نظام دوراں خون کی روانی میں رکاوٹ وغیر یا خون کے جمے ہوئے ذرّات جو خون کی روانی روک دیں ایمبولس(embolus) کہلاتا ہے۔ یہ ایمبولس کسی خاصی عضو کو خون کی فراہمی روک سکتا ہے۔ ایمبولس کے ذریعے خون کی نالی کی رکاوٹ کو ایمبلیزم کہتے ہیں۔
دل، شریانیں ، چھوٹی شریانیں اور رگیں جسم کا دورانِ خون کا نظام بناتی ہیں۔ خون بڑی طاقت سے دل سے شریانوں میں پہنچایا جاتا ہے ۔ وہاں سے خون چھوٹی رگوں میں بہتا ہے۔ خون کی دل کی طرف واپسی بھی ایسے ہی ہوتی ہے ۔ یہ رگوں کے ذریعے واپس دل کی طرف جاتا ہے ۔واپسی کا یہ سفر آہستہ رفتار کے ساتھ ہو تا ہے۔ بعض اوقات یہ سست خون کا بہاؤ جمنے کی تشکیل کا باعث بن سکتا ہے۔
دراصل خون کو واپس لے جانے والی رگوں میں والوں ہو تے ہیں جب کہ دل سے خون لے کر آنے والی شریانوں میں یہ وال نہیں ہوتے اور خون ان میں داخل ہو کر جسم کے ہر حصّہ تک پہنچ جاتا ہے، مگر واپسی میں خون کو صرف ایک ہی سمت میں بہاؤ رکھنے کی وجہ بنتا ہے۔ چناں چہ وین یا رگ خون لے کر دل کی طرف جا تی ہے اور یہ بہاؤ سست ہو تا ہے اور آرٹری یا سن شریان خون کو دل سے لے کر جسم کے مختلف حصّوں تک پہنچانے کا کام کرتی ہیں اور یہ بہاؤ تیز ہوتا ہے۔
خون کا جمنا بہتے ہوئے خون کو روکنے کے لیے ایک عام عمل ہے جو کسی حادثے یا چوٹ لگنے کے وقت کام آتا ہے۔ ہمارے جسم میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ خون کے لوتھڑے یا چھوٹے ٹکڑے بناتا ہے اور پھر ان کو توڑ کر ختم کر سکتا ہے۔ بعض حالات میں یہ جمے ہوئے خون کے ٹکڑے ٹوٹ کر ختم نہیں ہو پاتے اس کے نتیجے میں صحت کے لیے سنگین مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے۔
خون کے جمے ہو ئے یہ ٹکڑے کسی بھی شریان یارگ میں بن سکتے ہیں ۔ رگوں میں بننے والے ان جمے ہوئے ٹکڑوں کو وینس کلا ٹس یا رگ کا منجمد خون کہا جاتا ہے ۔ ٹانگوں کی رگیں جلد کی سطح کے قریب موجود ہو تی ہیں اور دوسری طرف گہری رگیں جو کہ ہڈی کے قریب واقع پٹھوں کی طرف ہوتی ہیں خون کے جمے ہو ئے ٹکڑے زیادہ تر ٹانگوں کی گہری رگوں میں بن سکتے ہیں۔ اس بات کا امکان موجود ہوتا ہے کہ اس جمے ہو ئے خون سے چھوٹے ذرّات یا ٹکڑے ٹوٹ کر خون میں شامل ہو جائیں اور پھر جسم کے دوسرے حصّوں میں عمل تک پہنچ جائیں۔
اکثر پھیپڑوں کی رگ میں سدہ ہوتا ہے اور اس بیماری کے ہونے کی سب سے عام وجہ ہے۔ دیگر وجوہات میں چربی کا ایمبولس جو کسی ، بڑی ہڈی کے ٹوٹنے کی وجہ سے ہو ، رگ میں ہوا کے بلبلوں کی وجہ سے بھی یہ بیماری ہوسکتی ہے۔ پلمونری ایمبو لز کی علامات میں سانس کا پھولنا ، سانس لینے میں دشواری ہونا، سینے میں چھبتا ہوا درد محسوس ہونا ، کھانسی اور دل کی ڈھڑکن کا تیز ہونا شامل ہے ۔ حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق امریکاکے اندر یہ بیماری 1999سے لے کر 2008تک تیزی سے کم ہو ئی تھی ،مگر اس کے بعد سے لے کر آج تک یہ بیماری 0.4 فی صد کی اوسط سے بڑھ رہی ہے ۔ یورپی ممالک میں بھی اس بیماری کی شرح بڑھ رہی ہے۔
ایشیائی ممالک میں یہ شرح ایک لاکھ افراد میں 4 سے لے کر 7 کے درمیان ہے ۔ یہ تعداد امریکا اور یورپ کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ ایک تحقیقی تبصرے کے مطابق اس کم شرح کی وجہ تشخیص کی کمی ، ڈاکٹر سے رجوع نہ کرنا اور جدید تشخیصی ٹیسٹ سے گریز کرنا ہو سکتا ہے۔ البتہ یہ بات طے شدہ ہے کہ یہ بیماری ایشیائی ممالک میں تیزی سے بڑھ رہی ہے جہاں تک بات کی جائے پاکستان میں موجود اس بیماری کی تو دیگر بیماریوں کی طرح پلمونری ایمبولزم کو بھی نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔
ایک تحقیقی تبصرےکے مطابق رگو کے ایمبولزم کو بہت کم تشخیصی امراض میں رکھا گیا ہے۔نہ صرف یہ بلکہ اگر تشخیص ہوبھی جائے تو اس کے بعد علاج کے لیے وہ طریقے نہیں اپنائے جاتے جو بین الاقوامی سطح پر رائج ہیں، کیوں کہ یہ بیماری ویسے ہی نظرانداز کی جاتی ہے۔ لہٰذا احتیاطی تدابیر کی طرف بھی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے پاکستان میں یہ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر افراد جو رگوں میں خون کے جمنے کی وجہ سے کسی بھی قسم کی دل اور خون کی وریدوں سے متعلق بیماری کا شکار ہوتے ہیں وہ خون میں زائد چکنائی، کسی قسم کی لمبی بیماری، غیر متحرک زندگی، کسی خون کی بیماری کے علاج ،تمباکو نوشی یا موٹاپے کا پس منظر رکھتے ہیں۔
بعض صورتوں میں کسی جراثیم کے انفیکشن کی وجہ سے بھی رگوں کا ایمبولزم کاہونا دیکھا گیا ہے ۔اس مرض کی تشخیص کے لیے خون کے نمونے کا ٹیسٹ، سی ٹی اسکین، ایم آر آئی ،پھیپھڑوں کا اسکین اور پھیپھڑوں کی انجیو گرافی شامل ہے۔ اس کے علاج کے طور پر خون کو پتلا کرنے والی دوا اور انجکشن استعمال کیے جاتے ہیں۔ غرض یہ کہ پلمونری ایمبولزم ایک عام اور ممکنہ طور پر مہلک قلبی عارضہ ہے، جس کی فوری تشخیص اور علاج کرنا ضروری ہے آہستہ آہستہ اس بیماری کا تشخیصی عمل، خطرے کو جانچنا اور بیماری کے ہوجانے کی صورت میں موثر نگرانی کا عمل مختلف منازل طے کرتا ہوا بہتر سے بہتر ہوتا جا رہا ہے۔
اب خون کے نمونے کے ذریعے سے بھی بہت بہتر اور درست تشخیص ممکن ہے جو کسی بھی اور اسکین ٹیسٹ کی ضرورت کو ختم کر دیتی ہے۔ مریضوں کے لئے براہ راست زبانی دوا کے ذریعے علاج محفوظ، موثر اور آسان ہوگیا ہے۔حال ہی میں پلمونری ایمبولزم کے مریضوں پر تجربات کیے گئے ،ان سے یہ معلوم ہوا کہ زبانی علاج ان مریضوں کے لیے کیا جانا چاہیے جن کا خون کا نظام بہت زیادہ بگڑ گیا ہو۔ اگر مریض اس بیماری کے علاوہ کوئی مستقل بیماری کا مریض بھی ہو تو اس صورت میں توسع شدہ علاج جاری رکھا جا سکتا ہے۔
پلمونری ایمبولزم کےانتظام میں بڑی پیش رفت کے باوجود آدھے مریض اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ ان کی فعالیت محدود ہوگئی ہے یا کمزوری پوری طرح سے دور نہیں ہوئی ہے۔ سالماتی اور خلیات کے علم حیاتیات میں عصری ترقی کے ساتھ ہمیں اس بات کا اندازہ ہوتا جا رہا ہے کہ خون کو جسم میں جمانے والا نظام، شریانوں اور رگو کو بنانے والے پٹھوں، خلیات خوردبینی ذرّات اور سوزش ایمبولزم میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ کم آکسیجن اور مدافعتی نظام پر ہونے والے تحقیقی نے یہ بات ظاہر کی ہے کہ خون کی شریانوں اور رگوں میں جمنے کویا چھوٹے ٹکڑوں میں خون کے اندر بننے کوایک مکمل الگ بیماری کے گروپ کے طور پر دیکھنا چاہیے جو کہ کئی ایک عوامل کی وجہ سے ظہور پذیر ہو سکتی ہے۔
اس بیماری سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر مقالہ جات جو پاکستان کی آبادی سے متعلق موجود ہے وہ یا تو مشاہدات کا ریکارڈ رکھنے کے لئے اعداد و شمار ہیں یا پھر کسی انفرادی مریض سے متعلق ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بیماری کے ممکنہ سالماتی، جینیاتی اور لحمیاتی سطح پر تجربات کے ذریعے سے معلومات حاصل کی جائیں جو تحقیقی کام اب تک اس بیماری سے متعلق ہوا ہے وہ زیادہ تر ہسپتالوں کی تجربہ گاہ میں انجام دیا گیا ہے۔ تحقیقی اداروں میں اس طرح کا کام نہ ہونے کے برابر ہے ہمارا ملک دنیا کے ان چند ملکوں میں آتا ہے جہاں خون کی موروثی بیماریاں اب تک بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔اس کی ایک بڑی مثال تھیلسیمیا ہے۔
البتہ اس بیماری کو لے کر پاکستان میں بہت کام ہوا اور کئی بڑے ادارے وجود میں آئے ہیں جو مستقل بنیادوں پر نہ صرف تھیلسیمیا پر کام کر رہے ہیں بلکہ اس کا علاج اور نگرانی کا انتظام بھی خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں۔بالکل اسی طرح ایمبولزم پر کام کرنے کی بھی ضرورت ہے، کیوںکہ ہماری آبادی میں دل کی بیماریاں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ تمام پس منظر اس بات کا متقاضی ہے کہ اس طرف توجہ دی جائے۔
ہمارے یہاں چوں کہ چھوٹی موٹی بیماری کی علامت کو نظرانداز کردیا جاتا ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ یہ کام اشتہاری صورت میں یا میڈیکل کیمپ کی صورت میں کیا جائے۔ یہ دل کی بیماری کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح کو روکنے کی طرف ایک اہم قدم ہوگا۔ جو کہ عوام کو اس طرف بھی راغب کرے گا کہ کسی بھی بیماری کی عام علامات کو نظر انداز نہ کیا جائے، کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ وہ علامات ایک بڑی بیماری کی طرف اشارہ کر رہی ہو، جس سے فردلاعلم ہو۔