• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عبدالسلام

ہمارے یہاں جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے، وزیراعظم یا اس کے ترجمان، ادیبوں اور دانش وروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے عوام میں بھائی چارہ پیدا کریں، دلوں کے اختلافات دور کریں، فرقہ واریت کا خاتمہ کرنے میں مدد دیں، حالانکہ یہ تمام کام سیاست دانوں اور مذہبی لیڈروں کا ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو معاشرے میں سارا فساد انہی کا پھیلایا ہوا ہوتا ہے، یہی انسانوں کو گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کرتے ہیں، لوگوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیتے ہیں۔

ہمارے یہاں ’’دانش ور‘‘ تو اُنہی کو کہا جاتا ہے جو ’’دانش‘‘ پر قابض ہو جاتے ہیں۔ کانفرنسوں اور سیمیناروں میں اہل اقتدار کے قصیدے پڑھتے اور اعزازات پاتے ہیں۔ اس معاملے میں ادیب بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتا۔ شاعروں کو قدرت نے جو موزوںیِ طبع عطا کی ہے، اس سے وہ بھی مفید کام لینے کی کوشش کرتے ہیں اور بقول نظیر اکبر آبادی ’’مچھندر اپنی روزی کماہی لیتا ہے‘‘۔ عام طور پر یہ موقع انہی شاعروں کو ملتا ہے، جو بڑے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔

عوام میں محبت اور یگانگت پیدا کرنا یقیناً بڑی نیکی ہے۔ معاشرے کے ہر فرد کی طرح ادیب پر بھی تھوڑی بہت ذمے داری عائد ہوتی ہے، مگر یہ ذمے داری شاعر یا ادیب ہونے کی حیثیت سے نہیں، بلکہ معاشرے کا فرد ہونے کی حیثیت سے عائد ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ ذمے داری تو دراصل اہل سیاست، اہل مذہب، سماجی اور رفاہی کام کرنے والوں پر عائد ہوتی ہے، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ لوگ بنانے کی بجائے بگاڑتے زیادہ ہیں۔

اخبارات میں جو صحافی کالم لکھتے ہیں، ان کے کالم صاف بتادیتے ہیں کہ کون کس کا آدمی ہے۔ بہت سےلوگ بکے ہوئے نظر آتے ہیں، اس لیے بصیرت افروز تحریریں کم ہی نظر آتی ہیں۔ صحافی کسی نہ کسی کو جواب دہ ہوتا ہے، اس لیے اس کی تحریر کی قوت بھی ’’پابند قوت‘‘ ہوتی ہے۔ صحافت کا موضوع، چونکہ حالات حٓاضرہ ہوتے ہیں، اس لیے حالات کی تبدیلی کے ساتھ یا وقت گزرنے کے بعد صحافتی تحریروں کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔

ادیب کی سب سے اچھی تعریف علامہ اقبال نے پیش کی۔ اُنہوں نے شاعروں اور ادیبوں کو ’’دیدۂ بینائے قوم‘‘ کہہ کر پکارا۔ جسم کا کوئی بھی عضو اگر مبتلائے درد ہو تو آنکھ اس پر آنسو بہاتی ہے۔ یہ آنسو اگر خونِ جگر کی پیداوار ہوں تو ان آنسوئوں میں ڈوبی ہوئی تحریریں بھی پڑھنے والوں کی آنکھوں میں آنسو لے آنے کا باعث ہوتی ہیں۔

اہلِ سیاست نے اور آمریت نے ادب کی اس صلاحیت سے کام بھی لیا ہے اور کبھی کبھی اس کی تاثیر کے خطرات کو محسوس کرتے ہوئے اس پر پابندیاں بھی لگائی اور اپنی مرضی کا ادب پیش کرانے کےلیے سخت قوانین بھی نافذ کیے ہیں۔

ادیب بنیادی طور پر آئیڈئل ہوتا ہے۔ جب گرد و پیش کے حالات کو اپنے تصورات کے معیار پر نہیں پاتا تو اس کے دل میں بغاوت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ تلوار اور بندوق لےکر نکلنا، اس کا کام نہیں۔ وہ تو اپنا خون دل اپنی تحریروں میں بکھیر دیتا ہے۔

جن ادیبوں نے ایسی قربانیاں پیش کی ہیں یا ایسے خطرات مول لیے ہیں، وہ کمیٹیڈ ادیب تھے۔ ان کا کمٹمنٹ صرف ادب سے تھا، جن لوگوں نے سرکاری ہدایات کے تحت اپنی تحریریں پیش کیں، اُن کی تحریریں صحیح معنوں میں اعلیٰ ادب کے دائرے میں آپائیں۔ ایسے ادیبوں کو اپنے ملک و قوم کے جاں نثار یا سیاست کے سپاہی سب کچھ کہا جاسکتا ہے، مگر کمیٹیڈ ادیب ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔

روس میں یا کسی اور ملک میں ادب پر ایسی پابندیاں لگانا، ادب کی قوت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ادب کی اس قوت سے خائف ہونا سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ بعض مذاہب نے بھی ادب کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔ آریائی مذاہب Culture Bound ہیں۔ ان مذاہب میں مثلاً ہندوستان اور یونان میں ادب کی قوی ترین صنف یعنی شاعری کو احترام کی نظروں سے دیکھا گیا ہے۔ افلاطون نے سب سے پہلے جب شاعری کی تخلیق کے سلسلے میں انسپریشن کا نظریہ پیش کیا تو اُس نے اس کا رشتہ شاعر کی فکر سے جوڑنے کی بجائے اسے شعر کی دیوی کا عطیہ قرار دیا اور کہا کہ شاعر، تخلیقِ شعر اپنے ذہن سے نہیں کرتا، بلکہ شعر کی دیوی اس کے ذہن کو اپنے تصرف میں لے لیتی اور اس سے شعر کہلواتی ہے۔ 

آگے چل کر وہ کہتا ہے کہ شاعر کے اپنے نارمل حواس میں کہے ہوئے اشعار ان اشعار کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے ہیں کہ اس نے شعر کی دیوی کے زیرِ تصرف کہے ہیں۔ آریائی دیومالا میں انسان کی تمام صلاحیتوں کا اور دنیا کے تمام کاموں کا رشتہ دیوی دیوتائوں سے ہی جوڑا گیا ہے، یہاں تک کہ ہندوستان اور یونان کے تمام ناقابلِ شکست سورمائوں کو دیوتائوں کی اولاد کہا گیا ہے۔ دراصل شاعر جو کہتے ہیں، اس کی قوتِ متحرکہ کی پشت پر متعدد عوامل ہوتے ہیں، اس میں شعور سے زیادہ لاشعور کا حصہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات اس میں بقول یونگ اجتماعی لاشعور کا حصہ بھی ہوتا ہے۔ کبھی کبھی اس میں ماقابل انسانی تجربات بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ تمام عوامل مل کر شعر کو وجود میں لاتے ہیں۔ 

یہ عوامل اتنے قوی ہوتے ہیں کہ شعر کی تخلیق کو روکنا شاعر کے بس میں نہیں ہوتا۔ ان کا عمل دخل اسی طرح ہوتا ہے، جیسے کہ کسی دیوی نے شاعر کے ذہن پر متصرف ہو کر اس سے شعر کہلوایا ہو، وہاں شاعر کا عمل، اس کا معاملہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ شعر کی تخلیق کرنے والی ہستی بعض اوقات انتہائی بلند اور اعلیٰ صفات کی حامل ہوتی ہے اور اس کے مقابلے میں اسی خالقِ شعر کی مصروف عمل ہستی ایک کمزور، مجبور اور نامساعد حالات میں گھرا ہوا انسان ہوتا ہے، لہٰذا اس کا عمل اس کی شاعری میں جھلکنے والے نظریات کے درجے تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔ اس کی ناکام تمنائیں اور آرزوئیں اسے ایک برا انسان بنا دیتی ہیں۔ 

اپنی تخلیقی قوت کی خاطر اس کے جذبات کو اتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے کہ بعض اوقات اس کی شخصیت میں بچا ہوا ایک منقسم اور کینہ پرور انسان رہ جاتا ہے۔ رہا سوال پیروی کا سو میر، غالب جیسے بڑے شاعروں کی زندگیاں تو کیا، علامہ اقبال جیسے مفکر شاعر کی زندگی کو بھی پیروی کرنے کے قابل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ مقام تو صرف پیغمبروں اور اولیاء اللہ ہی کو حاصل ہے۔ دنیا کےبہت سے بڑے شاعروں اور نثر نگاروں نے اپنے تخلیقی عمل کا جائزہ لیتے ہوئے جو باتیں بیان کی ہیں، ان کے اس قسم کے تمام حقائق کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ 

میں نے اپنے ایک مضمون میں ان امور پر تفصیلی بحث کی ہے۔حقیقی ادیب کو قدرت کی جانب سے مخصوص قسم کی صلاحیتیں عطا ہوتی ہیں، ان صلاحیتوں کے زیراثر اپنے خیالات اور تجربات کا اظہار نہ کرنا اکثر اوقات اس کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ کتنی ہی پابندیاں اس کی راہ میں  حائل کیوں نہ ہوں، وہ کبھی علامات کا، کبھی رمزیت کا، کبھی اشاروں کنایوں کا سہارا لےکر اپنا اظہار کر ہی دیتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے

کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے

زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے

ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے

(فیض احمد فیض)

میں نے تو تن بدن کا لہو پیش کردیا

اے شہریار! تُو بھی تو اپنا حساب دے

(احمد فراز)

اس قسم کی تخلیق میں ایک شدید کرب پوشیدہ ہوتا ہے، جس کا ادراک ایک تخلیق کار ہی کرسکتا ہے۔ ایسےشاعر اور نثر نگار حقیقی معنوں میں کمیٹیڈ ادیب ہوتے ہیں۔ ان کا کمٹمنٹ محض ادب اور ادب کے تقاضوں سے ہوتا ہے۔ وہ کبھی بھی اہلِ سیاست اور نام نہاد لیڈروں کا فرمائشی ادب پیش کرنے کےلیے آمادہ نہیں ہوسکتے۔ کوئی پیش کرتا ہے، تو ان بے جان تحریروں کا ادب میں کوئی مقام نہیں ہوتا۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی