یہ ایک برس قبل کا قصہ ہے کہ شہباز شریف عمران خان کی قید سے رہا ہو کر اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر چکے تھے، ایک دن گیارہ بجے میری ان سے ملاقات ہوئی جو کوئی ڈھائی تین گھنٹے پر محیط رہی ۔ ملک کی معاشی حالت اسٹریچر پر پہنچ چکی تھی اور ان کے لیے فکرمندی کا باعث یہی مسئلہ تھا ۔
دوران گفتگو ان سے کہا کہ سہیل وڑائچ نے کالموں کی اپنی کتاب کو عنوان دیا تھا کہ ’’یہ کمپنی نہیں چلے گی ‘‘ ان کی بات ثابت ہوچکی ہے اور اب ضد کرکے اس کو گھسیٹا جا رہا ہے کیونکہ اس نے چلنے سے تو شروع میں ہی جواب دے دیا تھا اور بیساکھیاں کب تک سہارا دیںگی ۔
یہ نوشتہ دیوار ہے کہ کچھ عرصے میں ہی نواز شریف کی مسلم لیگ ن دوبارہ حکومت کی ذمہ داری ادا کر رہی ہوگی ۔میں نے ان سے کہا کہ میرے خیال میں آپ کو تین چیلنجز یا معرکے درپیش ہونگے ، جن میں امن و امان کی مکمل بحالی ،خارجہ امور میں کامیاب سفارت کاری اور معیشت کی بحالی۔
ان سے اپنا اندازہ بیان کیا تھا کہ امریکہ کی افغانستان سے روانگی کے بعد افغان طالبان کی حکومت کا قیام یقینی نظر آتا ہے اور افغانستان میں بدلتی صورتحال کے اثرات پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کو امکانی طور پر مخدوش کر سکتے ہیں۔
شہباز شریف نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کیوں خراب ہو گی ؟ جس پر اپنا تجزیہ بیان کیا تھا کہ افغان طالبان جن حالات میں کابل کا بندوبست سنبھالیں گے ان میں بدترین معاشی حالات ان کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔
گمان ہے کہ بین الاقوامی برادری جلد ان کو تسلیم نہیں کرے گی ،جب ایسا ہو گا تو افغان طالبان بین الاقوامی معاشی مدد حاصل نہیں کر سکیں گے اور وہاں انسانی بحران شدت اختیار کر لے گا۔
افغان طالبان کوئی ڈسپلنڈ فورس تو ہے نہیں اس لئے ان حالات میں ان کی قیادت کی گرفت کمزور پڑے گی اور خواہ ان کی اعلیٰ قیادت نہ بھی چاہے تب بھی یہ امکان موجود ہوگا کہ ان کی نچلی قیادت مالی اور دیگر وجوہات کی وجہ سے دہشت گرد عناصر کو کہیں نہ کہیں اپنے اڈے قائم کرنے دے اور پاکستان میں بدامنی کی فضا قائم ہو جائے ۔
اسلئے سب سے اہم یہ ہوگا کہ ہم فی الفور اپنے فوجی جوانوں، پولیس اہلکاروں اور انٹیلی جنس افسران کی زندگیوں پرحملے کرنے والے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائیںکیونکہ اگر ایک باوردی شخص ہی محفوظ نہیں تو عوام کاکیا تحفظ ہوگا ۔ آج جب وزیرستان میں فوجی جوانوں کی شہادت کی خبر سنی تو اپنی کہی ہوئی بات یاد آ گئی کہ ان کو بچا لیں تو ملک میں خود ہی احساس تحفظ پنپنا شروع ہو جائے گا ۔
امن و امان کی دوسری جہت بلوچستان کی ہے اول تو غدار غدار کی گردان بند ہونی چاہیے دوئم اختر مینگل نے چھ نکات پیش کیے تھے، ان کو سامنے رکھتے ہوئے مکالمے کا آغاز ہونا چاہیے اور اب تو بگٹی بھی ساتھ ہیں تو اس مسئلے کا مستقل حل نکالنا چاہیے۔
خارجہ امور کے حوالے سے عرض کیا تھا کہ عمران خان حکومت نے صرف بھارت کو خوش کیا،میں اپنے کالموں میں ذکر کر چکا ہوں کہ 2019 کے بھارتی اقدامات کو عمران خان کی تائید حاصل ہے ہاں مگر سی پیک پر کام روک کر ہمارے دوست چین کو ناخوشگوار حالات میں لا کھڑا کیا ہے ۔
مسلمان ممالک سے بغیر سوچےسمجھے گروپ بنانے اور پھر ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہو جانے سے بھی ہماری حیثیت بہت کمزور ہوئی ہے اب تو جاتے جاتے عمران خان نے امریکہ کو ایسے پاکستان کی سیاست میں الجھا دیا ہے کہ وہ ایف اے ٹی ایف کے معاملات کو مزید خراب کرنا چاہتے ہیں۔
پہلے بھی ان کالموں میں ذکر کیا تھا کہ امریکہ نے کوئی اڈے نہیں مانگے مگر اس کا شور مچایا جا رہا ہے حالاں کہ اب تو فوجی ترجمان بھی تصدیق کر چکے ہیں ۔ وہ جی ایس پی پلس کے لیے مسائل پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ نئی حکومت ان مسائل میں الجھی رہےاور معیشت کو بہتر نہ کر سکے ۔
ان حالات میں امریکہ میں زبردست سفارت کاری کی ضرورت ہے ایسی سفارتکاری جس پر وہ بھی اعتماد کر سکے کیوں کہ پاکستان میں اب تک صرف روایتی سفارت کاری کی جا رہی ہے حالاں کہ ضرورت اس اَمرکی ہے کہ وہاں ایسا سفیر تعینات ہو جس کی ذاتی رسائی وائٹ ہاؤس سے لیکر پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ تک ہو کیوں کہ اس وقت وہاں پر دونوں ممالک کے مابین اعتماد سازی کی اشد ضرورت ہے ۔ سفارت کاری میں اعتماد بہت قیمتی ہوتا ہے ۔
یہ دونوں اہداف حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ معیشت سدھارنے کیلئے اسحاق ڈار کو بلا کر معیشت ان کے سپرد کرنی ہوگی کیوں کہ شوکت ترین خود اعتراف کر چکے ہیں کہ عمران خان حکومت کے پاس کوئی معاشی پلان نہیں تھا ۔ اب ملکی معیشت کو دوبارہ پٹری پر ڈالنے کے لیے انتہائی تجربے اور ماضی کا کامیاب ریکارڈ درکار ہے جو صرف اسحاق ڈار کے پاس ہے ۔
تینوں معاملات کو بہتر کرنے کے لیے بہترین ٹیم کا انتخاب ضروری ہے ، اس ضمن میںپرنسپل سیکرٹری کے طور پر ڈاکٹر توقیر شاہ کا انتخاب بہت مناسب ہے ۔
وہ شہباز شریف کے مزاج شناس ہیں اسی لئے انہوں نے پنجاب میں افسر شاہی کو بہت مستعد رکھا ہوا تھا ،وہ ڈبلیو ٹی او میں تعیناتی کے بعد پاکستان کے لئے نشست حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے تھے ۔ میں اُن دنوں جنیوا میں موجود تھا اور دیگر ممالک کے سفارت کار بھی اس حوالے سے بہت متاثر تھے کہ پاکستان کی جانب سے بہت فعال سفارت کاری کر کے یہ موقع حاصل کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر توقیر شاہ کے حوالے سے اپنے خیالات اس وقت بھی میں نے تحریر کئے تھے کہ حکومت ان پر جھوٹا مقدمہ درج کر کےایسے قابل افسر کو اپنے بغض کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش مت کرے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)