معروف سماجی رہنما کی زندگی ایک نظر میں
ہزاروں لاوراث، بے سہار ہ اور دھتکارے ہوئے بچوں کی ممی ،بے گھراور بے آثارا لوگوں کی مسیحا، اید ھی فاؤنڈیشن کی روح رواں بلقیس ایدھی اب ہم میں نہیں رہیں۔ 14اگست 1947ء میں بانٹوا میں پیدا ہوئیں۔ تقسیم ہند کے بعد والدین کے ساتھ کراچی منتقل ہو ئیں۔ انہوں نے ہمیشہ انسانیت کی خدمت کی، کبھی بھی رنگ ،نسل اور مذہب کی وجہ سے کسی میں تفریق نہیں کی، جب بھی کسی کو ان کی مدد یا سہارے کی ضرورت پیش آئی وہ ہمیشہ خدمت کے لیے حاضر ہوتی، بغیر یہ سوچے کہ اس کا تعلق کس اور مذہب یا نسل سے ہے۔
انہوں نے انسانیت کی خدمت میں اپنی پوری زندگی وقف کر دی تھی۔ اس کام کے خاطر انہوں نے اپنی بچوں کی بھی پروا نہیں کی۔ وہ یہ کام بہت خوشی اور لگن سے کرتی تھیں، آدھے رات کو کسی کو ایمرجنسی میں اسپتال لےجانے کی ضرورت پیش آتی تو وہ خود لے کر جاتتیں، کبھی بھی ان کاموں کی وجہ سے ان کے ماتھے پر شکن نہیں آئی۔ طرز زندگی اس قدر سادھ تھی کہ لوگوں ان کی سادگی کے گرویدہ تھے، بہت گہری گہری باتیں سادگی سے کہنے کا ہنر خوب جانتی تھیں۔ ان کے دل میں سب کے لئے ویسا ہی درد تھاجیسے کہ ایک ماں کے دل میں اپنے بچے کے لیے ہوتا ہے۔ وہ ہر لاوراث بچے کو اپنے بچے کی طر ح پیار و محبت دیتی تھیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اید ھی ہومز میں رہنے والی کئی لڑکیوں کی شادی بھی کی۔
ان کی زندگی ایدھی فاؤنڈیشن کے ارد گرد ہی گھومتی تھی۔ اس کے باہر ان کی کوئی زندگی نہیں تھی۔ انہوں نے واقعی اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ ایدھی فاؤنڈیشن کے لیے وقف کیا ہے یہ کہتے ہوئے دل بہت اداس اور افسردہ ہے کہ انسانیت کی علمبردار ،جگت ماں اور عالمی شہرت یافتہ سماجی رہنما، بلقیس ایدھی قلیل علالت کے بعد 15 اپریل 2022 کو خالق حقیقی سے جاملی ۔گزشتہ روز میمن مسجد میں ادا کی گئی۔
وہ پیشے کے اعتبار سے نرس تھیں اور پاکستان میں گذشتہ 6 دہائیوں سے فعال ترین مخیر حضرات میں سے ایک تھیں۔ انہوں نے محض 16 سال کی عمر میں ایدھی صاحب کے قائم کردہ نرسنگ ٹریننگ اسکول میں داخلہ لیا اور نرسنگ کی باقاعدہ پیشہ ورانہ تربیت حاصل کی۔ ان کی محنت، لگن اور جوش وجذبے کو دیکھتے ہوئے ایدھی صاحب نے نرسنگ کے ادارے کی ذمہ داریاں انہیں سونپ دیں۔ بلقیس ایدھی کے مطابق، ”اس دور میں نرسنگ کے شعبے کی طرف خواتین کا رجحان بہت کم تھا۔ ‘‘ انہوں نے اس ادارے میں دو برس تک جانفشانی اور انتہائی لگن کے ساتھ کام کیا اوران کی یہی محنت اور جذبہ عبد الستار ایدھی کے دل میں گھر کر گیا۔
یوں 1966ء میں بلقیس بانو، عبد الستار ایدھی کی رفیق حیات بن گئیں۔ شادی کے بعد ان دونوں سماجی شخصیات نے بہت سے نئے فلاحی کاموں کا آغاز کیا،جس میں بے گھر ہونے والی خواتین کو ادارے میں جگہ دینا ، ایدھی میٹرنٹی ہوم و غیرہ۔ خواتین سے متعلق تمام فلاحی کاموں کی نگرانی بلقیس ایدھی کرتی تھیں۔ گنیز ورلڈ بک میں ریکارڈ کی حامل یہ فلاحی تنظیم دنیا بھر میں نیٹ ورک کی حامل ہے۔ اس سارے عمل میں بلقیس ایدھی قدم قدم پر عبدالستار ایدھی کے شریک سفررہی ہیں۔ آپ نے اپنے شوہر عبدالستار ایدھی کا ساتھ دیتے ہوئے انسانیت کی خدمت کا راستہ اپنایا۔
ایدھی کی شریک حیات ہوتے ہوئے آپ نے خدمت کے کاموں میں اس طرح شراکت کی کہ ہزاروں لاوارثوں کے لئے ایدھی ابو اور بلقیس ایدھی ممی تھیں۔انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں بتا یا کہ مجھے لگتا ہے کہ میں پورے پاکستان کی ’’ماں ‘‘ہوں۔ بھارتی لڑکی گیتا چودہ سال میرے پاس رہی شروع میں وہ بات بات پر ہاتھ جوڑتی پاؤں پکڑتی، اشارے سے گھنٹی بجاتی ،میں نے سوچا یہ تو ہندو ہے، تو میں نےاس کانام گیتا رکھا۔
میں اپنے ہندو دوستوں کے گھر اس کو لے کر جاتی تھی ،تا کہ وہ اپنے مذہب سے جوڑی رہے ،بعد میں ،میں سینٹر میں اس کے لیے مندر بنا دیا گیا ،گیتا کو لے کر جب میں بھارت گئی تو ڈیزائنر مہیش بھٹ نے مجھے سے کہا مجھے حیرت ہے آپ کو ابھی تک نوبل پرائز نہیں ملا میں نے جواب میں کہا مجھے یہ انعام تو زور ملتا ہے، وہ میرے اس بات سے بہت حیران ہوئے، میں نے کہا سب مجھے بلقیس ممی کہہ کر بلاتے ہیں، میرے لیے یہ ہی نوبل پرائز ہے۔ ان کے دل میں سب کے لئے ویسا ہی درد تھا جیسے کہ ایک ماں کے دل میں بچے کا۔ایدھی سینٹرز میں رکھے گئے جھولوں میں لوگ رات کے اندھیرے میں نوزائدہ بچے چھوڑ جاتے ہیں، کئی نومولود کچرے کے ڈھیر سے ملتے ہیں ، کہیں سے بھی ملنے والے لاوارث بچے یہ اپنا لیتی تھیں، آدھی رات کو بھی اپنے کسی بیمار بچے کو لے کر ایمرجنسی میں پہنچ جاتیں۔ سب کاموں میں ان کاایک پاؤں کھارا در تو دوسرا سہراب گوٹھ میں ہوتا تھا۔
بلقیس ایدھی کئی دہائیوں تک نہ صرف اپنے شوہر کے ساتھ مل کر ضروت مندوں کی مد دکرتی رہیں بلکہ انہوں نے خود اپنے نام سے بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن بھی قائم کیا۔ انہوں نے پہلے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اور ان کے انتقال کے بعد اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر انسانیت کی ایسے خدمت کی۔ ان کی گراں قدر خدمات کے ساتھ ساتھ ان کا ایک بے مثال کام جھولوں کا قیام تھا۔ ان 'جھولوں سے مراد ایسے پالنے تھے، جن میں لوگ ایدھی ہومز کے باہر اپنے بچے چھوڑ جاتے تھے۔ بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن نے یہ اہتمام کیا تھا کہ ان نومولود کو قتل نہ کریں بلکہ ان کو اید ھی ہومز کے باہر موجود جھولوں میں ڈال دیں، اس کا مقصد ایسے بچوں کی جانیں بچا نا ہوتا تھا اور یہ کام آج بھی جاری ہے۔ بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن آج تک ایسے 42 ہزار سے زائد پاکستانی بچوں کی جانیں بچا چکی ہے۔
انہی خدمات کی باعث لوگ انہیں انسانوں میں فر شتہ قرار دیتے تھے ۔ایدھی ہومز میں ہم نے معذور بچے بھی دیکھے جنہیں ان کے رشتے دار چھوڑ جاتے تھے جن کی پرورش بلقیس ایدھی کرتی تھیں ،وہ کہتی تھیں کہ مجھے ایسا کبھی محسوس نہیں ہوا کہ یہ میرے بچے نہیں ہیں، جب یہ بچے مجھے ماں پکارتے ہیں تو میرادل بڑا ہوجاتا ہے۔ تمام بچے اور ایدھی اسٹاف اُنھیں ’’ممی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ اتنی ممتا میں ان کے حقیقی بچے بھی شامل تھے۔ بلقیس کا کہنا تھا کہ ان کے بچوں نے کبھی شکایت نہیں کی کہ میں اُنھیں وقت نہیں دیتی، وہ تو خود میرا ہاتھ بٹاتے ہیں۔
بلقیس ایدھی بچوں کے ساتھ ان بے سہارا اور یتیم لڑکیوں کی بھی ماں تھیں جو ایدھی ہومز میں رہتی تھیں۔ ان کی شادی اور تعلیم کو بھی وہ اپنا فرض سمجھتی تھیں۔ ان کے جب بھی رشتے آتے تو ان لڑکوں اور خاندانوں کو ان کی کڑی پوچھ گچھ سے گزرنا پڑتا تھا۔ انسانیت کے لیے ان کی خد مات کو فرا موش کرنا اتنا آسان نہیں، آج ہر آنکھ ان کے غم میں اشکبار ہے ،ان کے جانے سے انسانیت کا ایک عہد تمام ہوا۔ فلاح و بہبود کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے پر ان کو ’’مادر پاکستان ‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ بلقیس ایدھی اپنی خدمات کی بناء پر ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔
1966ء میں بلقیس بانو، عبد الستار ایدھی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ مسجد میں نکاح کے لیے لوگ جمع ہیں اور گھر میں دلہن سرخ جوڑے میں تیار بیٹھی ہے۔ جیسے ہی رخصتی کا وقت آیا تو دولہے کو اطلاع ملی کہ ایک بچہ قریب المرگ ہے اور اسے فوری طور پر ہسپتال نہ پہنچایا گیا تو وہ دم توڑ دے گا۔ دولہے کو یہ بھی ہوش نہ رہا کہ ان کی دلہن ان کا انتظار کر رہی ہوگی۔ وہ وہاں سے روانہ ہو گئے۔ دلہن نے رات رشتے داروں میں اور دولہے نے ہسپتال میں گزاری۔ پاکستان کے نامور سماجی کارکن عبدالستار ایدھی اور ان کی بیگم بلقیس ایدھی کی زندگی کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا، مگر پھر ان کی زندگی کی کتاب ایسے واقعات سے بھرتی چلی گئی۔
1986 ء میں انہیں رومن میگسیسی سے نوازا گیا۔ انسانیت کی خدمات کی بناء پر حکومت ِ پاکستان نے انہیں ہلال امتیاز دیا۔ بھارتی لڑکی گیتا کی دیکھ بھال پر بھارت نے2015 ء میں انہیں مدر ٹریسا ایوارڈ دیا۔ بلقیس ایدھی پاکستان کے اعلی ٰترین اعزاز سمیت امریکا، برطانیہ اور بھارت سمیت کئی ممالک سے ایوارڈ حاصل کرچکی تھیں۔ گزشتہ برس ایک بین الاقوامی ادارے نے انہیں دہائی کی شخصیت قرار دیا تھا۔
بلقیس ایدھی نے 1200 کے قریب لا وارث بچّوں کو اپنی گود میں کھلایا اور کئی لڑکیوں کو اپنے گھر میں پناہ دی۔ ہزاروں بچّوں کو جھولے سے اُٹھا ممتا کا سایہ دیا۔ اور ان سب کو وہ اپنے بچّوں کی طر ح ہی پیا ر محبت کرتی تھیں۔کبھی کسی کو یہ احساس تک ہونے نہیں دیا کہ وہ ان کی سگی ماں نہیں ہیں، ہمیشہ ہر لمحہ سائے کی طرح ان کے ساتھ ساتھ رہتیں۔
ان سب کی سالگرہ خوب دھوم دھام سے مانتیں ،کسی لڑکی کے ہاں پہلے بچے کی پیدا ئش پر چھٹی کی رسم باقاعدہ طریقے سے کرتیں۔ غرض یہ کہ ہر وہ فر ض نبھاتیں جو ایک ماں کا ہوتا ہے۔ تمام بچّوں کو کبھی کسی محرومی کا احسا س تک نہیں ہونے دیتی تھیں، ان کی ہر طرح ضروریات بہ خونی پوری کرتی تھیں۔ ان کی اولین تر جیح ان کی بچّوں اور لڑکیوں کی بہتر ین پرورش تھی۔ ان کے اپنے 2 بیٹیاں اور 2 بیٹے ہیں۔ وہ تیرہ بچوں کی نانی ،دادی تھیں۔
اندر داخل ہوتے ہی چار سو پھلی افسردگی اور مایوسی کا انداز بہ خوبی کیا جاسکتا تھا ، ایسا لگ رہا تھا کہ صرف لوگ ہی نہیں بلکہ در ودیوار بھی سوگوار ہیں۔ بچے ،بڑھے سب کی آنکھیں اشکبار تھیں ۔ایدھی ہومز میں رہنے والی صائمہ نے روتے ہوئے گفتگو کا آغاز کیا۔ اور بتا یا کہ میں اید ھی ہومز بچپن سے رہ رہی ہوں ،مجھےممی نے جھولے سےاُٹھا یا تھا ،مجھے نہیں معلوم کہ میرے والدین کو ن ہیں ،عبدالستار ایدھی میرے ابو اور بلقیس ایدھی میری ممی تھیں۔
چند سال قبل عبدالستار کے جانے پر باپ کی شفقت سے محروم ہوئی اور آج ممی کے جانے سے ماں کے سائے سے بھی محروم ہو گئ۔اید ھی فائونڈیشن کی کارکن اسما محمد اسلم نے آنسو صاف کرتے ہوئے گفتگو شروع کی :’’میں ہر وقت ان کے ساتھ رہتی تھی، ساتھ کام کرتی تھی اور کھانا بھی ساتھ ہی کھاتی تھی۔ ممی بہت محبت کرنے والی خاتون تھیں، وہ ہم سب کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتی تھیں۔ اگر ہم کسی دن نہیں آتے تھے تو وہ پریشان ہوجاتی تھیں اور فوراً کالز کرتی تھیں۔
پوچھتی تھیں کہ کیا ہوا خیریت ہے کیا مسئلہ ہے۔ زندگی کے ہر مسئلے میں انہوں نے میری بہت مدد کی ہے۔ انہوں نے مجھے جینے کا حوصلہ دیا۔ جب میں ایدھی فاؤنڈیشن آئی تو میں دنیا کے معاملات سے واقف نہیں تھی۔ ممی نے میرا قدم قدم پر ساتھ دیا، مجھے ہر چیز بتائی سکھائی۔ میری غلطیوں کو معاف کیا اور مجھے ہر بار پھر سے موقع دیا۔ وہ کہتی تھیں کہ بس جو بھی ہو تمہیں حوصلہ نہیں ہارنا ہے۔