• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈیزل کے دھوئیں میں اٹا ہوا کراچی اب بھی بڑا دل کش شہر ہے۔ یہی کراچی تو تھا جہاں ابھی تیس بتیس سال پہلے تک لوگ ہر شام نہا دھوکر، صاف ستھرے کپڑے پہن کر گھوڑا گاڑیوں میں بیٹھا کرتےتھے اور بنگلور کی گلابی کھپریلوں اور لکڑی کی جعفریوں والے بنگلوں کے سامنے سے گزر کر غروب آفتاب کا منظر دیکھنے ایک طویل تنہا تنہا سی سڑک طے کرکے کلفٹن جایا کرتے تھے۔

اب یہی کراچی ہے جہاں ڈیزل کے دھوئیں نے سب کچھ یوں ڈھانپ لیا ہے کہ نہ سورچ کا ڈوبنا دکھائی دیتا ہے نہ نکلنا۔ جس جگہ دو رویہ تاڑ کے درخت کھڑے سمندری ہوا میں جھوما کرتے تھے، وہاں اب ان گنت منزلوں کی عمارتیں کھڑی آسمان کو چوماکرتی ہیں، اسی فضا کی کثافت میں اَٹے ہوئے آسمان کو اور عمارتیں بھی ایسی اور اتنی بہت سی کہ سنا ہے ان میں رہنے کے لیے مکین نہیں ملتے۔ کہتے ہیں کہ خالی مکانوں میں دیو رہنے لگتے ہیں۔ بس اب شاید سورج کا نکلنا اور ڈوبنا اوپر کی منزلوں میں رہنے والے دیو ہی دیکھا کریں گے۔

میں کراچی پہنچتے ہی وہاں کے ہنگاموں میں کھو گیا۔ البتہ خود کھوکر میں نے یہ بھید پایا کہ کراچی میں خوش حالی چونسٹھ گنی ہوگئی ہے۔ جب روپے میں چونسٹھ پیسے ہوا کرتے تھے، اس وقت بھی کراچی کے گداگر اپنی ایک انگلی اٹھاکر ایک پیسے کا سوال کرتے تھے۔ اور اب جب سو روپئے میں یہی کوئی پچیس تیس روپئے رہ گئے ہیں تو اب بھی گداگر اٹھاتے تو ہیں وہی ایک انگلی لیکن اب ایک روپئے کا سوال، بلکہ مطالبہ کرتے ہیں۔

خوش حالی آئی ہے تو اپنے ساتھ دو چیزیں لائی ہے۔ گھر کی دیواروں کے اندر وی سی آر اور دیواروں کے باہر سنیاسی باوا، عاملوں اور پروفیسر کے اشتہار۔

’’نفرت محبت میں بدل سکتی ہے۔ وہ تمنا ہی کیا جو پوری نہ ہو۔‘‘

ملازمت، شادی، امتحان میں کامیابی، دوستی، دشمنی، یہ ساری نعمتیں سنیاسی باوا اور پروفیسر لسبیلہ ہائوس کے چوراہے پر بیٹھے لٹارہے ہیں۔

سچ ہے، خوش حالی آتی ہے تو اسے کھا جانے والا گھن بھی اپنے ساتھ لاتی ہے۔

کراچی کے بازار اور کراچی کی دکانیں دیکھئے تو دیکھتے ہی رہ جائیے۔ فرش سے عرش تک غیرملکی مال بھرا پڑا ہے۔ خریدار ہوں گے تبھی تو مال بھی ہے۔ کسی کو خیال آیا کہ لوگوں میں قومیت کا جذبہ ابھارا جائے چنانچہ بڑے بڑے پوسٹر لگائے گئے ہیں جن پر لکھا ہے۔ ’’پاکستانی بنیئے۔ پاکستانی مال خریدیئے۔‘‘

ہندوستانی بنیئے تو سنے تھے۔ پاکستانی بنیئے بھی ہوتے ہیں کیا؟

خیر۔ میں خوش اس بات پر ہوں کہ میں نے لوگوں کو خوش دیکھا۔ خوش پوشاک، خوش خورا، خوش گفتار اور خوش کردار۔

صاحب بھی عمدہ سے کرتہ شلوار پہنتے ہیں، ان کے ڈرائیور بھی قیمتی سا کرتہ اور شلوار زیب تن کرتے ہیں۔ کار کی پچھلی نشست پر خاتون بیٹھی ہوں اور اسٹیئرنگ پر شوہر تو ٹریفک لائٹ پر ایک روپیہ مانگنے والا گداگر کہتا ہے۔ ’’تمہاری جوڑی سلامت رہے‘‘۔ اور کار کی پچھلی نشست پر خاتون بیٹھی ہوں اور اسٹیئرنگ پر شوفر ہو تب بھی گداگر کی وہی صدا ہے۔ ’’تمہاری جوڑی سلامت رہے‘‘۔

غرض یہ کہ لباس نے سارے امتیاز مٹادیئے ہیں۔

غریب مزدروں نے دوپہر کے کھانے کے وقفے میں نان کے ساتھ روکھی پیاز کھانے کا رواج اب ترک کردیا ہے۔ لوگ اب بریانی کھاتے ہیں۔ وہ ممکن نہ ہو تو نہاری پر گزارہ کرلیتے ہیں اور قورمہ تو کہیں گیا نہیں۔ دکاندار مال دیتا ہے تو گاہک اب شکریہ کہنے لگا ہے۔ مسافر کرایہ ادا کرتا ہے تو ٹیکسی ڈرائیور مہربانی کہنے لگا ہے۔

ایک ایک روپئے کے نئےنوٹ بڑے خوب صورت ہیںلیکن ریزگاری کا یہ حال ہے کہ ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے۔ سارے معاملے اب نوٹوں میں طے ہوتے ہیں۔ سکے صرف مسجد کے چندے میں دیئے جاتے ہیں۔ حیرت تو اس وقت ہوئی جب میں نے ریل کا ٹکٹ خریدا۔ تیس روپئے دس پیسے کا تھا مگر بکنگ کلرک نے صرف تیس روپئے لئے۔

تو کیا اس بیچارے نے دس پیسے اپنی جیب سے بھرے ہوں گے؟

جواب ملا جی نہیں۔ جس مسافر کا ٹکٹ تیس روپئے اسی پیسے کا بنا ہوگا، اس سے پورے اکتیس روپئے لئے ہوں گے۔

خوش کرداری کا احوال یہ ہے کہ ایک ٹیکسی میں بیٹھا۔ خود ٹیکسی ابھی چلی بھی نہیں تھی کہ اس کا میٹر چلنے لگا۔ پھر جب دوڑ لگی تو ٹیکسی پیچھے رہ گئی، اس کا میٹر بہت آگے نکل گیا۔ منزل پر پہنچا تو میٹر نے ستائیس روپئے بنائے تھے۔ میں نے ڈرائیور کو ستائیس روپے پیش کرنا چاہے تو وہ بولا۔ نہیں صاحب میرا میٹر غلط ہے۔ آپ کسی دوسری ٹیکسی میں واپس جائیں گے تو اس میں کرایہ کم بنے گا اور پھر آپ مجھے بددعا دیں گے، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، میں بے ایمانی نہیں کر سکتا، بس بیس روپئے دے دیجے۔

میں نے بیس روپئے بھی دیئے اور ڈرائیور کو دعا بھی دی۔

یہ دوسری بات ہے کہ جس ٹیکسی میں واپسی گیا اس کے میٹر میں پندرہ روپئے بنے۔

یہ بھی کیا کم ہے کہ جس ٹیکسی والے نے اپنے میٹر کا غلط ہونا مان لیا۔ یہ بھی بڑا انقلاب ہے۔ میں ایک ٹیکسی سے اترنے لگا تو اس کے ڈرائیور نے خدا حافظ کہا ۔ یہ اس سے بھی بڑا انقلاب ہے۔ ایسے موقعوں پر مجھے غریبوں پر پیار آتا ہے۔ اس پر یاد آیا کہ اسی شام میں نارتھ ناظم آباد کی ریلوے لائین پار کر کے مزدوروں کی جھونپڑیوں کے درمیان چلا جا رہا تھا کہ ایک جھونپڑی سے کچھ محنت کشوں کے گانے کی آواز آئی جو دن بھر کی مشقت کے بعد اپنے کاندھوں سے تھکن کا بوجھ اتارنےکے لئے ٹین کا خالی تسلا بجا بجا کر لہک لہک کر گا رہے تھے۔ میں نے اپنے تھیلے سے ٹیپ ریکارڈ نکالا اور آواز دی۔ ’’کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟‘‘

انہوں نے اپنے دروازے بھی کھول دیئے اور اپنی بانہیں بھی۔

دنیا میں غریب نہ ہوتے تو شاید محبت بھی نہ ہوتی۔

تیس سال بعد

فروری کا پہلا ہفتہ اختتام پر تھا جب میرا طیارہ کراچی کے ہوائی اڈے پر اترا۔ اس وقت شہر پر ڈیزل کا دھواں پھیلا ہوا تھا۔

آج تیس برس بعد شہر پر دھواں تو پھیلا ہوا ہے لیکن وہ دھواں ڈیزل کا کم اور بارود کا زیادہ ہے۔ اخبار میں پڑھ رہا ہوں کہ اس روز میں ناظم آبادمیں جس ریلوے لائن کو پھلانگ کر جا رہا تھا اور وہاں جھونپڑی میں دن بھر کے تھکے ہارےمزدور تغاری بجا بجا کر گا رہے تھے اور اپنا جی بہلا رہے تھے اورمیری دستک سن کر دروازے مجھ پر کھول دیئے تھے، اخبار میں لکھا ہے کہ اس جگہ کچھ غریب غربأ بیٹھے تھے کہ کسی نے گولیاں چلا کر مار ڈالا۔

مگر عجیب شہر ہے۔ ایک شام گھائل ہوتا ہے، اگلی صبح کام پر نکل کھڑا ہوتا ہے۔ یہ وہ بدن ہے کہ اگر ایک عضو زخمی ہو تو پورا جسم نہیں کراہتا۔ اسے کہتے ہیں سخت جان شہر ۔ ملک میں کہیں بھی بے چینی ہو۔ گرد کراچی میں اڑتی ہے۔ دو چار روز گزار کر پھر دامن جھاڑ کر اٹھ بیٹھتا ہے۔

کراچی اب ایک شہر نہیں رہا، یہ بہت سے شہروں کا چھتہ بن گیا ہے۔ ہر علاقے کا الگ مزاج اور اس کی الگ پہچان ہے۔ کہیں میلے لگے ہیں اور لوگ کھانے پینے اور ایک جشن سا منانے میں مصروف ہیں۔ کہیں پسماندگی اور بدحالی ے اور لوگ اسی حال میں مگن ہیں۔ وی سی آر رخصت ہوا اور ڈی وی ڈی نے اس کی جگہ لے لی ۔ کاروں میں ہائی فائی لگا ہے اور لڑکے لڑکیاں پوری آواز سے گانے سن رہے ہیں۔ سنیاسی باوا اور کالے جادو والے نام نہاد پروفیسر آج بھی اپنی دکانیں سجائے بیٹھے ہیں۔ لسبیلہ چوک پر اب ان کے پہلو میں حکیموں نے بڑے بڑے مطب کھول لئےہیں اور منجھلے حکیم صاحب اور چھوٹے حکیم صاحب ہر طرح کی ظاہری اور خفیہ بیماریوں کا شرطیہ تیر بہدف علاج کر رہے ہیں۔ اوپر سے نفسیاتی بیماریوں کے اسپتال کھل گئے ہیں ان سب کی کثرت دیکھ کر شہر میں پھیلے ہوئے مرض کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ان تین دہائیوں میں شہر کا کیا حال ہوا، اس کا دکھ نہیں۔ اگلے تیس برسوں میں اس کی کیا درگت بنے گی، یہ سوچ کر ہول آتا ہے۔

(جنگ کے کالم نگار، معروف صحافی رضا علی کی کتاب ’’تیس سال بعد‘‘ سے ایک باب)