وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں 34رکنی وفاقی کابینہ نے حلف اٹھا لیا ہے۔ ملک میں بظاہر شہباز شریف کی حکومت قائم ہو گئی ہے لیکن تاحال انہیں اپنی حکومت کی رٹ منوانے میں قدم قدم پر مشکلات کا سامنا ہے۔
پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کا انتخاب عمل میں آچکا ہے لیکن تادمِ تحریر نو منتخب وزیراعلیٰ حمزہ شہباز اپنے عہدے کا حلف نہیں اٹھا سکے۔ انہوں نے اِس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔
پنجاب کے ’’برطرف‘‘ گورنر عمر چیمہ نو منتخب وزیراعلیٰ کا حلف لینے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی گورنر ہائوس خالی کر رہے ہیں۔ صدرِ مملکت عارف علوی نے اُنہیں نئے گورنر کی تقرری تک کام کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔
آئینی اداروں کے کام کرنے کی راہ میں آئینی مناصب پر موجود شخصیات ہی حائل ہیں۔ ملک میں عجب طوائف الملوکی ہے۔ آئین کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پُرامن انتقالِ اقتدار کے لیے قدم قدم پر عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹائے بغیر آئین شکنوں کی سرکوبی ممکن نہیں رہی۔
عدلیہ بھی ’’درخواست گزاروں‘‘ سے عاجز آچکی ہے۔ صدرِ مملکت عارف علوی نے ’’علالت‘‘ کے باعث وزیراعظم سے حلف لیا اور نہ ہی ان کی صحت وفاقی کابینہ کا حلف لینے کی متحمل ہو سکی لیکن جوں ہی وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کی تقریبِ حلف برداری کے مراحل طے ہوئے، صدر مملکت چاق و چوبند ہو گئے۔
وزیراعظم نے بھی بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے ایوانِ صدر حاضری دی اور خوش اسلوبی سے انتقالِ اقتدار کے تمام مراحل طے کرنے کے لیے صدرِ مملکت عارف علوی سے ون آن ون ملاقات کی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ صدرِ مملکت ریاستی امور کو خوش اسلوبی سے طے کرنے میں کس حد تک حکومت سے تعاون کرتے ہیں۔ سرِ دست صدر مملکت وفاقی کابینہ کے بقیہ اراکین کا حلف لینے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ یہ اب ان کے طرزِ عمل پر منحصر ہے۔
وہ اگر کارِ سرکار خوش اسلوبی سے نمٹانے کی راہ میں حائل نہ ہوئے تو فوری طور پر ان کے خلاف مواخذہ کی تحریک پیش کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ ویسے بھی آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کی ’’مسندِ صدارت‘‘ پر نظریں لگی ہوئی ہیں۔
34رکنی وفاقی کابینہ ’’پی ڈی ایم‘‘ کی مخلوط حکومت میں مسلم لیگ (ن) کو 14، پیپلز پارٹی کو 11اور جمعیت علمائے اسلام کو 4وزارتیں دی گئی ہیں جبکہ دیگر اتحادی جماعتوں کو بھی اکاموڈیٹ کیا گیا ہے۔ دلچسپ صورت حال اُس وقت پیدا ہوئی جب بلاول بھٹو زرداری نے مشروط طور پر وزارتِ خارجہ کا حلف اٹھانے پر آمادگی کا اظہار کیا۔
وہ 4نکاتی مطالبات لے کر نواز شریف سے ملاقات کے لیے لندن روانہ ہو گئے۔ سٹین ہوپ ہاؤس لندن میں واقع نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کے دفتر میں ہونے والی تفصیلی ملاقات میں دونوں طرف سے وفود نے بھی شرکت کی۔
پیپلز پارٹی کے وفد نے نواز شریف سے صدر مملکت، چیئرمین سینیٹ، گورنر پنجاب کے مناصب کا تقاضا کیا ہے۔ آصف علی نے اپنے ’’تایا‘‘ سے پنجاب میں پیپلز پارٹی کیلئے 10نشستیں مانگ لی ہیں جن میں سے 5 نشستیں پہلے ہی میاں صاحب دینے پر راضی ہوچکے ہیں اگرچہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان کوئی حتمی بات طے نہیں ہوئی تاہم نواز شریف نے بلاول بھٹو کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا۔
دونوں نے باہمی مشاورت اور اتفاقِ رائے سے چلنے کا اعادہ کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نواز شریف سے ملاقات کے بعد خاصے مطمئن دکھائی دے رہے ہیں۔ نواز شریف نے ان کے اعزاز میں افطار ڈنر بھی دیا۔
بلاول واپسی پر وزیر خارجہ کا حلف اٹھا لیں گے۔ آصف علی زرداری در حقیقت آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اس مقصد کے لیے وہ پنجاب میں کچھ نشستوں پر مسلم لیگ کی جانب سے امیدوار نہ کھڑے کرنے کی یقین دہانی چاہتے ہیں۔
نواز شریف نے بھی دل پر پتھر رکھ کر اپنی کچھ نشستوں پر اتحاد قائم رکھنے کے لیے آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے پی ٹی آئی کے 19، 20منحرفین کو بھی ’’اکاموڈیٹ‘‘ کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے جنہوں نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے کوٹے میں سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کو وزیر مملکت بنانے کی پیش کش کی گئی تو انہوں نے وزیر مملکت بننے سے معذرت کر لی۔ کھوکھر برادران کے ذکر کے بغیر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی تاریخ نامکمل ہے۔
ان کے والد محترم حاجی نواز کھوکھر پہلی بار 1985میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ کھوکھر برادران وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے روح رواں ہیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کی تحریک کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے تمام وسائل فراہم کیے ہیں۔
شنید ہے ان کو راضی کرنے کے لیے ’’جرگہ‘‘ بھی بھجوایا گیا لیکن انہوں نے حلف اٹھانے سے معذرت کر لی۔ اسلام آباد میں اگر کھوکھروں کی سیاسی حیثیت کی نفی کی گئی اور ان کے تحفظات دور نہ کیے تو وہ کوئی بڑا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری محسن داوڑ کو وزیر بنوانا چاہتے تھے لیکن کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر محسن داوڑ کا نام وفاقی کابینہ سے ڈراپ کر دیا گیا۔آصف علی زرداری نے چوہدری پرویز الٰہی کے عمران خان کے ساتھ کھڑا ہونے کے باوجود چوہدری شجاعت حسین کو چوہدری سالک حسین کے وفاقی وزیر کا حلف اٹھانے پر آمادہ کر لیا۔
اقتدار سے الگ ہونے کے بعد عمران خان نے پشاور اور کراچی کے بعد لاہور میں بڑے جلسے کیے ہیں، وہ اب اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ وہ پورا حکومتی نظام تلپٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے پی ٹی آئی کے کارکنوں سے کہا ہے کہ ’’تیار رہو اسلام آباد کی کال دوں گا‘‘ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے حالیہ جلسے 2018کے عام انتخابات میں ہونے والے جلسوں سے بڑے ہیں اور نہ ہی یہ 2014ہے جب ان کو ’’غیبی‘‘ مدد حاصل تھی۔
اب عمران خان کو کسی غیبی قوت کی حمایت حاصل نہیں ہو گی۔ عمران خان قبل از وقت انتخابات کے لیے سول نافرمانی کی کال بھی دے سکتے ہیں لیکن فارن فنڈنگ کیس بھی منطقی انجام کو پہنچنے والا ہے۔
ایک طرف عالمی سازش سے اقتدار سے نکالے جانے کا رونا رویا جا رہا ہے تو دوسری طرف فواد چوہدری برملا کہتے ہیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ ناراض نہ ہوتی تو وہ آج بھی اقتدار میں ہوتے۔