• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں میاں شہباز شریف کا وزیر اعظم بننا اور بلاول بھٹو کا وزیر خارجہ بننا پاکستان کیلئے نیک نامی کا باعث اس لئے ہے کہ عالمی افق پر شہباز شریف کا تعارف اپنے بڑے بھائی اور پاکستان کے مقبول ترین لیڈر میاں نواز شریف کے ساتھ جڑا ہوا ہے، جن کا ملکی سیاست میں یہ ریکارڈ ہے کہ وہ تین نیشنل اسمبلیوں سے قائد ایوان منتخب ہوئے جسے توڑنا آسان نہیں۔

علاوہ ازیں بین الاقوامی سطح پر نواز شریف کی پہچان ایک معتدل ،لبرل اور امن پسند رہنما کی رہی ہے بالخصوص جس نے عالمی طاقتوں کےساتھ ہی نہیں اپنے ہمسایوں کے ساتھ بھی مثالی تعلقات کی خاطر پیہم کاوشیں کیں۔

اسی طرح بلاول بھٹو کا تعارف اپنی اس عظیم ماں کے ساتھ جڑا ہوا ہے جو عالمی سطح پر اپنی جمہوریت نوازی، حقیقت پسندی، رواداری، حقوقِ انسانی و نسواں کے ساتھ ساتھ سیکولر اپروچ کی پہچان و مقبولیت رکھتی تھیں۔

بلاول بھٹو بلاشبہ اپنی پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے دیگر مصروفیات بھی جاری رکھیں گے اور بحیثیت وزیر خارجہ کام کرتے ہوئے حنا ربانی کھر ان کی معاونت کریں گی اس کے باوجود ان سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ پاکستان کے خارجہ امور میں نہ صرف یہ کہ گہری دلچسپی لیں گے بلکہ ایک متحرک نوجوان کی حیثیت سے عملی طور پر بھی خوب دوڑ دھوپ کریں گے اور دنیا ان کے پس منظر کی وجہ سے بھی ان کی زیادہ قدر افزائی کرے گی خارجہ امور میں ان کے نانا سے بڑھ کر ان کی والدہ محترمہ کا خصوصی میلان تھا اور اپنی اس دلچسپی کے حوالے سے وہ خود بتایا کرتی تھیں

۔وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد جب وہ پہلی مرتبہ امریکہ گئیں اور انہیں امریکی کانگریس سے خطاب کا اعزاز حاصل ہوا تو پوری کانگریس نے کھڑے ہو کر جس جوش وجذبے کے ساتھ ان کا استقبال کیا وہ پاکستان کیلئے اعزاز و فخر کا لمحہ تھا ۔

بلاول بھٹو کے وزیر خارجہ بننے کے حوالے سے ان کی پارٹی میں اس نوع کی بحث ہوئی ہے کہ انہیں اس ذمہ داری پر آنا چاہئے یا آنے والے وقت میں ڈائریکٹ بڑی چھلانگ کا انتظار کرنا چاہئے؟

درویش کی رائے میں قدرت نے انہیں حکومتی تجربہ حاصل کرنے کا ایک نادر موقع عنایت فرمایا ہے جس میں انہیں اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت کچھ سیکھنا، دکھانا اور منوانا چاہئے تمام عالمی جمہوریتوں میں یہ چلن عام ہے کہ جو بھی شخصیت بڑی ذمہ داری پر فائز ہوتی ہے، اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ حکومتی تجربے میں وہ نیچے سے اوپر آئے ہمارے ہاں نہ جانے کیوں یہ اپروچ پائی جاتی ہے کہ ایک ہی چھلانگ میں وزارتِ عظمیٰ کی مسند پر براجمان ہو جایا جائے حالانکہ سیاسی قیادت کو تجربات کی بھٹی سے گزر کر آگے آنا چاہئے۔

بلاول بھٹو کو بحیثیت وزیر خارجہ پاکستان سب سے بڑھ کر جس چیز پرتوجہ مرکوز کرنا ہو گی، وہ موجودہ حالات میں پاکستان کی سفارتی تنہائی کو نہ صرف یہ کہ دور کرنا ہے بلکہ پاکستان کا ایک باوقار اور امن پسند ملک ہونے کا تاثر ابھارنا ہے، پاکستان کی خارجہ پالیسی کے جو موٹے موٹے اصول وزیر اعظم شہباز شریف نے حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں بیان کر دیئے تھے انہی کی مطابقت میں نہ صرف یہ کہ کاوشیں کرنا ہوں گی بلکہ ہماری عالمی پہچان پر سبکدوش کی گئی حکومت نے جو داغ دھبے لگا دیئے ہیں انہیں دھونے کا فوری اہتمام کرنا ہو گا۔

آج کی دنیا میں آزادی یا غلامی کی یہ تمام تر بحث ہی بے معنی ہے جس کا ہمارا ایک پریشر گروپ ان دنوں واویلا کر رہا ہے آج کی دنیا میں آزادی یا عزت ووقار معاشی ترقی و خوشحالی کے ساتھ منسلک ہے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی میں جہاں آپ کو امریکہ اور یورپی یونین سے تعلقات کو معاشی مفادات اور سائنس و ٹیکنالوجی میں معاونت تک مزید بڑھانا ہے وہاں چائنہ جیسے طاقتور ہمسائے سے قریبی تعلقات کا ایک قابلِ عمل و قابلِ قبول توازن بھی دکھانا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اپنی ہمسائیگی میں ابھرتی ہوئی معاشی طاقت انڈیا کے ساتھ تعلقات بالخصوص تجارتی و معاشی تعلقات کو باہمی تنازع یا تنائو کےساتھ جوڑنے سے احتراز کرنا ہے، اپنے اس حساس مشن میں آپ نے اپنے اندرونی طاقتور حلقے کی ترجیحات کو بھی حکمت کےساتھ لیکر آگے بڑھنا ہے جو خوش قسمتی سے ان دنوں حقائق شناسی کی طرف گامزن ہے۔ رہ گئے عوام تووہ یہ سچائی پلے باندھ لیں کہ انہیں اس حوالے سے کوئی ایشو نہیں ہے بلکہ ہر دو اطراف کے عوام دوستانہ آوازوں کیلئے ترس رہے ہیں ۔

اس طرح افغانستان کی موجودہ افسوسناک صورتحال سے دنیا کسی طرح بھی خوش نہیں، پاکستان اگر یکطرفہ طور پر اس نوع کے شادیانے بجا رہا ہے تو اس کی سیاسی قیادت پر لازم ہے کہ وہ طاقتوروں کےساتھ بیٹھ کر کسی نوع کی مہم جوئی پر اصرار کرنے کی بجائے پوری مہذب دنیا کیلئے قابل قبول لائحہ عمل تجویز کرے ۔بلاول بھٹو نے حال ہی میں جو طویل گفتگو کی ہے یہ ایک الگ کالم کی متقاضی ہے البتہ اس میں ان کی سنجیدگی اور سیاسی میچورٹی میں پہلے کی نسبت جو بہتری دکھائی دے رہی تھی امید کی جانی چاہئے کہ وہ آنے والے ماہ و سال میں اپنی والدہ مرحومہ کی طرح مزید آگےبڑھیں گے، جس کا فائدہ قوم کو ہوگا نیز یہ کہ حال ہی میں ہمارے دو خودپسند تعلی بازوں نے خارجہ تعلقات میں جو خودکش حملے کئے ہیں، پاکستان کی نئی قیادت ان کا مداوا کرےگی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین