• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان ایک طویل عرصے سے بدامنی کا شکار ہے، گزشتہ چند برسوں میں وہاں مسائل میں کمی دیکھی گئی مگر شدت پسندوں کی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں، یہ شدت پسند اور دہشت گرد کہاں سے اسلحہ بارود اور پیسہ لیتے ہیں؟ یہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ بھارت درحقیقت بلوچستان کو دہشت گردی کی آگ میں جلتا دیکھنا چاہتا ہے۔یقینی طور پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ہمارے دشمن ملک بھارت کی ایجنسی ’’را‘‘ کا ہاتھ ہے جس کے جاسوس دہشت گرد کلبھوشن کی جانب سے ثبوت بھی پیش کئے جاچکے ہیں۔ ’’را‘‘ نے بلوچستان میں بھی کلبھوشن کے ذریعے دہشت گردی کا نیٹ ورک پھیلایا جس میں افغان باشندوں کے علاوہ مقامی باشندوں کو بھی دہشت گردی کے لیے اپنا آلۂ کار بنایا جاتا رہا ہے۔ اس تناظر میں جامعہ کراچی میں ہونے والے خودکش حملے میں بھی بھارت کا ملوث ہونا بعیدازقیاس نہیں کیونکہ اس کی ذمہ داری بلوچستان کی اس تنظیم نے قبول کی ہے جس کی بھارت علانیہ فنڈنگ اور سرپرستی کررہا ہے۔ جامعہ کراچی میں ایک خاتون خودکش بمبار نے چند روز قبل چینی باشندوں کی وین کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجہ میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور اساتذہ سمیت تین چینی باشندے اور وین کا پاکستانی ڈرائیور شہید ہو گیا جب کہ خودکش حملے کا نشانہ بننے والی وین کو آگ لگ گئی اور کچھ ہی دیر بعد بلوچستان لبریشن آرمی کےمجیدبریگیڈ نامی گروپ نے اس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرلی اور کہا کہ خاتون فدائی شری بلوچ نے یہ دھماکہ کیا ہے۔ جامعہ کراچی کے اندر ہونیوالے اس خودکش حملے کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری ایک بلوچ آزادی پسند گروپ نے قبول کی ہے اور مبینہ طور پر جس خاتون نے چینی وین کو ٹارگٹ کرکے خود کو دھماکے سے اڑایا ہے‘ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور شادی شدہ تھی جس کے دو بچے ہیں جب کہ اس خاتون کا پورا خاندان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور مختلف سرکاری مناصب پر فائز ہے۔ اس تناظر میں یہ کہنا تو ہرگز قرین قیاس نہیں ہوگا کہ یہ خاتون کسی لالچ میں کسی دہشت گرد تنظیم یا گروپ کی آلۂ کار بنی ہوگی۔ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون جو بطور ٹیچر خدمات سرانجام دے رہی تھی‘ متذکرہ دہشت گرد تنظیم کے پاکستان کوکمزور کرنے کے مقاصد کے لیے استعمال ہوئی یا اس حملے میں اس کا کوئی عمل دخل ہے‘ اس کی تہہ تک پہنچنا انتہائی ضروری ہے،بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے زیادہ تر لاپتہ افراد کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور یہ معاملہ گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے چل رہا ہے۔لاپتہ افراد کا مسئلہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار میں بھی درپیش رہا ہے مگر اس کے حل کے لیے زبانی جمع خرچ کے سوا آج تک کوئی قابل عمل پیش نظر نہیں آئی۔ اسلام آباد میں اب جو نئی حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے، جس میں شامل اختر مینگل لاپتہ افراد کے بارے میں آواز اٹھاتے آئے ہیں، بلاول بھٹو زرداری نے بھی لاپتہ افراد کے حق میں آواز اٹھائی اور وزیر اعظم شہباز شریف بھی اس مسئلے پر سنجیدہ نظر آئے مگر جب جب بلوچستان کے مسئلے پر قومی قیادت آگے بڑھتی ہے اچانک بلوچ علیحدگی پسند کسی دہشت گردی کی کارروائی کا حصہ بن کر بلوچستان کے مسائل کے حل کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر دیتے ہیں۔ جامعہ کراچی دہشتگرد حملے میں سب سے زیادہ نقصان بلوچ طلبہ کا ہوگا، جنہیں اب اسکریننگ کے مختلف مراحل سے گزرنا ہوگاجب کہ بلوچ نوجوانوں کےلئے تعلیمی اداروں میں سیاست اور تعلیم کے دروازے ہمیشہ کے لئے نہیں تو مختصر وقت کے لئے بند کئے جا سکتے ہیں۔ جامعہ کراچی میںزیرِ تعلیم کئی بلوچ طالب علم شدید پریشانی میں مبتلا ہیں کہ کہیں ان کو بھی اس شبہ میں گرفتار نہ کرلیا جائے کہ ان کے ریاست مخالف تنظیموں کے ساتھ رابطے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ جیسے ہی اسلام آباد اور بلوچ سیاست دانوں میں با معنی بات چیت شروع ہونے لگتی ہے، کوئی نہ کوئی دھماکہ کردیا جاتا ہے تاکہ اس عمل کو روکا جا سکے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کا مسئلہ بلوچستان نہیں بلکہ ملک کے استحکام کو نقصان پہنچانا ہے۔ ایک ایسے موقع پر جامعہ کراچی میں خود کش حملہ کیا گیا اور ایک بلوچ خاتون کو استعمال کیا گیا جب بلوچستان کی قیادت اسلام آباد کو یہ باور کروارہی تھی کہ وہ حکومت کا حصہ تب ہی بنے گی جب لاپتہ افراد کا مسئلہ حل اور بلوچستان کے وسائل پر با معنی بات ہوگی لیکن اس خود کش حملے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ایسا لگتا ہے بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں یہ نہیں چاہتیں کہ بلوچستان کے مسائل حل ہوں، ورنہ ان کے رہنمائوں کے کروڑوں ڈالر کی فنڈنگ اور یورپ میں شاہانہ زندگی ختم ہو جائے گی، ان کا مسئلہ بلوچستان یا یہاں کے وسائل نہیں بلکہ یہ پاکستان مخالف ممالک کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔

تازہ ترین