• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت حاضر اور حکومت غائب، دونوں جلسہ جلسہ کھیل رہے ہیں جبکہ فی الوقت، ہنزہ میں گلیشیئر ایسے پھٹا ہے کہ راستے بند ہوگئے ہیں۔ دو شہر بھی اس کی زد میں آئے ہیں۔ حکومت حاضر کے ایک وزیر نے چیف سیکرٹری کو فون کرکے اپنی ذمہ داری پوری کی اور حکومت حاضر کی موسمیاتی وزیر کا ارشاد ابھی نہیں آیا۔ حکومت غائب نے اس حادثے کو باعث توجہ ہی نہیں جانا کہ وہ تو اگلےجلسے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ فی الوقت دونوں حکومتوں میں سے صرف بلاول میاں کو سندھ کی نہروں کے خشک ہونے کا احساس ہوا ہے۔ کمال بات یہ ہے کہ سندھ کے سربراہ کاشت کاروں کو چاول کاشت نہکرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ہم پہلے ہی آدھی سے زیادہ زرعی ضروریات درآمد سے پوری کرتے ہیں۔ ابھی معاشی بحران کی تفصیلات میں قابلِ توجہ یہ ہے کہ ہماری برآمدات کے مقابلے میں درآمدات 4گنا بڑھ گئی ہیں۔ کوئی موجودہ حکومت کی ایک ماہ کی کارکردگی کے حوالے سے یہ تو پوچھے کہ جن اشیاء کو ہم عیاشی گردانتے ہیں، کیا ان کی درآمد کو روکا نہیں جاسکتا۔ میکسیکو میں زرعی بحران سے نمٹنے کے لیے موجود فصلوں کو اگلے چھ مہینے کے لیے بھی اسٹور کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ہمارے یہاں ایسے احکامات قابل توجہ ہی نہیں سمجھے جاتے، جب ہی تو لیموں کی قیمت ایک ہزار روپے فی کلو ہے اور پیاز 120روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے۔ بھینسیں اور گوشت، دونوں چیزیں وافر تعداد میں افغانستان بھیجی اور اسمگل کی جارہی ہیں۔

حکومتِ حاضر کو معلوم ہے کہ بجٹ جون کے پہلے ہفتے میں پیش کیا جائے گا۔ وزارت خزانہ نے، مسودہ حکومت کو پیش بھی کردیا ہے اب اگر شعوری آگاہی کی ضرورت، حکومت محسوس کرے اور عوام کو نئے بجٹ کے دوران نئی مشکلات اور ان کے سدباب کے لیے قوم کو تیار کرے تو اس طرح قوم اور حکومت کے درمیان خلیج کو پاٹا جاسکتا ہے۔ پر اکیلے وزیر اعظم کو اتنے اچھے شعر یاد ہیں کہ وہ درپیش مسائل پر قوم کو اعتماد میں لینے کی بجائے وہی وعدہ گیری کہ ہم یہ بنا دیں گے، ہم وہ کردیں گے، چاہے تن کے کپڑے ہی کیوں نہ بیچنے پڑیں۔ اُدھر نیب برسوں پہ پھیلی کہانی ختم ہی نہیں کر رہا۔ نئے مقدمات بناتے ڈر رہے ہیں۔

سچ پوچھیں تو موجودہ حکومت نے اس ایک ماہ میں کیا نکالا! ایک عورت کا قصہ! ان سے تو زیادہ ہمت والا وہ نابکار نکلا کہ جس نے تیسری شادی کو چار ماہ میں عدالت تک پہنچا دیا۔ نئی بات جو موجودہ حکومت کررہی ہے۔ وہ آٹے کی قیمت کے حوالے سے، جو کہنے میں دو روپے کی روٹی والا فکاہیہ ہی معلوم ہوتی ہے۔ اب تک احکامات دینے والی قوتوں کے ساتھ ایسی مفاہمت اور انڈر اسٹینڈنگ نہیں ہوئی جو عوام میں مقبولیت حاصل کرتی۔ عام آدمی کی اس ملک میں اتنی تھوڑی ضروریات ہیں کہ دو وقت کی روٹی، پانی اور بجلی میسر ہوتو سرکار کو دعائیں دے۔ آج کل کے وزیر اعظم، نہ پہلے والے نہ اب والے، اپنی اہلیہ کو ہی کام پہ لگا دیتے کہ کم از کم خواتین کی بھلائی کے منصوبے بناتیں۔ بیگم بھٹو اور بیگم لیاقت علی خان کی مثال سامنے ہے۔ کلثوم بی بی نے بھی جب ان کے شوہر پہ وقت پڑا تو کیسی استقامت دکھائی تھی۔ جبکہ اباجی نے بہت پاپندیاں لگائی تھیں۔ اس نے پابندیاں بھی خوش اسلوبی سے نبھائیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے حکومت غائب میڈیا اور اس کے اداروں کے ساتھ کیا کرتی رہی اور اب حکومت موجود کس رنگ میں ہے۔ گزشتہ پونے چار سال شہزاد اکبر کی ہر روز پریس کانفرنسیں اور پھر فواد چوہدری کا ہر روز ایک نئے ساتھی کے ساتھ وہ گفتگو جسے آپ اظہارِ رائے یا غلط بیانی کچھ بھی سمجھیں، پھر سارے میڈیا پر ہونق بنے اینکر جب کبھی اعتراض یا مخالفت کرتے، پھر صلاح کار، ان کی ٹیلیفون اور تحریر میں کھنچائی کرتے، آخر کو بی بی سی لگاتے کہ شاید وہاں کوئی خبر ہو مگر وہاں 76دن سے یوکرین کے جنگ زدہ علاقوں کے سوا، کوئی خبر نہیں تھی۔ وزارتِ اطلاعات میں صرف پی ٹی وی نہیں تھا۔ ریڈیو پاکستان کو تو اپنی ستر سالہ سنہری تاریخ کے ساتھ دفن کردیا گیا تھا۔ پھر ایک مطبوعات کا ادارہ تھا، جس میں اردو اور انگریزی کے جریدے شائع ہوتے تھے۔ اس میں ماہ نو اور پاکستان پکٹوریل بھی انگریزی میں شائع ہوتا تھا۔ علاوہ ازیں فلم کا پورا سیکشن تھا، جس میں دستاویزی اور سنجیدہ فلمیں جیسے غالب اور علامہ اقبال کے بارے میں، بہت اچھی فلمیں بنی تھیں۔ یہ سب یاد کرنے کے بعد، واپس آج کے حالات پر آجائیں۔ اب صرف ٹی وی ہی نظر آتا تھا اور اس میں اپنی پسند کی شخصیات اینکر سے لے کر تبصرہ کرنے والے۔ بیشتر ریٹائرڈ افسران ہوتے یا پھر وزارت خارجہ کے بڈھے افسران، کسی کو کبھی اختلاف کرنے کی جرات نہیں تھی۔ اب کچھ چہرے بدلے ہیں۔ مگر وہی زندہ باد، مردہ باد صدائوں کے ہیروز بدل گئے ہیں۔ پی ٹی آئی میں بڑی دبنگ خواتین ہیں۔ اینکر بے چارہ سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ یہ بریک لگائیں تو بات کو آگے بڑھائوں۔ ویسے مشرف اور عاصم باجوہ کے زمانے سے ہی ISPRنے بہت اہمیت اختیار کرلی تھی۔ فلمیں، نغمے، قومی دنوں کے پروگرام سب ان کی پروڈکشن تھے۔اب ذرا معاشی صورتِ حال کا جائزہ لیں۔ کوئی بھی ادارہ، ملک یا بزنس مین، ملک میں بحرانی کیفیت ہوتو، آگے بڑھ کر سرمایہ لگانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس لیے سعودیہ اور ابوظہبی نے ملاقات بھی کی اور وعدے بھی کئے مگر ابھی وعدوں پر جینے کی فضا ہے۔ وہ بھی روز لفظ سازش سن کر، تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں۔ البتہ آئی ایم ایف کے وفد کا بے چینی سے انتظار ہورہا ہے۔

کرنا کیا ہے:’’امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے‘‘۔ ہم جو گزشتہ برس تک روس کا نام سننے کے سرکاری طور پر روادار نہیں تھے روس کی فیاضی کے گن گا رہے ہیں۔ حکومت موجود، ابھی تک وزارتوں کی چھان پھٹک میں مصروف ہے۔ سی پیک کو یاد کررہی ہے کہ چار سال کے شکوک کیسے دور کریں۔ انڈیا جس طرح کشمیر میں بندر بانٹ کر رہا ہے ا سکی جانب، دنیا کی توجہ مبذول کریں۔ افغانستان میں داعش کے ہر جمعہ کو مسجدوں میں حملوں کو رکوانے کے لیے لائحہ عمل بنائیں۔ صرف دفتروں کی ٹائمنگ بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ تربیلہ ڈیم اور پانی کے ذخائر کو سنبھالنا ہوگا۔ یہ سب باتیں ریفارمز کے زمرے میں آتی ہیں۔ سارے ملک میں نفرتوں کو ختم کرنے کی نفسیاتی تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین