پاکستان میں ریاستی سرپرستی میں چلنے والے کاروباری اداروں میں توانائی پیدا کرنے اور تقسیم کرنے والے شعبے کے علاوہ ہوابازی اور ریلوے نمایاں ہیں۔2019 ء کے مالی سال کے دوران سرکاری سرپرستی میں چلنے والے کاروباری اداروں سے حاصل ہونے والے محصولات کا حجم تقریباً 4 ٹریلین روپے تھاجب کہ ان کے اثاثوں کی مالیاتی قدر 21 ٹریلین روپے تھی (اس میں مالیاتی اداروں کے غیر مالیاتی 16 ٹریلین روپے کے اثاثے شامل نہیں)۔ توانائی کے شعبے سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں کے اثاثے 7.8ٹریلین روپے تھے۔ انفراسٹرکچر کی مالیت 5.3ٹریلین جب کہ تیل اور گیس کے اثاثے 2.6ٹریلین روپے تھے۔ ان سے حاصل کردہ محصولات جی ڈی پی کا دس فیصد تھا۔ مزید یہ کہ سرکاری سرپرستی میں چلنے والے کاروباری ادارے 450,000 افراد کو روزگار فراہم کرتے ہیں۔ یہ تعداد افرادی قوت کا 0.8 فیصد ہے۔ اہم اشیا اور سروسز کی فراہمی کے باوجود ان اداروں کی مالیاتی کارکردگی غیر تسلی بخش رہی ہے۔
مالی سال 2019 ء میں ریاستی سرپرستی میں چلنے والے اداروں کو مجموعی طور پر 143 ارب روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑاجو اس سے پہلے، 2018 ء کے مالی سال میں ہونے والے خسارے (287 ارب روپے) سے بہت کم تھا۔ ان اداروں کی کارکردگی میں بہتری وفاقی حکومت کی پالیسیوں کے علاوہ تیل اور گیس کی مارکیٹ میں یک لخت اضافے سے آئی۔ اس کے علاوہ توانائی کے شعبے کی فعالیت میں بہتری کے بھی خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے۔ مالی سال 2019 ء کے دوران حکومت کی طرف سے انہیں ایک ٹریلین روپے کی سپورٹ فراہم کی گئی جس میں ضمانتیں، غیر ملکی و گھریلو قرضے، ایکویٹی سرمایہ کاری اور سبسڈی شامل تھیں۔ 16 ٹریلین روپے کے اثاثوں کی بنیاد پر حاصل کردہ منافع محض 60 ارب روپے تھا۔ مجموعی نقصانات کا فرق (خالص منافع مائنس خالص نقصان) دلچسپ ادارہ جاتی نمونے کو ظاہر کرتا ہے۔ تیل اور گیس کی کمپنیوں نے 242 ارب روپے کا خالص منافع ظاہر کیا جبکہ انفراسٹرکچر کمپنیوں (پی آئی اے، ریلوے، این ایچ اے، پوسٹ آفس وغیرہ) کو 267 ارب روپے اور پاور کمپنیوںکو 117 ارب روپے کا خالص نقصان ہوا۔ باقی تمام پانچ شعبہ جاتی کمپنیوں کو زیادہ فرق نہیں پڑا۔
وقت کے ساتھ ساتھ ان کمرشل اداروں کی شعبہ جاتی مالی کارکردگی میں کمی کا خدشہ اس حقیقت سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2013-14 کے دوران انہوں نے مجموعی طور پر 204 ارب روپے کا خالص ریکارڈ منافع حاصل کیا۔ اگلے سال یہ منافع کم ہوکر 61 بلین رہ گیا۔اس کے بعد مزید کم ہوکر اوسط نقصان تک پہنچ گیا۔ مالی سال2015-16کے بعد ریاستی سرپرستی میں چلنے والے کمرشل ادارے مسلسل بھاری خسارے کا سامنا کررہے ہیں۔ اس نے حکومت پاکستان کی اقتصادیات کو مزید زیر بار کیا ہے۔ پیش نظر سوال کہ کیا حکومت کو کاروباری سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں، کے دو بنیادی پہلو ہیں: (a) کیا معاشی سرگرمیاں حکومت کے پبلک پالیسی فریم ورک کے دائرہ کار آتی ہیں؟(b) کیا یہ معاشی سرگرمیاں نجی شعبہ سرانجام دے سکتا ہے ؟ان سوالات کو سامنے رکھتے ہوئے عالمی بینک کی تکنیکی مدد سے ایک مناسب تجزیاتی فریم ورک پر مختصربحث کی گئی ہے۔
پبلک پالیسی فریم ورک سے مراد حکومت پاکستان کی مجموعی اقتصادی ترقی کی ترجیحات ہیں۔ یہ ترجیحات متعدد پالیسی دستاویزات میں ظاہر ہوتی ہیں جن میں پالیسی کے اصول (آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شق 3) اور شعبہ جاتی پالیسیاں جیسے زرعی پالیسی، صنعتی پالیسی، تجارتی پالیسی فریم ورک وغیرہ شامل ہیں۔ پالیسی کے نفاذ کے لیے سیٹ اپ بھی پبلک پالیسی فریم ورک کا حصہہے۔ان کمرشل اداروں کوبرقرار رکھنے یا ان کی نج کاری کرنے کے لیے ان کے انتخاب میں پبلک پالیسی فریم ورک کا اطلاق ہوگا۔ ہمارے تجزیاتی فریم ورک میں دوسرا سوال اس تشخیص سے متعلق ہے کہ کیا کوئی اقتصادی کام نجی شعبے کے ذریعے کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس کے مطابق سرکاری کمرشل اداروں کاانفرادی طور پر اس کی سرگرمیوں اور افعال کے لحاظ سے جائزہ لیا گیا تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ آیا یہ کام موجودہ مارکیٹ کے ڈھانچے کی بنیاد پر نجی شعبے کے ذریعے انجام دیا جا سکتا ہے،سرکاری کمرشل اداروں کی درجہ بندی کے حوالے سے ان کی حالیہ کارکردگی کو مدنظر رکھا گیا تاکہ انہیں مالی طور پر قابلِ عمل اور مالی طور پر دباؤ والے اداروں میں تقسیم کیا جا سکے۔ مالی قابلِ عمل تجزیے کی مختصر وضاحت ذیل میں دی گئی ہے۔
مالیاتی عملداری سے مراد آپریٹنگ اخراجات، قرض کے وعدوں اور جہاں قابلِ اطلاق ہو، مطلوبہ خدمات کی سطح کو برقرار رکھتے ہوئے ترقی حاصل کرنے کے لیے اپنے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دینے کے لیے ایک مناسب آمدنی پیدا کرنے کی تنظیم کی صلاحیت ہے۔ مالیاتی عملداری کا اندازہ مختلف اقدامات کے ذریعے کیا جاتا ہے جو سرکاری کمرشل اداروں کے کمائے گئے منافع، نقد بہاؤ اور اس کے تسلسل کا جائزہ لیتے ہیں۔ مندرجہ بالا باتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان اداروں کی اقتصادی جانچ مندرجہ ذیل عوامل پر مشتمل ہے:
1۔ منفی شیئر ہولڈرز کی ایکویٹی: کوئی بھی ادارہ جس کی پچھلے تین برسوں سے منفی ایکویٹی ہے اسے مالی طور پر تناؤ کا شکار سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کی بیلنس شیٹ بینک کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے اور اس وجہ سے یہ جی او پی گارنٹی کے تحت کمرشل بینکوں سے مالی اعانت حاصل کرنے یا بجٹ سے براہ راست مدد پر منحصر ہے۔2۔ مسلسل نقصانات: کسی بھی ادارے کو گزشتہ تین برسوں کے دوران نقصانات کا سامنا کرنا پڑے تو اسے بھی مالی طور پر دباؤ کی درجہ بندی میں شامل کیا جاتا ہے کیونکہ نقصانات کا بوجھ حکومت پاکستان کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ 3۔ اثاثوں کی واپسی: کسی کمپنی کی مالی فعالیت کا اندازہ لگانے کے لیے ایک اہم اقدام اس کی ایکویٹی پر ریٹرن ہے۔ تاہم، اگر شیئر ہولڈر کی ایکویٹی منفی ہے، تو اثاثوں کی واپسی وہ پیمانہ ہے جو بتاتا ہے کہ انتظامیہ آمدنی پیدا کرنے کے لیے کمپنی کے اثاثوں کو کتنی اچھی طرح سے استعمال کر رہی ہے۔