سندھ میں اردو سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قدیم دور میں بھی سندھ میں اردوکا بہرحال کچھ نہ کچھ رواج تھا۔
واقعہ یہ ہے کہ محمد بن تغلق نے ۷۵۲ ہجری (۱۳۵۱ء ) میں ٹھٹھہ (سندھ )پر لشکر کشی کی اور ٹھٹھہ فتح کرنے سے قبل ہی ٹھٹھے کے قریب راستے میں اس کا انتقال ہوگیا۔ اس کے جانشین فیروز شاہ تغلق نے ۷۶۶ہجری میں ٹھٹھہ فتح کرنے کا ارادہ کیا اور ٹھٹھے پر چڑھائی کی ۔ لیکن یہ مہم بھی ناکام رہی اور اسے واپس لوٹنا پڑا ۔ اس پرمقامی صوفی بزرگ حضرت پیر پٹھا کے معتقدین نے اسے اپنے مرشد کی برکت قرار دیا اوراردو کا یہ جملہ مشہور ہوگیا کہ ’’برکت ِ شیخ پٹھا ، اک موا اک نٹھا ‘‘ یعنی شیخ پٹھا کی برکت سے ایک (محمد بن تغلق)مرگیا اور دوسرا(فیروز شاہ تغلق) بھاگ گیا۔
اس کا ذکر اعجاز الحق قدوسی نے تاریخ ِ سندھ کی پہلی جلد میں کیا ہے۔ قدوسی صاحب نے تاریخ ِ سند ھ کی دوسری جلد میں پیر پٹھا سے متعلق لکھا ہے کہ شیخ المشائخ شیخ پٹھا سندھ کے عوام میں شیخ پٹھو کے نام سے معروف ہیں۔ ان کا نام حسن بن راجبار تھا اور وہ حضرت شیخ بہا ء الدین زکریا ملتانی کے مرید تھے ۔ ۶۶۶ہجری ؍ ۶۸۔۱۲۶۷ ء میں وفات پائی۔ ٹھٹھے کے قریب واقع ان کا مزار آج بھی مرجع ِ خلائق ہے۔
یہ فقرہ (برکت ِ شیخ پٹھا، اک موا اک نٹھا) ذرا ذرا سے فرق کے ساتھ اردو کے متعدد محققین کے ہاں ملتا ہے اور وہ اسے پیش کرکے اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ سندھ میں چودھویں صدی عیسوی میں اردو جڑیں پکڑ چکی تھی اور وسیع پیمانے پر بولی جاتی تھی۔ یا اس سے کم از کم یہ نتیجہ تو نکالا جاسکتا ہے کہ اردو یا اس سے ملتی جلتی زبان بہرحال سندھ میں رائج رہی ہے۔
کچھ محققین مثلاً سید سلیمان ندوی اور حسام الدین راشدی نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ اردو سندھ میں پیدا ہوئی تھی۔ اگرچہ اردو کی سندھ میں پیدائش کے نظریے سے اکثر ماہرین ِ لسانیات متفق نہیں ہیں اور اردو غالباً سندھ میں پیدا نہیں ہوئی لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ اردو ادب میں سندھ کا حصہ خاصا قدیم ہے اور عام لوگ شاید اس پر یقین نہ کریں کہ سندھ میں اردو ادب کی تخلیق کا آغاز صدیوں پہلے ہوگیا تھا۔
معروف محقق اور ماہر ِ لسانیات ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے اپنی کتاب ’’سندھ میں اردو شاعری‘‘ میں ایسے ایک سو اکہتر (۱۷۱) شعرا کے نام اور ان کے اردو کلا م کا نمونہ دیا ہے جن کا تعلق سندھ سے تھا اور وہ صدیوں پہلے اردو میں شاعری کرتے تھے۔ سندھ کے ان اردو شعرا میں مغل دور سے لے کر کلھوڑا ، تالپور اور انگریز دور تک کے شعرا شامل ہیں۔ سچل سرمست جیسے عظیم سندھی شاعر نے اردو میں بھی شاعری کی۔
۱۹۴۷ء میں قیام ِ پاکستان کے بعد اردو کو سندھ میں ایک نیا وطن اور نئی جائے پناہ مل گئی اور اس کے بعد اردو نے یہاں مزید ترقی بھی کی لیکن یہ حقیقت ہے کہ سندھ اردو کے لیے اور اردو سندھ کے لیے اجنبی نہیں تھے اور ان کا تعلق صدیوں سے قائم تھا۔ سندھ سے اردو کے اخبار اور رسائل قیام ِ پاکستان سے بہت پہلے سے شائع ہورہے تھے ، مثال کے طور پر۱۸۵۶ء میں کراچی سے ایک فارسی اخبار جاری کیا گیا تھا جس کانام ـ’’ مفرح القلوب ‘‘ تھا لیکن اس فارسی اخبار میں اردو میں بھی مضامین اور منظومات شائع ہوتی تھیں۔ معروف فرانسیسی مستشرق گارسیں دِتاسی نے بھی اپنے خطبات میں اس اخبار اور اس کے مشمولات کا ذکر کیا ہے۔
انیسویں صدی کے نصف ِ آخر اور بیسویں صدی کے نصف ِ اول میں بھی سندھ کے مختلف شہروں سے اردو کے روزنامے نیز پندرہ روزہ اور ماہانہ رسائل جاری کیے گئے ۔ بخوفِ طوالت ان سب کے نام یہاں دینا ممکن نہیں ہے لیکن اردو صحافت کی تاریخ میں ان سب کا ذکر موجود ہے۔
سندھ کے بعض ادیب انیسویں صدی کے اواخر میں بھی اردو میں تحقیقی و تخلیقی کام کررہے تھے اور ان کی اشاعت بھی ہوتی رہی ہے ۔ مثال کے طور پر سندھی کے معروف اور بے مثال ادیب اور عالم مرزا قلیچ بیگ کی اردو کتاب ــ’’مخزن القوافی ‘‘ ۱۸۹۸ء میں جیکب آباد سے شائع ہوئی تھی (اس کا ایک نسخہ خوش قسمتی سے راقم کو کراچی کی غاب لائبریری میں دست یاب ہوگیا)۔
انجمن ترقی ِ اردو( ہند) نے ۱۹۱۴ء میں کراچی میں اپنی ایک شاخ قائم کردی جس سے کراچی میں اردو مشاعروں کو مزید مقبولیت حاصل ہوئی ۔ان مشاعروں میں شرکت کرنے والے شعرا کی ایک طویل فہرست ہے ، لیکن نام شماری مطلوب نہیں ہے بلکہ صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ اردو سندھ میں آزادی سے بہت پہلے تخلیق ، تنقید ، تحقیق اورصحافت کی زبان تھی حالانکہ اردو سندھ کی مقامی یا مادری زبان نہیں تھی۔ اگرچہ آزادی کے بعد اسے اور جلا ملی اوربابائے اردو مولوی عبدالحق نے قیام ِ پاکستان کے بعد انجمن کو کراچی منتقل کیا اور اس کا نام انجمن ترقی ِ اردو پاکستان رکھا گیا جس کی اپنی ایک تاریخ ہے۔
آزادی کے بعد سندھ میں اردو کی ترقی کا ایک زرّیں دور شروع ہوا۔ نہ صرف یہ کہ یہاں سے اردو کے اخبارات، جرائد اور کتب کی طباعت و اشاعت کی مقدار اور تعداد میں بہت بڑا اضافہ ہوگیا بلکہ اہلِ قلم اور اہلِ علم کی بہت بڑی تعداد ہندوستان سے ہجرت کرکے سند ھ میں اور بالخصوص کراچی ، حیدرآباد اور بعض دیگر شہروں میں آباد ہوگئی ۔ کراچی اردو ادب و صحافت کاقابلِ رشک مرکز بن گیا۔ البتہ یہاں حسام الدین راشدی صاحب کا ناقابل ِ فراموش جملہ بھی لکھنا ضروری ہے کہ کراچی ادب اور تہذیب کا مرکز تو بن گیا لیکن ہندوستان کے کتنے ہی ادبی اور تہذیبی مراکز کی تباہی کے بعد کراچی کو شرف حاصل ہوا۔
راشدی صاحب نے اپنے ایک مضمون میں بڑی درد مندی سے اس دور کی تصویر کشی کی ہے جب کراچی کی سڑکوں پر بڑے بڑے عالم ، ادیب اور شاعر روزگار کے لیے سرگرداں پھرتے تھے اور جن لوگوں نے کبھی بہت اچھے دن دیکھے تھے انھیں اس نئی مملکت اور نئے شہر کو آباد کرنے کے لیے کیسی کیسی قربانیاں دینی پڑیں۔ وہ نہ صرف اپنا گھر بار، کاروبار، بلکہ تہذیبی، ثقافتی اور لسانی اثاثہ بھی چھوڑ آئے تھے۔ اگرچہ اہل سندھ نے ان کا استقبال کھلے دل اور کھلی باہوں سے کیا لیکن اپنے پُرکھوں کی قبریں اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کسی بھی دوسرے ملک میں بسنا کبھی بھی اور کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا۔
راشدی صاحب کا یہ کہنا کہ ہندوستان میں کتنے ہی ادبی ،علمی اور تہذیبی مراکز تباہ ہوئے تو سندھ کا شہر کراچی ادبی و علمی مرکز بنا ،ان کے ذاتی تجربات پر مبنی تھا۔ خود راشدی صاحب سے ایسے کتنے ہی لوگوں کی ملاقات ہوئی جو ہندوستان میں نامورادیب ، شاعر، عالم اور صحافی تھے اور کراچی میں معمولی کام کاج کے لیے بھی پریشان تھے۔ مثلاً انھوں نے کراچی میں ساقی (دہلی) کے نامور مدیر اور براڈ کاسٹرشاہد احمد دہلوی کو جد وجہد کرتے دیکھا۔ انھیں ایک دن کراچی میں سڑک پر ایک صاحب گلے میں تختہ سا لٹکائے پان سگریٹ بیڑی بیچتے ملے۔
جب تعارف ہوا توراشدی صاحب حیران رہ گئے کیونکہ وہ معروف ادیب سید یوسف بخاری دہلوی تھے جو دہلی کی جامع مسجد کے امام کے بھتیجے بھی تھے۔ راشدی صاحب انھیں اپنے گھر لے گئے اور انھیں اپنے کتب خانے میں موجود بخاری صاحب کی کتاب ’’یہ دلّی ہے‘‘ دِکھائی ۔ پھر انھیں تسلی دی کہ حالات ضرور بدلیں گے اورآپ کو کوئی علمی ادبی کام مل جائے گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔آج کراچی کی بلند و بالا عمارات اور چمکتی دمکتی دکانیں دیکھ کر ہم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ اس دور کا کراچی کیسا تھا اور لوگوں نے کیسے کٹھن حالات میں محنت اور جد وجہد کرکے اس شہر اور اپنے لیے جوئے شیر بہائی۔
سندھ کے ایک اور معروف عالم اور محقق علامہ آئی آئی قاضی سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ انھوں نے اردو کے جید عالم اور محقق حضرت ڈاکٹر غلام مصطفی خاں صاحب سے درخواست کی کہ آپ حیدرآباد تشریف لائیے اور سندھ یونیورسٹی کے شعبہ ٔاردو میں بطور پروفیسر اور صدرِ شعبہ ذمے داریاں سنبھالیے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ دعوت قبول کی اور سندھ میں اردو کی ترقی کا ایک اور باب کھلا۔ جامعہ ٔ سندھ کے شعبہ ٔ اردو میں ڈاکٹر صاحب نے اور بعد ازاں ان کے شاگردوں نے اردو کی ترقی اور ترویج کے لیے مثالی کام کیے اور آج بھی اس شعبے سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ اردو کی تدریس و تحقیق میں مصروف ہیں۔
ریڈیو پاکستان کے کراچی، حیدرآباد اورسندھ میں واقع دیگر اسٹیشنوں نے اپنے اردو پروگراموں کے ذریعے اس دور میں اردو کا پرچم بلند کیا جب ٹی وی کا کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا۔ بعد ازاں پی ٹی وی کے کراچی مرکز نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو نیز شاہ عبداللطیف یونیورسٹی (خیر پور)کے شعبۂ اردو نے بھی سندھ میں اردو کے فروغ اور ترویج کے لیے مثالی کام کیے ہیں۔ لیکن یہ قصہ تو بہت طویل ہے اور یہ سفر ابھی جاری ہے۔