• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رمضان المبارک کے آخری دنوں میں عید منانے کیلئے لاہور سے ملتان روانہ ہوا تو موٹر وے پر ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ ہم ملتان کیلئے سحری کے بعد گھر سے نکلے تھے، صبح کے تقریباً ساڑھے چھ بجے پیر محل انٹرچینج کے قریب پہنچے تو ہماری کار کو موٹر وے پولیس نے روک لیا۔ میں گاڑی سے اترا تو ایک پولیس اہلکار نے خوش آمدید کہا۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے پوچھا کہ کہاں سے آ رہا ہوں اور کہاں جا رہا ہوں؟ جب انہیں سفر کے مقامِ آغاز اور منزل کے بارے میں پتہ چلا تو بولے ’’جناب! مجھے لگتا ہے کہ آپ سحری کے بعد سوئے نہیں، نیند آپ کی آنکھوں سے ٹپک رہی ہے، یہ لیجئے! اپنے منہ پر تازہ پانی کے چھینٹے مار لیجئے تاکہ آپ تازہ دم ہو کر گاڑی چلا سکیں‘‘۔ یہ کہتے ہی انہوں نے ہاتھ میں تھامی ہوئی بوتل کا منہ کھولا اور میری اوک پانی سے بھر دی، منہ پر پانی کے چھینٹے مارتے ہوئے میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اس اہلکار کو کس طرح پتا چلا کہ اس وقت مجھ پر غنودگی طاری ہے اور مجھے گاڑی چلانے میں دشواری ہو رہی ہے۔ بہرحال اس اہلکار کے تجربے اور نیت کی دل ہی دل میں داد دی لیکن اس کی فرض شناسی کی تعریف کھلے الفاظ میں کی، یہ نیکی اس اہلکار نے ایک اجنبی کے ساتھ کی تھی لیکن جب اس کے کہنے پر میں نے باتوں باتوں میں اپنا تعارف کرادیا تو اس کی محبت اور احترام میں مزید اضافہ ہو گیا۔ موٹر وے پولیس کا یہ چہرہ میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ برصغیر کا کلچر یہ ہے کہ نمک کی کان میں جانے والا ہر شخص رفتہ رفتہ نمک ہو جاتا ہے لیکن موٹر وے پولیس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید نکھر رہی ہے، نمک کی کان نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا۔

عید پر عزیزواقارب اور دوست احباب سے گلے ملنا ہماری وہ روایت ہے جسے کورونا جیسی موذی وبا بھی ختم نہ کر سکی۔ کچھ لوگ عید کی نماز کے فوراً بعد گلے ملے، کچھ بہت سے دوسرے دوستوں سے ملنے کے بعد ملنے آئے۔

نئے ملبوس کی شکنوں سے پتا چلتا ہے

عید کتنوں سے وہ مل آیا ہے مجھ سے پہلے

اس بار عید کی فرصت نے ایک نیا منظر دکھایا۔ میرا ایک بھانجا پچھلے ایک ماہ سے ملتان سے تقریباً پچاس کلو میٹر دور مظفر گڑھ کے لق ودق صحرا میں قائم طیب اردگان اسپتال کے ایک وارڈ میں داخل ہے۔ اس کے دونوں پھیپھڑوں میں سوراخ ہیں۔ اس کی عیادت کے لیے گیا تو دل مغموم بھی ہوا اور خوش بھی۔ مغموم اس لیے ہوا کہ زندگی سے بھرپور ایک جوانِ رعنا، عید کے دن بھی اپنوں سے دور، بیماری سے لڑ رہا تھا، خوش اس لیے ہوا کہ جنوبی پنجاب کے ایک انتہائی پسماندہ ضلع میں ایک نہایت شاندار اسپتال علاقے کے غریب عوام کے لیے ہر وقت کھلا ہے۔ اس اسپتال کا سنگِ بنیاد آج کے وزیراعظم اور ماضی کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے رکھا تھا، سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب میں ترکی کے وزیراعظم طیب اردگان نے آن لائن شرکت کی تھی۔ یہ اسپتال قائم کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے بھی مالی تعاون کیا تھا لیکن بیشتر وسائل ترکی کی حکومت نے فراہم کیے تھے۔ سرخ اینٹوں سے بنا ہوا یہ اسپتال صحرا میں نخلستان کی طرح اطمینان بخش ہے۔ عملہ انتہائی شائستہ، مستعد اور فرض شناس ہے۔ مریض کو ہر دوا مفت ملتی ہے، ٹیسٹ تک اسپتال کے اندر ہی مفت ہوتے ہیں حتیٰ کہ مریضوں کو پرہیزی کھانا بھی دیا جاتا ہے۔ اسپتال کا سارا عملہ صلہ و ستائش کی تمنا کے بغیر کام کرتا ہے۔ عید کے دن بھی آدھے سے زیادہ ضروری عملہ ڈیوٹی پر موجود تھا۔ پہلے میں سوچتا رہا کہ یہ اسپتال شہر سے بہت دور بنایا گیا ہے لیکن غور کیا تو پتا چلا کہ شہر سے دور ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ یہاں صرف وہی مریض لائے جاتے ہیں جنہیں واقعتاً اسپتال میں علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھوٹے موٹے امراض میں مبتلا لوگ شہر ہی میں نجی اور سرکاری اسپتالوں میں علاج کرا لیتے ہیں۔ ہمارے لاہور کے گنجان علاقوں میں قائم اسپتال شاید اسی لیے ہر وقت مریضوں سے بھرے رہتے ہیں کہ یہاں کسی کے پیٹ میں بھی درد ہو تو وہ اسپتال کا رخ کرتا ہے، اپنے بیمار بھانجے اور اس خوبصورت اسپتال کو دیکھ کر میر درد کا یہ شعر یاد آیا؎

دلِ صد چاک ہے گُل خنداں

شادی وغم جہاں میں تو ام ہیں

عید کے اگلے دن ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل جناب خورشید احمد ملک نے ایک عید ملن تقریب رکھ لی جس میں جنوبی پنجاب کے مقبول ترین صداکار قیصر نقوی، سرائیکی اور سندھی ثقافت سے عشق کرنے والے ادیب رفعت عباس اور ممتاز قانون دان منور خورشید صدیقی کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے دوستوں سے بھی ملاقات ہو گئی۔ خورشید ملک ملتان کے شاعر ارشد ملتانی کے اس شعر کی مکمل تصویر ہیں۔

ڈھونڈے سے بھی جہان میں ارشد نہ پائو گے

خوئے وفا ومہر جو ملتانیوں میں ہے

عید سے ایک دن پہلے ملتان کے بزرگ ادیب، مترجم اور نفسیات کے ماہر پروفیسر خالد سعید کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ ملتان کے سارے پڑھے لکھے لوگ یہاں موجود تھے اس عید پر میرے دل کی جو کیفیت تھی وہ پروین شاکر نے یوں بیان کی ہے۔

دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی

تازہ ترین