موسمیاتی تبدیلی بلا شبہ سب سے بڑا عالمی خطرہ بن چکی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی رفتار کو کم کرنا یا روکنا ہم سب کی ذمہ داری ہے لیکن اس کا زیادہ حصہ ان لوگوں پرجانا چاہیے، جو عالمی سطح پر کاربن اخراج کے زیادہ ذمہ دار ہیں، جیسے کہ تعمیرات کا شعبہ، جو توانائی سے متعلق مجموعی عالمی کاربن اخراج میں 37فی صد کا ذمہ دار ہے۔
شعبہ تعمیرات کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہمارے ماحولیات کو محفوظ بنانے اور عالمی درجہ حرارت کو 1.5ڈگری سیلسیس سے زیادہ بڑھنے سے روکنے کے لیے پائیدار طریقہ کار اختیار کرے۔ اس شعبہ کے لیے یہ بات اس لیے بھی ضروری ہوجاتی ہے کہ 2030ء تک عالمی تعمیرات میں 42فی صد نمو کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شعبہ تعمیرات تین طرح کے طریقہ کار اختیار کرکے خود کو زیادہ لچکدار بناسکتا، ماحولیات کو تحفظ فراہم کرسکتا اور پائیدار مستقبل تعمیر کرسکتا ہے۔
عالمی درجہ حرارت
اس وقت عالمی کاربن اخراج میں شعبہ تعمیرات کا حصہ قابلِ ذکر حد تک بہت زیادہ ہے۔ تاہم، اگر تفصیلات میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ، نئی عمارتوں کی تعمیر کے بجائے، زیادہ اخراج موجودہ عمارتوں کو استعمال کرنے اور انھیں قابلِ استعمال رکھنے کے باعث ہوتا ہے۔ تاہم، اس حوالے سے اب کچھ بہتری دیکھی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال سبز عمارتوں کی سرٹیفیکیشن میں 13.9فی صد اضافہ دیکھا گیا۔
ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق، عالمی سطح پر تعمیراتی کمپنیاں بھی سبز تعمیرات میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی ظاہر کررہی ہیں۔ اندازہ ہے کہ صرف اُبھرتی ہوئی منڈیوں میں 2030ء تک سبز عمارتیں 24.7ٹریلین ڈالر سرمایہ کاری کا موقع فراہم کریں گی۔ ماہرین کے مطابق، شعبہ تعمیرات کا مستقبل اس بات میں پوشیدہ نہیں کہ اسے کس طرح کم لاگت بنایا جاسکتا ہے بلکہ اس کا مستقبل ماحول دوست اور پائیدار تعمیرات کے فروغ میں ہے۔
ایک اور اہم چیلنج، شعبہ تعمیرات میں استعمال ہونے والے مواد سے کاربن کا اخراج ہے۔ کاربن کے عالمی اخراج میں صرف کنکریٹ اور اسٹیل کا حصہ 14سے 16 فی صد تک ہے۔ تعمیراتی کمپنیوں کا کم کاربن اخراج کے حامل تعمیراتی مواد کی تیاری میں تحقیق اور ترقی کو آگے بڑھانے اور دوبارہ استعمال، مرمت اور ری سائیکلنگ کے ذریعے مواد کے زیادہ عرصہ تک قابلِ استعمال رکھنے کے لیے درکار صنعت کے علم کو بانٹنا اہم ہے۔
حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی نظام
ہمارے قدرتی ماحولیاتی نظام اس قدر نازک صورتِ حال سے کبھی دوچار نہیں تھے، جس کا مقابلہ کرنے کے لیے انفرااسٹرکچر کا فروغ ایک اہم ذمہ داری ہے۔ تقریباً 10 لاکھ کے قریب جانوروں اور پودوں کی نسلیں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں جب کہ حیاتیاتی تنوع کا نقصان عالمی معیشت کی پیداوار میں تقریباً 10فی صد سالانہ کمی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج دنیا کو تعمیراتی ماحول میں اضافہ کرتے ہوئے ان ماحولیاتی نقصانات کو کم کرنا ہے۔ ان تضادات کے ساتھ دونوں اہداف کا حصول کیسے ممکن ہے؟ ایسے کئی طریقہ کار ہیں، جنھیں اختیار کرتے ہوئے تعمیراتی کمپنیاں مطلوبہ اہداف حاصل کرسکتی ہیں۔ تاہم اس کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔
اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا کو ماحولیاتی بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے 2050ء تک 8.1 ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ اس سرمایہ کاری کا ایک حصہ تعمیراتی کمپنیوں سے آنا چاہیے، تاکہ ان میں احساسِ ذمہ داری پیدا ہو اور وہ ایسے طریقے اختیار کریں، جن سے قدرتی ماحول کی تنزلی کے بجائے اسے ترویج حاصل ہو۔ اندازہ ہے کہ 2050ء تک دنیا کی 68فی صد یعنی 7 ارب نفوس پر مشتمل آبادی شہروں میں رہائش پذیر ہوگی۔ شعبہ تعمیرات کو ترقی کے ایسےماڈل کو اختیار کرنا ہوگاجو حیاتیاتی تنوع کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔
پانی کی قلت
2030ء تک عالمی سطح پر پانی کی رسد اور طلب کے درمیان فرق بڑھ کر 40فی صد تک ہوجائے گا۔ خصوصاً ترقی پذیر دنیا میں پانی کی شدید قلت کی صورتِ حال تنازعات اور غذائی بحران کا باعث بن سکتی ہے۔ شعبہ تعمیرات میں پانی ایک اہم خام مال کے طور پر شامل ہے اور اس شعبہ کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہ پانی کا مؤثر استعمال کررہا ہے۔
پائیدار مستقبل کی طرف
حقیقی اور دور رس تبدیلی کےلیے تعمیراتی صنعت سے وابستہ ماہرین کو ایمانداری، وعدوں کی پاسداری اور لیڈرشپ کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس صنعت کو تحقیق اور ترقی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ اس صنعت کو اپنے منافعوں کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے تعمیراتی طریقے اختیار کرنے ہوں گے، جن سے مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکے۔ اس صنعت کو انضباطی تبدیلیوں کو بھی گلے لگانا چاہیے، تاکہ یہ پیغام جائے کہ سیارہ زمین کے تحفظ کے لیے مقرر کردہ معیارات کا اطلاق سب پر مساوی طور پر ہوتا ہے۔
آج دنیا کو ماحولیاتی چیلنج کا جس قدر شدت سے سامنا ہے، اس سے قبل کبھی نہیں تھا۔ تعمیرات کا شعبہ، ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے خود مسئلے کا حصہ بننے کے بجائے مسئلے کے حل کے طور پر سامنے آئے تاکہ یہ شعبہ دنیا کو پائیدار مستقبل کی طرف لے جانے میں اپنا کردار ادا کرسکے۔