• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیکنالوجی، عمارتوں کو کیسے زلزلہ سے محفوظ بنارہی ہے؟

تعمیراتی شعبہ میں بلندوبالا عمارتیں تعمیر کرنے کا رجحان حالیہ برسوں میں بڑھ گیا ہے۔ دیکھا جائے تو فلک بوس عمارتیں آج کے دور کی ضرورت بھی ہیں کیوں کہ لوگ دیہی علاقوں سے نقل مکانی کرکے شہروں کا رُخ کررہے ہیں اور اس کے نتیجے میں شہری آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس بڑھتی شہرکاری کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹاؤن پلانرز، شہروں کو افقی طور پر پھیلانے کے بجائے عمودی رُخ میں ترقی دینے پر کام کررہے ہیں۔ 

نتیجتاً، شہری مراکز میں فلک بوس عمارتوں کی تعمیر میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ بڑھتی آبادی کو سمونے کے لیے بظاہر تو یہ ایک اچھی سوچ ہے، تاہم ایسی فلک بوس عمارتوں اور گنجان آبادی والے علاقوں میں لوگوں اور تعمیرات کو زلزلے سے محفوظ رکھنا ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ غلط منصوبہ بندی کے تحت بنائی گئی عمارتیں، زلزلے کی صورت میں شہری مراکز میں بڑے مالی اور جانی نقصان کا باعث بنتی ہیں۔

عمارتوں کو زلزلہ سے محفوظ رکھنا ایک ایسا چیلنج ہے، جس سے نمٹنے کے لیے آرکیٹیکٹ اور سول انجینئرز دن رات محنت کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر حالیہ کچھ برسوں میں زلزلوں کے نتیجے میں لاکھوں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے جب کہ ان سے متاثر ہونے والے افراد کروڑوں میں ہیں۔ زلزلے کے نتیجے میں آنے والے آفٹر شاکس، سونامی اور آتش فشاں سے ہونے والی ہلاکتیں اور نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔

حالات مزید بدتر ہوسکتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق، لوگ اُن شہروں کی طرف تیزی سے نقل مکانی کررہے ہیں، جو زلزلے کے مراکز کے زیادہ قریب ہیں۔ شہروں کی آبادی میں بے ہنگم اضافے کے باعث تیسری دنیا کے شہروں میں کچی آبادیوں اور کمزور تعمیرات کا رجحان عروج پر ہے۔

شاید ایک حقیقت، جسے اکثر لوگ نظرانداز کردیتے ہیں، وہ یہ ہے،’’زلزلے لوگوں کو نہیں مارتے (عموماً)، زلزلے میں گِرنے والی عمارتیں انسانوں کی ہلاکت کا باعث بنتی ہیں‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہو اکہ ہمیں عمارتوں کے تعمیراتی ڈھانچے پر کام کرنا ہوگا کہ وہ بڑے سے بڑے زلزلے کے جھٹکے برداشت کرجائیں۔ بصورت دیگر، آنے والے زلزلے، گزشتہ زلزلوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ جانی و مالی نقصان کا باعث بنیں گے۔

2015ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک 15سالہ انقلابی معاہدے کی منظوری دی تھی۔ اس معاہدے میں دنیا کے 100ممالک شراکت دار ہیں، جس کے 4ترجیحی شعبے ہیں۔ اس میں ترجیح نمبر 3 ’برداشت اور لچک پیدا کرنے کے لیے تباہی کے خطرات میں کمی کے لیے سرمایہ کاری کرنا‘ ہے۔ اس نکتے کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ سنگِ بنیاد رکھنے سے ہی ڈیزائن اور تعمیر پر توجہ دے کر بہتر عمارتیں تعمیر کی جائیں۔

اینڈریو وہائٹیکر،یونیورسٹی آف بفیلو میں سول انجینئرنگ کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زلزلے کے دوران ایک عمارت کی حالت، پہیوں والے تختہ پر کھڑے اس شخص کی طرح ہوتی ہےکہ اگر کسی وجہ سے اچانک وہ پہیے چل پڑیں، تو وہ تختہ اپنے اوپر موجود وزن کو توازن فراہم کرنا چھوڑ دیتا ہے، جس سے وہ شخص گِر بھی سکتا ہے۔ عمومی اصول یہ ہے کہ، عمارت جتنی زیادہ بلند ہوگی، بنیاد اور چوٹی کے مابین قوت میں اتنا ہی زیادہ تضاد پیدا ہوگا اور عمارت گرنے کے خدشات اتنے ہی زیادہ بڑھ جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ، زلزلے کےمراکز کے قریب قائم شہروں میں ایک مخصوص اونچائی سے زیادہ بلند عمارتوں کی تعمیر پر پابندی عائد ہوتی ہے۔

بلاشبہ، تعمیرات میں استعمال ہونے والا کچھ مواد دیگر کے مقابلے میں زیادہ بہتر ثابت ہوتا ہے۔ لکڑی اس سلسلے میں بہترین مواد ہے۔ ’لکڑی ایک لحاظ سے تعمیرات کے لیے آئیڈیل مواد ہے، کہ یہ اپنی سختی اور مضبوطی کے مقابلے میں کم وزن ہے‘، کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے جیو فزکس اور سول انجینئرنگ کے پروفیسر تھامس ہِیٹن کہتے ہیں۔ 

کنکریٹ ہرچند کہ آسانی سے ٹوٹنے والا مواد ہے، تاہم اسے اگر اسٹیل کے ساتھ استعمال کیا جائے تو اس سے تیار ہونے والا بلاک یا اینٹ لچکدار بن جاتی ہے۔ دیگر مواد کی کارکردگی بدترین ہے، کچی مٹی سے بنی عمارتیں(جو 2015ء کے نیپال کے زلزلے میں لاکھوں کی تعداد میں تباہ ہوئیں) اور چُنائی کی گئی عمارتیں (جس میں کھرل کے ذریعے اینٹ یا پتھرکو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا جاتا ہے) کم شدت کا زلزلہ بھی برداشت نہیں کرپاتیں۔

زلزلے کی صورت میں کھڑکی کےبغیر، کنکریٹ سے بنی عمارتیں بہتر لچک اور برداشت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ’جب میں ان عمارتوں پر نظر ڈالتا ہوں، جنھیں لوگ خوبصورت سمجھتے ہیں، ہوا دار اور کھڑکیوں سے بھرپور، تو میں زلزلے کی صورت میں ہر طرف انسانی لاشیں دیکھتا ہوں‘، پروفیسر تھامس ہِیٹن کہتے ہیں۔

کچھ نئی عمارتوں میں زلزلے سے محفوظ رہنے کی جدید تکنیکوں کو آزمایا جارہا ہے۔ ایسی ہی ایک تکنیک کا نام ’بَیس آئسولیشن‘ ہے۔ اس میں عمارت کی بنیاد میں ربر کے آلات نصب کیے جاتے ہیں، جو زلزلہ آنے کی صورت میں اضافی توانائی جذب کرلیتے ہیں، جس کے بعد وہ توانائی عمارت کی بالائی بنیادوں تک نہیں پہنچ پاتی۔ ایک عام شخص اِسے موٹر گاڑی میں نصب ’شاک ابزاربر‘سے تشبیہ دے سکتا ہے۔

اس کے علاوہ بھی نئے مواد تیار کرنے پر کام کیا جارہا ہے۔ ایک امریکی کمپنی دھات کے فوم یا پولیمر بنانے پر کام کررہی ہے، جو فضائی انجینئرنگ کی صنعت میں پہلے ہی استعمال ہورہے ہیں۔ یہ کمپنی دھاتوں کے ایک ایسے مرکب پر کام کررہی ہے، جو ناصرف زلزلے سے پیدا ہونے والی توانائی کو جذب کرلیں گے بلکہ زلزلے سے متاثرہ عمارت کو واپس اپنی جگہ بحال کرنے کی صلاحیت کے بھی حامل ہوں گے، اس طرح زلزلے سے متاثرہ عمارت کو مرمت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ دیگر کمپنیاں خود بخود بحال ہونے والا تعمیراتی مواد تیار کرنے پر کام کررہی ہیں، مثلاً کنکریٹ میں کیپسول رکھ دیے جائیں گے اور وہ زلزلے کے دوران عمارت کے فریم یا بنیاد میں پڑنے والے شگاف کو خود ہی بھر دیں گے۔

تعمیرات سے مزید