ضلع خیرپور کے قصبے کوٹ ڈیجی میں واقع قلعہ 18ویں صدی کے تالپور دور کا ہے۔ یہ صحرائے تھر کے کنارے دریائے سندھ سے تقریباً 25 میل مشرق میں واقع ہے۔ یہ قلعہ ہڑپہ تہذیب سے پہلے کے آثار قدیمہ کے مقام ڈیجی پہاڑی پر (جس کی تاریخ 2500 سے 2800 قبل مسیح ہے) تعمیر کیا گیا۔
تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہزاروں سال قبل خیرپور میرس سے تقریباً 15میل کے فاصلے پر کوٹ ڈیجی کے مغرب کی جانب پہاڑی پر ایک چھوٹا سا شہر آباد تھا، یہ ڈیجی رانی کے دور میں کافی مشہور تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شہر تو باقی نہ رہا لیکن ڈیجی کے نام سے یہ پہاڑی اپنی جگہ موجود رہی۔ یہاں پر جب ماہرین آثار قدیمہ کی جانب سے کھدائی کی گئی تو کئی نادر اشیا برآمد ہوئیں۔چونکہ یہ قلعہ ڈیجی پہاڑی کی اسی پرانی بستی پر بنایا گیا اس لیے یہ ’’کوٹ ڈیجی‘‘ کہلایا۔
تاریخی قلعہ کوٹ ڈیجی، ریاست خیرپور کے شاہی خاندان کے شاہانہ انداز کی گواہی دیتا ہے۔ خیرپور ریاست کے پہلے حکمران میر سہراب خان تالپور نے تین قلعے تعمیر کروائے تھے، جن میں سے ایک قلعہ احمدآباد تھا۔ چونکہ یہ قلعہ ڈیجی پہاڑی کی اسی پرانی بستی پر بنایا گیا تھا اس لیے یہ ’کوٹ ڈیجی‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ باقی دو قلعے سرحد کے اس پار بھارتی شہروں جودھ پور اور جیسلمیر میں راجستھان کے صحرا میں آج بھی موجود ہیں۔ کوٹ ڈیجی قلعہ کی تعمیر کا آغاز 1785ء میں کیا گیا جبکہ اس کی تکمیل 1795ء میں ہوئی۔ قلعے کو ایرانی ماہر تعمیرات نے ڈیزائن کیا جبکہ تعمیراتی کام کی نگرانی خیرپور ریاست کے وزیر تعمیرات سرائی محمد صالح زہری بلوچ نے کی تھی۔ اس کی تعمیر میں ہزاروں مزدوروں، کاریگروں اور ماہرین نے حصہ لیا۔
ایک اندازے کے مطابق یہ قلعہ سطح زمین سے 70فٹ کی بلندی پر ہے جبکہ اس کی لمبائی 5ہزار فٹ اور چوڑائی3ہزار فٹ ہے۔ اس کا طول و عرض 85ہزار 730 مربع میٹر ہے۔ قلعے کی فصیل پکی اینٹوں سے تعمیر کردہ ہے اور چاروں طرف فصیل اور پہاڑوں پر مورچے بنائے گئے تھے۔ تقریباً ایک اعشاریہ آٹھ مربع کلومیٹر پر بنے اس تاریخی قلعے میں کئی چھوٹے بڑے بُرج بنائے گئے ہیں۔
ان میں قلعے کے مشرقی سمت 50فٹ اونچا فتح برج (سفید ٹھل)ہے، جسے وکٹری ٹاور بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں تالپور حکمرانوں کا سرکاری جھنڈا لگایا جاتا تھا اور اس میں سپہ سالار کی رہائش گاہ بھی تھی۔ اس کے علاوہ ایک برج، مریم ٹھل پرتگالی مریم توپ رکھی ہوتی تھی۔ قلعے کے مشرقی حصے کی طرف جانے کے لیے جو برج استعمال ہوتا تھا اس کا رُخ بھارتی صحرائی ریاست راجستھان کے جیسلمیر کی طرف رکھا گیا ہے، اسی وجہ سے اسے جیسلمیر ٹھل برج پکارا جاتا ہے۔
قلعے میں اندر داخل ہونے کے لیے مضبوط لکڑی کا ایک ہی بڑا دروازہ بنایا گیا ہے۔ دیواروں پر جانے کے لیے اندر بنی سیڑھیاں اور مورچے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قلعے میں شمالی طرف اوپر کے حصے میں ایک اونچے اور پختہ چبوترے پر والئی ریاست کے لیے سفید پتھروں سے ایک بارہ دری بنائی گئی ہے، جہاں میر سہراب خان کا دربار لگا کرتا تھا۔ پتھر کی یہ تخت گاہ فنِ سنگ تراشی کا خوبصورت اور بیش قیمت نمونہ ہے۔ قلعے کے رہائشی حصے تک پہنچنے کے لیے تین بڑے لکڑی کے انتہائی مضبوط دروازوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔
ہاتھیوں کے حملے سے بچنے کے لیے دروازوں پر آہنی نوک دار کیلیں ٹھونکی گئی ہیں۔ یہ کیلیں اس طرح ابھری ہوئی ہیں کہ ایک بار ان سے ٹکرانے کے بعد کوئی بھی جانداز شدید زخمی ہوجائے گا۔ پہلے دروازے کو عبور کریں تو سامنے چھوٹے میدان میں پہنچتے ہی بائیں جانب کنواں نظر آئے گا۔ سامنے ہی ایک کمرہ دکھائی دیتا ہے، جو شاید گودام کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کمرے کی چھت موجود نہیں ہے جبکہ اس کے سامنے والی دیوار میں چراغ رکھنے کے لیے سینکڑوں سوراخ موجود ہیں۔
گودام کے بائیں جانب ایک حوض نظر آتا ہے، جس کی لمبائی 37فٹ، چوڑائی 33 فٹ اور گہرائی 12فٹ ہے۔ یہ حوض قلعے میں پانی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ قلعے کے مرکزی دروازے سے کچھ دوری پر شمالی جانب سابق والئی ریاست کی عارضی رہائش گاہ موجود ہے۔ اس کی بیرونی چار دیواری اور باورچی خانے کو کچی اینٹوں سے بنایا گیا ہے جبکہ اندر رہائشی حصے کو پختہ اینٹوں، مغلیہ طرز کے محرابی دروازوں اور خوبصورت نقش و نگار سے سجایا گیا ہے۔
کوٹ ڈیجی قلعہ دفاعی اور انتظامی مقاصد کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ یہاں تقریباً 1843ء تک ایک سالار کی نگرانی میں 500سپاہیوں کا دستہ 100 توپوں کے ساتھ تعینات کیا جاتا رہا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قلعے کے اندر یا باہر کبھی کوئی جنگ نہیں لڑی گئی مگر اس میں بڑی بڑی توپیں موجود تھیں، جن میں سے تین توپیں خاص طور پر مشہور ہوئیں۔ ان میں ایک ’مریم توپ‘ ہے، جسے پرتگال کا شاہ اپنے ساتھ لایا تھا لیکن روہڑی کے قریب دریائے سندھ پر اسے چھوڑ کر چلا گیا تھا۔
وہاں سے میر سہراب خان نے اس توپ کو ہاتھیوں کے ذریعے کوٹ ڈیجی پہنچایا۔ کہا جاتا ہے کہ مریم توپ میں دو ایسے کڑے لگے ہیں جو ہر سال اپنی جگہ بدلتے رہتے ہیں یعنی اگر ایک سال وہ اوپر کے حصے میں ہوں تو اگلے سال نچلے حصے میں نظر آئیں گے۔ باقی دو توپیں ’صنعا صنعا‘ اور ’ملک میدان‘ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ خیرپور کے میروں نے جب قلعہ کوٹ ڈیجی کو اپنا دارالخلافہ بنایا تو یہاں امیروں اور وزیروں کے محلات اور مکانات کی تعمیر شروع ہوئی جبکہ اردگرد رہائش پذیر لوگ بھی سرکاری کاموں کے لیے یہاں آنے لگے۔ 1845ء تک کوٹ ڈیجی کو بڑی اہمیت حاصل تھی مگر انگریزوں کی حکومت قائم ہونے کے بعد جب سرچارلس نیپئر اس علاقے کے ریذیڈنٹ تعینات ہوئے تو کوٹ ڈیجی کی جگہ خیرپور نے لے لی۔