• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی سونامی اور معاشی بھونچال سری لنکا کو لے بیٹھا ہے۔ پاکستان بھی اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی و معاشی بحران سے دوچار ہے۔25 مئی کو آئی ایم ایف سے معاشی ضمانت (بیل آئوٹ پیکیج) ملتی ہے یا نہیں اور شہباز حکومت اپنے گلے میں کانٹوں کا ہار ڈالنے پر تیار ہوتی ہے یا نہیں؟ اس کا دارومدار کئی اور عوامل کے علاوہ آج (اتوار) عمران خان کے اسلام آباد مارچ کے فیصلے پر ہے۔ 

ایک طرف اگر حکومت آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط مان لے جس میں بڑا فیصلہ پٹرولیم کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کرنا بھی لازمی شامل ہوگا اور دوسری طرف عمران خان 25 اور 29 مئی کے درمیان اپنا سونامی لے کر دارالحکومت میں داخل ہوگئے اور انہیں روکنے والا کوئی موثر ریاستی ادارہ بھی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے آخری حد تک تیار نہ ہوا، تو ملک کا کیا ہوگا؟ 

مریم نواز نے پہلے ہی حکومت چھوڑنے کی وارننگ دے دی ہے کہ ہم گزشتہ حکومت کا ملبہ کیوں اُٹھائیں اور عوام کو مزید مہنگائی کا نشانہ نہیں بنائیں گے اور نواز شریف نے اپنی پارٹی کو انتخابات میں اُترنے کی کال بھی دے دی ہے۔ 

تیسری طرف اسٹیبلشمنٹ اپنی منفرد نیوٹریلیٹی کو برقرار رکھے ہوئے ہے جس کی بدولت پی ڈی ایم اور پی پی پی عمران حکومت کو فارغ کرنے میں کامیاب ہوگئی تو اب عمران خان اُسی نیوٹریلیٹی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے وزیراعظم شہباز سے اسمبلیاں توڑنے اور نئے انتخابات کی تاریخیں دینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ لیکن عمران خان نے اپنی احتجاجی مہم کے آخری جلسے میں لانگ مارچ کی تاریخ دینے کا فیصلہ ملتوی کرکے پورے ملک کو افواہوں اور قیاس آرائیوں کی نذر کردیا ہے۔ 

اگر خان صاحب کو پیغام رسانوں نے کوئی خفیہ پیغام دیا ہے کہ قبل از وقت انتخابات کے لیے انتخابی شیڈول پر اتفاق رائے ہوسکتا ہے تو پھر شہباز حکومت اور اس کے اتحادی خاص طور پر نواز شریف ایک ایسی قلیل مدت حکومت پہ کیوں راضی ہوں گے جو صرف عوامی رسوائی کی ذمہ دار ہوگی؟ 

ایسی صورت میں شہباز حکومت آئی ایم ایف سے کوئی سخت معاہدہ کیوں کرے گی اور اس کے باوجود کہ امریکہ، چین، ترکی، سعودی عرب اور آئی ایم ایف سے مثبت اشارے مل رہے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی سیاستدان آئی ایم ایف کے غیر مقبول پروگرام پر انگوٹھا لگائے، ایک سخت گیر بجٹ پیش کرے اور لوگوں کی لعنت ملامت لے کر گھر لوٹ جائے۔ 

اب جبکہ ایک کھلاڑی اقتدار سے فارغ ہوا تو کھلاڑیوں کی پوری ٹیم بھی پچ چھوڑنے کو تیار بیٹھی ہے تو پھر بار بار آزمائے ہوئے نام نہاد ٹیکنوکریٹس کے لیے راستہ ہموار ہوا لگتا ہے اور پھر یہ سب کام نومبر کے اختتام تک پوراکرنے کی ڈیڈ لائن بھی تو ہے۔ لیکن اگر آئی ایم ایف پیکیج کے ساتھ ایک پورے مالی سال کے لیے پالیسی کے تسلسل کی شرط عائد کردی گئی تو ٹیکنوکریٹس کا باپ بھی یہ شرط پوری نہیں کرسکتا تاآنکہ نظریۂ ضرورت کے مُردے کو قبر سے نکال کر پھر زندہ نہ کردیا جائے۔ 

ویسے بھی آئی ایم ایف کے پاس کوئی ایسا نسخہ نہیں ہے جو پاکستانی دست نگر اور قرضوں کی لت کا شکار معیشت کو اس کے بھنور سے نکال دے، لیکن مریض کو ایمرجنسی وارڈ میں آئی ایم ایف کے مالیاتی ٹیکے کی ضرورت ہے۔ اور بیساکھیوں کے سہارے کی عادی جماعتیں کریں بھی کیا جن کی باہم سرپھٹول میں عطار کے اُسی لونڈے سے دوا لینی پڑتی ہے جو جمہوریت کے کوڑھ پن کا ذمہ دار ہے۔ اب ذرا خودمختار نیوکلیئر مملکت خداداد کی حالتِ زار پہ بھی اِک نگاہ ڈال لی جائے۔ خیر سے پاکستان کا قرضہ 53.5 کھرب روپے ہوچکا ہے۔ 

ہمارے قومی غیرت اور قومی آزادی کے نعرہ زن کپتان کی ساڑھے تین برس کی حکومت میں اس میں 23.7 کھرب روپے یعنی 80فیصد اضافہ ہوا، جو اُن سے قبل دو حکومتوں کے لیے گئے قرضوں سے دوگنا ہے۔ 

بجٹ خسارہ 5.5 کھرب روپے اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ 14 ارب ڈالرز تک پہنچنے کو ہے۔ جس مجموعی قومی آمدنی کے 6فیصد تک پہنچنے پر سابق وزیر خزانہ شوکت ترین بہت اترا رہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ درآمدات ہیں جو ادائیگی کے توازن میں خرابی کی بنیادی وجہ ہیں۔ 

عارضہ یہ ہے کہ جب بھی قومی آمدنی بڑھتی ہے تو دونوں خسارے بڑھتے ہیں، پھر آئی ایم ایف کا نسخہ آتا ہے تو قومی آمدنی گھٹائی جاتی ہے اور خسارے سنبھل جاتے ہیں، لیکن مہنگائی، روپے کی قدر میں کمی، بیروزگاری اور سرمایہ کاری کم ہوجاتی ہے۔ 

اس شیطانی چکر سے نکلنے کا نسخہ آئی ایم ایف کے پاس ہے نہ اس کے چیلے چانٹے ٹیکنوکریٹس کے پاس۔ حفیظ شیخ اور شوکت ترین پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی حکومتوں میں وزیر خزانہ رہے تو انہوں نے کیا تیر مارلیا تھا؟

ملک میں پانی، خشک سالی، بجلی و گیس، افراط زر، مہنگائی، سرکاری کارپوریشنز کے بھاری نقصانات اور غیر پیداواری اخراجات کی بہتات اور اُمرا کی مراعات اور قبضے کا بحران ہے۔ 

عمران حکومت کا سارا زور کرایہ خوری کے اسٹیٹ بزنس پہ رہا اور اسے تین ٹیکس چھوٹیں اور عام معافیاں دی گئیں لیکن یہ سیکٹر کوئی ایسی چیز پیدا نہیں کرتا جسے برآمد کیا جاسکے بلکہ اس کا انحصار ایک حد تک درآمد پر ہے۔ 

اصل بحران پیداواری استطاعت کے نہ بڑھنے کا ہے اور غیر پیداواری اخراجات و مراعات کا ہے۔ اب اسے ٹیکنوکریٹس تو حل کرنے سے رہے، لیکن سیاست سے بیزار مقتدر ادارے ان کی زلفوں کے ہمیشہ سے اسیر رہے ہیں۔

تو قارئین پردہ گرنے کو ہے اور سیاسی محاذ آرائی کے بطن سے جو برآمد ہوگا تو لاڈلوں سمیت سبھی سیاستدان ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ لیکن وہ باہم مل بیٹھ کر مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنے پہ آمادہ نہیں۔ 

عمران خان نے عدم اعتماد کے بعد زبردست سیاسی کھیل کھیلا ہے اور ان کا خالی خولی امریکی سازش کا بیانیہ خوب بکا ہے لیکن انہوں نے ایک پوری نسل کو مغلظات کے کلچر کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ 

ان کے پاپولزم اور فاشزم میں فاصلہ بہت کم رہ گیا ہے، بس مخالفین کے گھروں پر حملے باقی ہیں۔ بہتر ہوگا کہ عمران خان اور حکومتی اتحادی کسی سیاسی درمیانی راہ پہ متفق ہوجائیں، ورنہ کھیل سیاستدانوں کے ہاتھ سے پھر نکل جائے گا۔ 

ویسے بھی حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں اپنے ناکردہ گناہوں کا بوجھ کیوں اُٹھائیں اور کیوں نہ خود انتخابات کی مناسب تاریخ کا اعلان کردیں۔ بس ڈر یہ ہے کہ کہیں سیاسی افراتفری اور معاشی بحران کسی بڑے قومی سانحہ میں نہ بدل جائے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین