اس حقیقت میں اب کوئی دو آرا نہیں کہ 2018کے عام انتخابات پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ متنازع اور دھاندلی زدہ تھے، یہ کُھلی دھاندلی ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ’’آر ٹی ایس ‘‘ سسٹم کے استعمال اور اسے بٹھا کر کی گئی تھی، 2018سے پہلے پاکستان کے کسی الیکشن میں ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کیا گیا تھا ، مقتدرہ حلقے اس الیکشن سے کوئی آٹھ سال پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ آنے والے چند سال میں روایتی سیاستدانوں کی بجائے کسی تیسرے پلیئر کو موقع دیا جائیگا چنانچہ یہ تیسرا کھلاڑی ان کی نظر میں عمران خان تھا، اور عمران خان نے اس چور راستے سے اقتدار میں آنے پر رضا مندی بھی ظاہر کر دی تھی۔ آر ٹی ایس یا آر ایم ایس ایک کمپیوٹر پروگرام ہے جس کی انسٹالیشن ریٹرننگ افسر کے دفتر میں رکھے کمپیوٹر میں کی جاتی ہے یعنی اس ٹیکنالوجی کی مدد سے الیکشن کے رزلٹ بنائے اور اناؤنس کئے جاتے ہیں ۔ مذکورہ الیکشن کے رزلٹ آئے تو حزب مخالف کی سب بڑی جماعتوں، پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر پانچ جماعتوں پر مشتمل اتحاد نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اس الیکشن کو ’’ دھاندلی زدہ الیکشن کی ماں ‘‘ قرار دیا، لیکن کیونکہ ڈسکریشن پاور رکھنے والی قوتوں کے پیشِ نظر عمران خان کو یہ ’باری‘ بہر صورت دینا ہی مقصود تھا اس لیے نہ تو اس احتجاج کا کوئی نتیجہ نکلا اور نہ ہی کوئی قابلِ ذکرانکوائری اس ضمن میں ہو سکی بلکہ گزشتہ ساڑھے تین سال میں حزب مخالف کی جماعتوں کے قائدین کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مطعون کیا گیا، ریاستی اداروں اور میڈیا کا استعمال کر کے انہیں کردہ و نا کردہ گناہوں کی سزا بھی دی گئی اور ہر مشکل وقت میں عمران حکومت کو گرنے سے بچانے کا تمام تر بندوبست کیا گیا لیکن بظاہر مقتدرہ کا ماتھا تب ٹھنکا جب ملکی معیشت تباہی کے دہانے تک جا پہنچی اور پاکستان کے عوام مہنگائی کی چکی میں بری طر ح پسنے لگے، اس حکومت نے وُہ تباہی مچائی جو پاکستان میں پہلے کبھی کسی نے دیکھی نہ سنی۔ چنانچہ مقتدرہ نے جونہی عمران خان کے سر سے ہاتھ اٹھایا تو ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے اتحاد قائم کیا اور عمران خان کے اتحادیوں نے حکومت کا ساتھ چھوڑ دیا تو تحریک عدم اعتماد کے نتیجہ میں عمران حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
عمران خان حکومت سے باہر آنے کے بعد خود علانیہ طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اسٹیبلشمنٹ سے کہتا تھا کہ اپوزیشن کے بعض بڑے لیڈروں کو سزادی جائے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔ کیا عمران خان کی اس بات سے آشکار نہیں ہوتا کہ ’’ پانامہ پیپرز ‘‘ ہوں، ’’ ڈان لیکس ‘‘ یا سیاستدانوں پر بنائے گئے دیگر مقدمات ،یہ سارے پولیٹکل انجینئرنگ یا سیاسی موٹیو ٹیڈ کیسز کی زندہ مثال تھے اور ان کا صریحاً مقصد آصف علی زرداری اور نواز شریف کی روایتی سیاسی فیملیز کو ’ سبق سکھانا ‘ تھا لہٰذا یہ سبق مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے تمام چیدہ چیدہ سیاست دانوں کو بڑی حد تک سکھایا بھی گیا لیکن جب ’ماسٹرز‘ کو اندازہ ہو گیا کہ غلط گھوڑے ‘ پر داؤ لگا بیٹھے ہیں تو انہوں نے بظاہر تو ہاتھ کھینچ لیا لیکن جس طرح سے عمران خان اپوزیشن میں آ کر ملک کے ریاستی اداروں، ملک کی معاشرتی و تہذیبی یا اخلاقی قدروں پر حملہ آور ہوئے اور روایتی سیاسی ٹھہراؤ یا حدود و قیود کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے حیرت انگیز طور پر ان کی زبان روکنے سے جس طرح تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا جا رہا ہے، اس بنا پرگمان ہوتا ہے کہ ’’ مجھے کیوں نکالا ‘‘ کے بیانیے سے لے کر آج میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے تک اور حال ہی میں مسلم لیگ کی لندن میں ہونے والی میٹنگ تک میاں نواز شریف کی سیاسی بصیرت اور بیانیہ 100 فیصد درست تھا، یعنی اگر پچھلے ساڑھے تین سال تک نواز شریف ڈٹے رہے کہ میں نہ تو بزدار حکومت گرانے کے حق میں ہوں اور نہ عمران حکومت کو چلتا کرنے کی حمایت میں، بلکہ میرا مطالبہ ایک ہے یہ کہ سول بالادستی ہونی چاہیے اور اسٹیبلشمنٹ کا کوئی سیاسی کردار نہ ہو۔ نواز شریف چاہتے تھے کہ عمران حکومت پانچ سال پورے کرے اور پھر یہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اپنے بوجھ تلے خود گر جائے گی، چنانچہ اصل میں عمران خان کی حکومت اگر تین سال آٹھ مہینے چلی ہے تو یہ بھی نواز شریف کی ضد کی وجہ سے ورنہ مقتدر ادارے، شہباز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان اور دیگر چھوٹی جماعتیں تین سال قبل بھی عمران حکومت کو چلتا کرنے کے خواہشمند تھے ۔گزشتہ ہفتے11مئی کو لندن میں میاں نواز شریف کی سربراہی میں ہونے والی مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی میٹنگ میں بھی نواز شریف کا نکتہ یہی تھا کہ اس قسم کی حکومت کا طوق ہمیں اپنے گلے میں نہیں ڈالنا چاہئے او ر 2018والے ’’ معمار‘‘ ہی ایسی حکومت کو سنبھالیں۔ آصف علی زرداری ہوں یا ان کے دیگر ہم خیال جو یہ سمجھتے تھے کہ اگر عمران خان کو ابھی نہ ہٹایا گیا تو جنرل فیض حمید ’فیکٹر‘ ، اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے ،الیکشن الیکٹرانک مشین کے ذریعے کروانے سمیت سابق حکومت نے جو قانون سازی کی ہے، ان میں اصلاحات کئے بغیر اگر انتخابات کروائے گئے تو ہمیں نقصان ہو سکتا ہے، اور یہی وہ وجوہ ہیں جن کیوجہ سے پی ٹی آئی فوری الیکشن کروانے پر بضد ہے۔ لندن میں ہونے والی حالیہ میٹنگ میں بھی میاں نواز شریف کا مرکزی خیال یہی تھا کہ 100فیصد سول بالادستی ابھی تک پاکستان کے سیاسی میدان میں نظر نہیں آ رہی ۔
جہاں تک میاں نواز شریف کی بنیادی سوچ کا تعلق ہے تو بڑی حد تک اس کے درست ہونے کا بین ثبوت یہ بھی ہے کہ پچھلے 5 ہفتوں سے عمران خان یا ان کے ساتھیوں میں سے کسی ایک پر بھی نہ تو کسی پرانے کیس میں ہاتھ ڈالا گیا اور نہ ہی قانون و آئین توڑنے پر کوئی ادارہ حرکت میں آیا بلکہ عمران خان ملک کے طول وعرض میں فوج، عدلیہ، ججوں، الیکشن کمیشن اور دیگر سبھی اداروں و شخصیات پر تاریخی بد زُبانی و بغیر کسی منطق و دلیل تنقید کر رہے ہیںجو ملکی سلامتی کیلئے بیرونی سطح پر اور اندرونی استحکام کیلئے بھی خطرناک ہے۔ پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں ایسی پولرائزیشن کبھی دیکھی نہ سنی گئی، بہر کیف 2018 سے آج 2022 تک کے سیاسی حالات گواہی دیتے ہیں کہ بیانیہ نواز شریف کا ہی درست تھا !