• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’نظامِ ہاضمہ درست ہو تو دیگر جسمانی اعضاء بھی توانا رہتے ہیں‘

بات چیت: عالیہ کاشف عظیمی

گیسٹرو اینٹرولوجی آرگنائزیشن کے زیرِ اہتمام دُنیا بَھر میں ہر سال29مئی کو نظامِ ہاضمہ کی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے ’’ورلڈ ڈائی جیسٹیو ہیلتھ ڈے‘‘ منایا جاتا ہے، تاکہ ہر سطح تک نظامِ ہاضمہ کی صحت اہمیت اُجاگر کی جائے، کیوں کہ نظامِ ہاضمہ سے منسلک کئی بیماریاں ایسی ہیں، جو بظاہر معمولی نوعیت کی محسوس ہوتی ہیں، لیکن بعض کیسز میں موت کی وجہ بھی بن جاتی ہیں۔ اگر نظامِ ہاضمہ درست اور صحت مند ہو، تو جسم پرمفید اثرات مرتّب ہوتے ہیں، مگر ہم کھانے پینے کے معاملےمیں بے احتیاطی برت کرمعدے اور نظامِ ہاضمہ میں گڑبڑپیداکر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ رواں برس جس تھیم کاا جراء کیا گیا ہے، وہ ،"Colorectal Cancer Prevention: Getting Back on Track"ہے۔یعنی’’ بڑی آنت کے سرطان کی روک تھام: ٹریک پر واپس آجائیں۔‘‘ ورلڈ ڈائی جیسٹیو ہیلتھ ڈے کی مناسبت سے ہم نے معدے اور نطامِ ہاضمہ سے متعلق تفصیلاً جاننے کے لیےمعروف جنرل فزیشن اور ماہرِ امراضِ پیٹ، جگر و معدہ، پروفیسر ڈاکٹر غلام علی مندرہ والا سے بات چیت کی۔

نمایندۂ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے…… (عکّاسی: اسرائیل انصاری)
نمایندۂ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے…… (عکّاسی: اسرائیل انصاری)

ڈاکٹر صاحب نے 1978ء میں ڈائو میڈیکل کالج، کراچی سے طب کی ڈگری حاصل کی اور اپنے کیرئیر کا آغاز عباسی شہید اسپتال، کراچی سے کیا۔ بعد ازاں، پاکستان ائیر فورس میں بطور کیپٹن معالج فرائض انجام دئیے۔ 1982ء میں سندھ گورنمنٹ اسپتال سے منسلک ہوگئے۔ بعد ازاں، ڈائو میڈیکل یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں اپنا تبادلہ کروالیا اور شعبۂ تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ اسی عرصے میں ایم ڈی مکمل کیا۔ 1995ءمیں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پھر پروفیسر کے عُہدے پر فائز ہوئے۔ 

ڈاکٹر غلام علی مندرہ والا نے چار کتابیں انگریزی زبان میں تحریر کیں،جن میں سے ایک کتاب ہیپاٹائٹس، دوسری پیٹ کے امراض، تیسری گیسٹرو، اور چوتھی جگر کے امراض کے حوالے سے ہے۔تقریباً30ریسرچ پیپرز اور200سے زائد مقالے لکھ چکے ہیں۔ نیز، جناح اسپتال، کراچی میں10سال سے زائد عرصے تک کے لیے ڈیپوٹیشن پرکام بھی کیا۔ ڈاکٹر صاحب عالمی ادارۂ صحت کے ’’Facilitator‘‘بھی ہیں۔ انہیں ’’قائدِ اعظم ایوارڈ‘‘ اور ’’ہجری ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا گیا ہے۔ فی الوقت، بیگم حاجی یوسف اسپتال اور انکل سریا اسپتال میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے ہونے والی گفتگو کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے۔

س: دُنیا بَھر میں 29 مئی کو ’’ورلڈ ڈائی جیسٹیو ہیلتھ ڈے‘‘ منایا جاتا ہے، تو اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

ج: دیکھیں، جس طرح کی غذا ستعمال کی جاتی ہے، جسم پربھی ویسے ہی ا ثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ جیسا کہ متوازن غذا کا استعمال جسم کو توانائی فراہم کرنے کا موجب بنتا ہے، جب کہ کھانے پینے کے معاملے میں بے احتیاطی ، بدپرہیزی کے نتیجے میں معدے یا ہاضمے کے امراض جنم لیتے ہیں۔ مشرق میں زیادہ تر افرادغذائیت کی کمی کی وجہ سے امراضِ معدہ کا شکار ہوتے ہیں، جب کہ مغرب میں موٹاپا اس کا سبب بنتا ہے۔ ایسا کیوں ہے، اس پر عرصے سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے، مگر سبب چاہےجو بھی ہو، بروقت تشخیص نہ ہونا اور علاج میں تاخیر سرطان کا باعث بن سکتا ہے،لہٰذا بسیار خوری اورغذائیت کی کمی کے مضرات کے حوالے سے معلومات عام کرنے کے لیے یہ یوم منایا جاتا ہے۔

س: رواں برس،"Colorecta l Cancer Prevention: Getting Back on Track"تھیم کا اجراءکیا گیا ہے، تو اس سے متعلق بھی بتائیں؟

ج: بڑی آنت کا سرطان طبّی اصطلاح میںColon Cancer کہلاتا ہے، جو دُنیا بَھر میں بریسٹ کینسر کے بعد دوسرا بڑا سرطان قرار دیا گیا ہے۔ ہر سال لاکھوں افراد اس موذی مرض کا شکار ہوکر القمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ سرطان پچاس سال یا اس سے زائد عُمر کےافراد میں عام ہے، مگرکچھ عرصے سے نوجوانوں میں بھی بڑی آنت کا سرطان رپورٹ ہورہا ہے۔ بڑی آنت کا سرطان لاحق ہونے کے کئی عوامل ہیں۔ مثلاً موٹاپا، مرغّن غذائیں، تمباکو نوشی، ورزش نہ کرنا، والدین یا بہن بھائیوں میں سے کسی کو یہ مرض لاحق ہونا اور آنتوں کی سوزش وغیرہ،جب کہ علامات میں خون کا اخراج، پاخانے کی رنگت بدل جانا، پیٹ درد، قبض، بغیر کسی وجہ کے اچانک وزن کم ہوجانا اور خون کی کمی شامل ہیں۔

مرض کی تشخیص کے لیے قولونواسکوپی کی جاتی ہے۔ اس ٹیسٹ میں تقریباً ایک میٹر لمبی ٹیوب، جس کے آخری سرے پر کیمرا لگا ہوتا ہے، مقعد کے ذریعے بڑی آنت میں داخل کرکے معائنہ کیا جاتا ہے اور اگر کوئی پولپ نظر آجائے، تو اسے قولونواسکوپی ہی کے ذریعے نکال دیا جاتا ہے۔ اس عمل کو’’ اسکریننگ قولونواسکوپی ‘‘کہا جاتا ہے۔ کئی مُمالک بشمول پاکستان میں قولون کینسر اسکریننگ کے حوالے سے معلومات کا سخت فقدان پایا جاتا ہے،تو یہ تھیم منتخب کرنے کی وجہ جہاں اس مرض سے متعلق آگہی فراہم کرنا ہے، وہیں قولونواسکوپی کی اہمیت بھی اُجاگر کرنا ہے۔

س: نظامِ ہاضمہ کی صحت سے کیا مُراد ہے، ہم اپنے ہاضمے کو کیسے بہتر بناسکتے ہیں؟

ج: نظامِ ہاضمہ، منہ سے شروع ہوکرحلق، کھانے کی نالی، معدے، بڑی اور چھوٹی آنت سےمقعد پر جا کر ختم ہوتا ہے،جب کہ مدد گار اعضاء مثلاً لبلبہ، منہ میں موجود غدود، جگر اورپِتّا وغیرہ مختلف اوقات پر اپنے اپنے طریقوں سے اس میں مختلف رطوبتیں داخل کرتے رہتے ہیں، تاکہ جو کچھ ہم نے کھایا ہے، وہ نہ صرف ہضم ہوجائے، بلکہ اس سے مطلوبہ نتائج بھی برآمد ہوسکیں۔

اگر ہم ایسی غذائیں استعمال کریں، جو نظامِ ہاضمہ کو صحت مند و توانا رکھنے کے لیے ضروری ہیں، تو ہم ہر اعتبار سے صحت مند رہیں گے، بصورتِ دیگر کئی طبّی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ واضح رہے، نظامِ ہاضمہ سے منسلک بیماریوں کی تعداد لگ بھگ 600 کے قریب ہے، جن میں سے چند ایک ایسی ہیں، جو منہ یعنی دہن سے لےکر مقعد تک پھیلائو رکھتی ہیں، لہٰذا نظامِ ہاضمہ میں خرابی کی صُورت میں اپنی غذا پر توجّہ دی جائے اورفوری طور پرمعالج سے رجوع کیا جائے۔

س: نظامِ ہاضمہ کی سوزش سے کیا مُراد ہے؟

ج: نظام ِ ہاضمہ کی سوزش طبّی اصطلاح میں Crohn's Diseaseکہلاتی ہے، اس مرض میںانتڑیوں میں سوزش ہوجاتی ہے۔ اس کی عمومی علامات میں دست، پیچش ، بخار ، وزن کم ہونا اور پیٹ درد وغیرہ شامل ہیں۔ تشخیص کے لیےمختلف اقسام کے ایکسرے ، ٹیسٹ مثلاً قولونو اسکوپی، ویڈیو کیپسول اینڈو اسکوپی، بائیوآپسی، سی ٹی اسکین اور خون کے ٹیسٹ تجویز کیے جاتے ہیں۔ چوں کہ کرون کی بیماری متعدّد بیماریوں سے مماثلت رکھتی ہے،اسی لیےاگر ڈاکٹر ماہر نہ ہو تو زیادہ ترمریض ایک ڈاکٹر سے دوسرے پھر تیسرے اور بالآخر کنسلٹنٹ تک پہنچتے ہیں، مگر افسوس کہ تب تک مزیدپیچیدگیاں پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔یہ ایک قابلِ علاج مرض ہے، بشرطیکہ بروقت تشخیص ہوجائے۔

س: معدے کی کارکردگی متاثر ہوجائے،تو کس طرح کے امراض جنم لیتے ہیں؟

ج: معدے کی کارکردگی مرحلہ وار متاثر ہوتی ہے۔ پہلے مرحلے میں تیز مرچ مسالوں اور غیر صحت بخش غذاؤں(Unhygienic foods)کے استعمال سے جراثیم کو تقویت ملتی ہے۔ ان جراثیم میں سب سے طاقت وَر جرثوما ایچ پائلوری(Helicobacter Pylori) ہے، جو معدے میں 85فی صد تیزابیت اور اَلسر کی وجہ بنتا ہے۔ 

دوسرے مرحلے میں معدہ ایک ہیجانی کیفیت میں رہتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں معدے کے ابتدائی حصّے کا یعنی چھوٹی آنت کا السر ہوسکتا ہے اور آخری مرحلے میں سرطان لاحق ہوجاتا ہے۔ جس کی اپنی کئی پیچیدگیاں ہیں۔ معدے کا سرطان بہت عام ہے اور زیادہ تر کیسز میں ادویہ بھی مؤثر ثابت نہیں ہوتیں اور نوبت سرجری یا موت تک آ جاتی ہے۔

س: دُنیا بَھر اور پاکستان میں معدے کے کون کون سے عوارض عام ہیں ؟

ج: ہمارے یہاں معدے کی جلن، سوزش، اَلسر، گیسٹرائٹس، چھوٹی آنت ، غذاکی نالی کے امراض اور معدے کا سرطان عام ہیں۔ واضح رہے معدے کی خرابی کی وجہ سے بعض کیسز میں آواز تک تبدیل ہوجاتی ہے، دَمے کا اٹیک بھی ہو سکتا ہے۔ نیز، جگر کی خرابی، خصوصاً فیٹی لیور کا مرض بھی لاحق ہوسکتا ہے۔

س: ان امراض کی شرح مَرد و خواتین میں سے کس میں بُلند ہے؟

ج: معدے کے امراض کی شرح مَردوں کی نسبت خواتین میں بُلند ہے، کیوں کہ زیادہ تر مَرد چٹ پٹی چیزیں نہیں کھاتے۔ پھر چوں کہ خواتین کا بیش تر وقت باورچی خانے میں گزرتا ہے، تو وہ کچھ نہ کچھ کھاتی رہتی ہیں،جس کی وجہ سے ان میں معدے کے امراض کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔

س: معدے کے امراض کی تشخیص کے لیے کیاکیاطریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں؟

ج: عمومی طور پر خون اور پاخانے کے ٹیسٹ تجویز کیے جاتے ہیں۔تاہم، اب اینڈو اسکوپی ہی مستند طریقۂ تشخیص ہے، جب کہ ایچ پائلوری کی تشخیص کے لیے چار طرح کے ٹیسٹ تجویز کیے جاتے ہیں۔ پاخانے کا نمونہ، بلڈ اینٹی باڈیز ٹیسٹ، معدے کی بائیوآپسی اور یوریا بروتھ ٹیسٹ۔

س: آج کل فاسٹ فوڈز، فروزن فوڈز اورکولڈڈرنکس کا رجحان عام ہے؟ ان کے زائد استعمال سے کس طرح کے امراض لاحق ہوسکتے ہیں؟

ج: فاسٹ فوڈز کے زائداستعمال سے معدے میں تیزاب کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور پھر جب یہ تیزاب غذا کی نالی کی جانب رُخ کرتا ہے،تو نتیجتاً معدے یا سینے میں جلن محسوس ہوتی ہے۔پھر ہمارے یہاں مختلف رنگوں کی کولڈڈرنکس میں سے وائٹ ڈرنک کا استعمال خاصا عام ہے، جو عموماً کھانا ہضم کرنے کے لیے پی جاتی ہے، لیکن طبّی اعتبار سے یہ معدے کی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے، کیوں کہ جو تیزاب غذا ہضم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے، اُس کا اخراج رُک جاتا ہے، لہٰذا کھانا کھانے کے بعد کم از کم 20 منٹ تک پانی یا کولڈڈرنک کے استعمال سے اجتناب برتا جائے۔ رہی بات فروزن اورٹن فوڈز کی تو یہ معدے کے سرطان کی وجہ بن سکتے ہیں۔اگر دو وقت کا کھانا اسلامی طریقے سے (یعنی اُکڑوں بیٹھ کر) کھایا جائے، تو پیٹ بڑھتا ہے ،نہ موٹاپا لاحق ہوتا ہے۔ جب سے ہم نے میز کرسی پریا کھڑے ہو کر کھانا شروع کیا ہے، موٹاپے کی شرح بھی بڑھ گئی ہے۔

س: معدے کی دائمی بیماریوں کے حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟

ج: معدے کے دائمی امراض میں تیزابیت، ہاضمے کی خرابی، کھانا کھانے میں دُشواری وغیرہ شامل ہیں، جس کی عمومی وجہ ایچ پائلوری ہے۔

س: معدے اور غذا کی نالی کے سرطان کے متعلق بتائیں کہ ان کی علامات کیا ہیں، تشخیص اور علاج کا طریقۂ کار کیا ہوتا ہے؟

ج: دُنیا بَھر کی نسبت ہمارے یہاں معدے اور غذا کی نالی کے سرطان کی شرح کم ہے، کیوں کہ یہاں روسٹڈ فوڈ اورالکحل کا استعمال کم ہے۔ معدے کے سرطان کی عمومی وجوہ اَلسر، ایچ پائلوری، پان، گٹکے، تمباکو نوشی اور الکحل وغیرہ ہیں،جب کہ علامات میں بھوک نہ لگنا،وزن میں کمی، پیٹ میں درد، تھوڑا سا کھانا کھانے کے بعد پیٹ بَھرا بَھرا محسوس ہونا، سینے کی جلن، اُلٹیاں،بدہضمی، متلی اور خون کےاخراج کے ساتھ قے شامل ہے۔ تشخیص کے لیے اینڈو اسکوپی کا طریقہ مستعمل ہے۔

اگر معدے کے سرطان کی تشخیص ابتدائی مرحلے ہی میں ہوجائے، تو پھر ادویہ، سرجری یا اینڈ اسکوپی کےذریعے علاج کیاجاتا ہے۔ نیز، بعض کیسز میں صرف اینڈو اسکوپی ہی کے ذریعے سرطان ختم ہوجاتا ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ زیادہ تر مریض آخری مرحلے ہی میں معالج سے رجوع کرتےہیں۔ غذا کی نالی کے سرطان کی ابتدا ئی علامات اَلسر جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ بعدازاں، کھانا کھانے میں دشواری ہوتی ہے اور تیزی سے وزن کم ہوتا چلا جاتا ہے۔

س: علاج معالجے میں کوتاہی سے کس طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں؟

ج: اگر علاج معالجے میں کوتاہی برتی جائے تو کئی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔مثلاً وزن کم ہوجانا، پیٹ میں شدید درد، موٹاپا، اَلسر پھٹ جانا اور سرطان وغیرہ۔

س: اگر مدافعتی نظام کم زور پڑ جائے تو نظامِ ہاضمہ پر اُس کے کس قسم کے اثرات مرتّب ہوتے ہیں؟

ج: مدافعتی نظام عموماً وائرس، بیکٹیریا اور آٹوامیون ڈیزیز کی وجہ سے کم زور پڑتا ہے، تو ان تینوں صُورتوں میں بخار، اسہال کی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور معدے کے افعال بگڑ جاتے ہیں۔

س: بچّوں میں معدے کے کون کون سے امراض عام ہیں؟

ج: چھوٹے بچّے جب گُھٹنوں گُھٹنوں چلتے ہیں، تو عموماً فرش سے کچھ نہ کچھ اُٹھا کر کھا لیتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں معدے کی خرابیاں اور5 سال کی عُمر کے بچّوں میں معدے کا اَلسر دیکھنے میں آ رہا ہے، جس کی وجہ ایچ پائلوری ہے۔ اس کے علاوہAmebiasis اورGiardiasisامراض کی بھی شرح بُلند ہے۔

Amebiasis مرض ، بڑی آنت کا ہے، جس میں پیچش کی تکلیف خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔giardiasis کا عارضہ چھوٹی آنت کا ہے،جو بچّوں اور عُمر رسیدہ افراد میں عام ہے۔

س : معدے کے السر سے متعلق بھی تفصیلاً بتائیں ؟

ج: بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بدہضمی کو معمولی تکلیف جان کر نظرانداز کردیا جاتا ہے، لیکن یہی تکلیف آگے چل کر معدے کے السر کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔یہ بھی مشاہدے میں ہے کہ زیادہ تر افراد بدہضمی کی صُورت میں مختلف اقسام کے چورن پھکیّاںوغیرہ آزماتے ہیں۔ بیش تر اوقات یہی گھریلو ٹوٹکے مرض کو ہوا دیتے ہیں، تو خدارا! خود اپنا معالج بننے کے بجائے مستندگیسٹرو انٹرولوجسٹ سے رابطہ کریں۔ یاد رکھیے، معدے کے السرکی سب سے بڑی علامت پیٹ کے اوپری حصّے میں درد ہے، جس کی تشخیص ایک ماہر معالج ہی کرسکتا ہے۔

السر کے درد کی نوعیت بہت شدید نہیں ہوتی اور زیادہ تر یہ درد پیٹ کے اوپری اور درمیانی حصّے تک ہی محدود رہتا ہے۔ اس کے علاوہ معدے کے آخری سرے کے السر کی ایک خاص علامت رات کے پچھلے پہر میں درد ہونا ہے،جس کی شدّت مریض کو نیند سے جگا دیتی ہے۔ بسا اوقات قے بھی ہوجاتی ہے۔اگرالسر معدے کی پرت سے باہر تک پھیل چُکا ہو، تو درد کمر میں بھی محسوس ہوگا۔ السر کی تشخیص کے لیے پیٹ کا الٹراسائونڈ،خون اور پاخانے کے ٹیسٹ وغیرہ تجویز کیے جاتے ہیں۔ بعض کیسز میں گیسٹرواسکوپی بھی کی جاتی ہے۔ ماضی کی نسبت اب معدے کے السر کے علاج کے لیے مؤثر ادویہ دست یاب ہیں۔

س: کیا ڈیپریشن بھی معدے کے السر کا سبب بن سکتا ہے؟

ج: جی بالکل، ڈیپریشن معدے کے السر کی ایک بڑی وجہ ہے، کیوں کہ جو افراد ڈیپریشن کی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں، ان کے معدے میں تیزابیت کی مقدا ر بڑھ جاتی ہے۔دراصل ہمارے دماغ اور معدے کا ایک خاص تعلق ہے۔ اگر معدہ ٹھیک رہے گا، تو دماغ بھی فریش رہے گا۔ اگر معدے میں گڑبڑ ہوجائے تو اس کے اثرات دماغ پر بھی مرتّب ہوں گے۔

س: نظامِ ہاضمہ یا معدے کی صحت برقرار رکھنے کے لیے کس طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں؟

ج: متوازن غذا استعمال کریں اور کھانے پینے کی اُن تمام اشیاء سے اجتناب برتیں، جو معدے کی صحت متاثر کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ ہوٹلز کے کھانے کم سے کم کھائیں، فاسٹ، فروزن اور ٹن فوڈز سے احتیاط برتیں۔ صاف ستھرا پانی پیئں۔ اگر فلٹر کی سہولت نہیں، تو پانی اُبال لیں اور صاف ستھرے ماحول میں رہیں۔کولڈرنکس کے بجائے تازہ جوسز کا استعمال کریں۔