نظر کے سامنے جب کوئی نو بہار آیا
غزل کے حُسن پہ کچھ اور بھی نکھار آیا
عُرسِ نَو کی طرح جب وہ سامنے آئے
تو اُن کو دیکھ کے بے اختیار پیار آیا
تِرے ہی حُسن کو دیکھا کیا ہوں مَیں پہروں
تِرا ہی نام مِرے لب پہ بار بار آیا
بنام شاعری جان مغل تصوّر میں
ہر ایک سمت تُجھے جا کے پکار آیا
جنونِ عشق نہیں ہے، تو اور کیا ہے یہ
تیری گلی سے جو گزرا، وہ بار بار آیا
خدا کا شکر ہے اے دوست بعد مدّت کے
چمن میں پھول کِھلے، موسمِ بہار آیا
سکونِ قلب کی جوہر ہزار کوشش کی
کسی طرح نہ جہاں میں مُجھے قرار آیا
(سید سخاوت علی ہاشمی جوہر، کراچی)
مَیں ان سا ہوتے ہوئے بھی جُدا پرندہ ہوں
اسیر نسل کا پہلا رِہا پرندہ ہوں
لگانے والے ہیں کُڑکی مُجھے پکڑنے کو
انہیں خبر ہی نہیں، مَیں بڑا پرندہ ہوں
ابھی جو ہوں مَیں، ضروری نہیں کہ کل بھی ہوں
مَیں آج چیل، تو کل فاختہ پرندہ ہوں
خموش رہتا، تو اُڑنے پہ بین لگ جاتا
سو چیخ چیخ کے کہتا رہا ’’پرندہ ہوں‘‘
مَیں کوئی عام پرندہ تو ہوں نہیں شادابؔ
بڑھاؤ دام کہ مَیں بولتا پرندہ ہوں
(شاداب خان، دُبئی)
اب کہاں ان کی وفا، یادِ وفا باقی ہے
ساز تو ٹوٹ گیا، اس کی صدا باقی ہے
تُجھ کو ظالم میرے ناکردہ گناہوں کی قسم
اور بھی دے دے، اگر کوئی سزا باقی ہے
جو برس جائیں، تو بہہ جائے خُدائی ساری
میری آنکھوں میں ابھی تک گھٹا باقی ہے
غم پہ غم سہہ کے بھی جینا ہی پڑے گا ہم کو
چند سانسوں کی ابھی اور سزا باقی ہے
(شگفتہ بانو، لالہ زار، واہ کینٹ)