• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیٹی بندر سے کشمور بلکہ کیماڑی تک سے ۔شہر تک پھیلے سندھ پر تالپوروں، کلہوڑوں اور مسمہ خاندانوں نے برسوں حکمرانی کی ہے ان کےعہد اقتدار میں اور پھر برٹش راج میں درجنوں ایسے خاندان سامنے آئے جو اپنے اپنے علاقوں میں بااثر ٹھہرے اور آج بھی محترم اور مقتدر اور موثر ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل جب سندھ بمبئی پریذیڈنسی کا حصہ تھا اور سندھ سے منتخب ارکان اسمبلی بمبئی کونسل میں سندھ کمشنری کی نمائندگی کرتے تھے تو معدودے چند لوگ ہی میدان سیاست میں نمایاں تھے لیکن 1937میں پہلی سندھ اسمبلی کے الیکشن ہوئے تو پہلی بار دیگر گھرانوں یا خاندانوں کو بھی ابھرنے اور نمایاں ہونے کا موقع ملا۔

 
شیخ عبدالمجید سندھی
شیخ عبدالمجید سندھی

قائد محمد علی جناح کے14نکات میں سندھ کو صوبے کی شناخت دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ پہلی سندھ اسمبلی میں کراچی سے ہاشم گزدر، ٹھٹھہ سے عثمان سومرو، یوسف چانڈیو ،کراچی سے خان بہادر اللہ بخش گبول، لاڑکانہ سے شیخ مجید سندھی، حیدر آباد سے میراں محمد شاہ، غلام علی تالپور ،بندے علی تالپور، غلام اللہ تالپور ،مخدوم غلام حیدر، تھرپارکر سے میرا اللہ تالپور، غلام نبی شاہ، ارباب توگاچی، نواب شاہ سے رسول بخش انڑ، نور علی شاہ، جام جان محمد جونیجو ،سید خیر شاہ، دادو سے پیر الٰہی بخش ،جی ایم سید، غلام محمد اسران، لاڑکانہ سے ایوب کھوڑو، امیر علی لاہوری، محمدخان چانڈیو سکھر سےقیصر بوذدار، شمس الدین پٹھان، عبدالستار پیرزادہ ،رسول بخش شاہ، جیکب آباد سے شیر محمد بجارانی، امین کھوسو،جعفر بلیدی کی اللہ بخش سومرو نوراور پورے سندھ سے زمینداروں کی واحد نشست پر شکار پور کے سر غلام حسین ہدایت اللہ کامیاب ہوئے تھے۔ 

میران محمد شاہ
میران محمد شاہ 

اس وقت تک ٹھٹھہ ، بدین، ٹنڈو محمد خان ،سانگھڑ میرپور خاص ،عمر کوٹ، نوشہرو فیروز، گھوٹکی، کندھ کوٹ ،شہداد کوٹ قمبر، جام شورو ،ٹنڈو والہیار ، مٹیاری اور سجاول کو ضلع کا درجہ نہیں ملا تھا۔ اور کراچی کی سات اضلاع میں تقسیم عمل میں نہ آئی تھی۔ اس لئے معدودے چند خاندان ہی افق سیاست پر جلوہ گر تھے بعد ازاں جب46ء میں قیام پاکستان سے قبل سندھ اسمبلی کے الیکشن ہوئے تو کچھ نئے خاندان نمایاں ہوئے،ٹھٹھہ سے پیر عالی شان ،خان بہادر فضل، لغاری، کراچی سے محمود ہارون، شکار پور سے آغا بدر الدین درانی، جیکب آباد سے رحیم بخش سومرو، سکھر سے عبدالستار پیرزادہ، گھوٹکی سے علی گوہر مہر، جیکب آباد سے سردار خان کھوسہ اسی ضلع سے جعفر خان جمگی، نور محمد بجارانی، لاڑکانہ سے قاضی فضل اللہ ،تھرپارکر سے، ان بہادر ،غلام محمد وسان ،نواب شاہ علی محمد مری، حاجی غلام نبی ڈہراج ،غلام رسول جتوئی، دادو سے قاضی محمد اکبر سندھ کی سیاست میں سامنے آئے ۔

پیر الٰہی بخش
پیر الٰہی بخش

قیام پاکستان سے قبل حلقے وسیع تھے اور سیاست پر بااثر خاندانوں کا غلبہ اور قبضہ تھا ۔لوکل بورڈ تک ہر عام آدمی کی کامیابی کے امکان نہ تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد جوڑ توڑ کی سیاست نے زور پکڑا، یہاں کی ضرورتوں کے تحت نئے اضلاع قائم ہوئے اور تحصیلیں و ڈویژن تشکیل پائے تو ان لوگوں کے بھی ایوانوں میں پہنچنے کی راہ ہموار ہوئی جو ماضی میں سندھ اسمبلی کے درودیوار کو حسرت سے تکا کرتے تھے۔ پیر علی محمد راشدی، ایوب کھوڑو کی سیاست کے اسرار و رموز کھل کر سامنے آتے ہیں، اور پتہ چلتا ہے کہ ریشہ دوانیوں کی سیاست نے کیا کیا گل کھلائے۔ 

سندھ اسمبلی اور سندھ سے قومی یا مرکزی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے نے بھی نئے خانوادوں کو پھلنے پھولنے کے مواقع دیئے۔ پہلی سندھ اسمبلی کی 62 نشستیں تھیں اور اب صوبہ کا ایوان 168ارکان پر مشتمل ہے جس میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں۔ صوبہ کی سیاست پر نگاہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ سندھ پر وڈیروں کا راج ہے اور یہ کچھ غلط بھی نہیں لیکن وڈیرہ لفظ تحقیر کا سبب نہیں۔ بلکہ یہ دیہات میں مثبت معنوں میں بھی لیا جاتا ہے۔ بزرگ سرپرست کے طور پر وہاں سماج میں موجود دیگر الفاظ کی طرح غلط افراد نے اس کے ٹائٹل کی حرمت کو متاثر ضرور کیا ہے۔

سورہیا بادشاہ
سورہیا بادشاہ 

سندھ کے شہروں یا دیہات تیزی سے رونما تبدیلیوں نے بہت کچھ الٹ پلٹ کیا ہے۔ پیر پگارا مرحوم کے الفاظ میں زبردست زیردست ہیں اور مقتدر، دربدر۔ مثلاً کراچی جو قیام پاکستان سے قبل سندھ یونائیٹڈ پارٹی کا گڑھ تھا۔ آج اس کا کوئی نام لیوا نہیں ملتا۔ ہاشم گزدر فیملی کا کوئی رکن سیاست میں نہیں۔ اسی طرح ٹھٹھہ کے بادشاہ لغاری اور چانڈیو پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ تھرپارکر کے وسان، شکار پور کے شیخ غلام حسین ہدایت اللہ کا خانوادہ اور اسی ضلع کے اللہ بخش سومرو کے بیٹے پوتے اتنے مقتدر اور موثر نہیں رہے جتنا کہ ماضی میں تھے ان کا خلا دیگر خاندانوں نے پر کیا ہے جو آجکل مقتدر ،محترم اور موثر ہیں۔

کراچی کا مزاج جمہوری رہا ہے۔ یہاں سیاست پر خاندانی اثرات غالب نہیں بلکہ سیاسی پارٹیاں ان کا منشور اور انتخابی دعوے اور وعدے ہی ووٹر کو اپنی سمت متوجہ کرتے رہے ہیں۔ یہاں یونائیٹڈ پارٹی پھر قیام پاکستان سے قبل اور بعد مسلم لیگ غالب رہی۔ اک زمانے میں لیاری ،حاجی عبد اللہ ہارون اور اللہ بخش گبول کے انتخابی معرکوں کی شہرت رکھتا تھا لیکن اب ہارون فیملی سیاسی طور پر فعال نہیں البتہ گبول خاندان لوگ کے متحرک ہیں۔64ء کے صدارتی انتخاب میں یہ شہر مادر ملت کا ترجمان تھا اور 70میں اس شہر نے مسلم لیگ کونسل جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان اور پیپلز پارٹی کو اعتماد سے نوازا ۔77ءمیں عروس البلاد نے پی پی اور پی این اے کو پسندیدہ گردانا، غیر جماعتی الیکشن میں نظام مصطفیٰ، گروپ، جماعت اسلامی اور آزاد ارکان85ءکا الیکشن جیتے۔ 88ء کے انتخاب سے 2013ء تک یہ شہر متحدہ قومی موومنٹ کے نعروں سے گونجتا رہا۔ 

اس دوران یہاں متحدہ مجلس عمل نے بھی کامیابی حاصل کی ۔ایم کیو ایم نے بائیکات کیا تو آزاد امیدوار بھی جیتے البتہ 2018 میں یہ شہر متحدہ ،پی پی پی اور تحریک انصاف کا شہر کہلایا جزوی کامیابی جماعت اسلامی اور تحریک لبیک پاکستان کو بھی ملی۔ کراچی کے پڑوسی ضلع ٹھٹھہ میں اب چانڈیو، لغاری اور سومرو ذاتی حیثیت میں اتنے موثر نہیں رہے جتنے کہ ماضی میں تھے۔ اب یہاں شیرازی خاندان طاقت ور ہے اور وہ پی پی ،ن لیگ کا حق آزاد حیثیت میں بھی کامیاب ہوتا رہا۔

ویسے یہاں میمن، پلیجو ،جلبانی ،ملتانی،خواجہ بھی طاقت ور ہیں،قوم پرست سیاست میں رسول بخش پلیجو مرحوم اور ڈاکٹر قادر مگسی بھی اسی ضلع کا بڑا نام ہیں۔

پڑوسی ضلع بدین میں مندرو، راہو، لغاری ،تالپور، درگاہ سمن سرکار کے سجادہ نشین علی بخش پپو شاہ، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، ہالیپوتہ وسیع اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔ ملحقہ ضلع ٹنڈو محمدخان میں بخاری سادات میراں مجدث شاہ فیملی کے مرحوم قمر الزمان شاہ کے صاحب زادے نوید قمر ،بچانی، تالپور،شاہ الیکشن جیتتے رہے۔ پڑوسی ضلع حیدر آباد کی شہری سیاست میں متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی قاضی فیملی، اثر ورسوخ رکھتی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام یہاں کی طاقت ور جماعت تھی لیکن دھڑے بندی اور تقسیم در تقسیم کے عمل نے اسکی قوت کو متاثر کیا لیکن مذہبی سیاست پر اسکی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

دیہی سیاست پر پی پی کا غلبہ ہے۔میمن، سید بادشاہ ،طاقت ور ہیں، حیدر آباد سے ملحقہ مٹیاری ،ضلع ہنوز مخدوم خاندان، جاموٹ فیملی کے زیر نگیں ہے۔ ہالہ حویلی کی مخدوم سرور نوح فیملی یہاں انتہائی طاقت ور ہے اور پی پی کا ووٹ بنک اسے مزید مستحکم کر دیتا ہے۔ البتہ مجددی اور آزاد فعال نہیں۔ مٹیاری سے جڑ ے ضلع سانگھڑ میں پیر پگارا کے اثرات غالب ہیں۔ وہ اپنے مریدین اور معتقدین کو انتخاب لڑاتے اور کامیاب کراتے رہے ہیں لیکن اب یہاں کچھ نئے سیاسی خاندان بھی متعارف ہوئے ہیں جن میں رند، ڈیرو، تھیم، وسان، شامل ہیں۔ بالخصوص ماضی میں پیر پگاڑا کی حمایت سے کامیاب ہونے والے عطا محمد مری کی صاحب زادی شازیہ مری پی پی کے پلیٹ فارم سے نمایاں ہیں۔

ٹنڈو آدم کی شہری سیاست میں غوری اور ملک بھی آگے بڑھے ہیں سانگھڑ سے متصل نواب شاہ میں جسے بے نظیرآبادکا نام دیا گیا ہے،زرداری فیملی کا اثر و رسوخ بڑھا ہے اور مقامی سطح پر شاہ بھی ہنوز طاقت ور ہیں۔ ویسے یہاں، چانڈیو، رند، مغل آرائیں ،جلبانی ،ڈاہری ، بروہی،انڑ اور دیگر گھرانے بھی موثر حیثیت کے مالک ہیں۔ تین عشرے قبل تک نوشہرو فیروز ضلع نہیں تھا اور یہ نواب شاہ میں ایک تحصیل کے طور پر شامل تھاتو جتوئی خاندان، دربیلو کے شاہ ،بروہی، عالمانی بھرٹ ،بیہن ضلع کی سیاست میں طاقت ور تھے پھر جب اسے علیحدہ ضلع کا درجہ ملا تو یہ خاندان نئے ضلع کی سیاست میں مزید طاقت ور ہو گئے ضلع خیر پور کو جو ضلع نوشہرو فیروز سے ملحق ہے،پیروں، میروں اور کھجوروں کا دیس کہا جاتا ہے۔ 

سچل سرمست، پیران پگاڑا ،گھڑوا، گمبٹ، رانی پور، کی درگاہیں، ماضی کے حکمران،تالپور اور کھجوروں کی فصل یہاں کی سوغات ہے،یہاں جیلانی ،سادات، وسان، مانھن ،کھرل، وسیع تر اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ سکھر میں شاہ ،ملک، شیخ، بلوچ اور بھٹو موثر ہیں۔ ماضی کی ملکی ستار پیرزادہ فیملی جو سندھ کے وزیر اعلیٰ بھی رہے تھے اب نمایاں نہیں۔ گھوٹکی قبائلی ضلع ہے، یہاں مہر، چاچڑ ،ڈہر ،بزدار ،دھاریجو ،شر ،لونڈ، پھر چونڈی انتخاب لڑتے اور جیتتے ہیں ان کی ترجیح میں سیاسی جماعتیں نہیں یہاں ایک ہی خاندان بیک وقت کئی کئی حکومتوں کو سپورٹ کرتا نظر آتا ہے۔ قبائل تنازعات کے باعث حلیف اور حریف کی بنیاد پر صف بندی ہوتی ہے۔

پی پی ۔فنکشنل لیگ کے اثرات غالب ہیں۔ ضلع شکار پور میں شیخ غلام حسین، ہدایت اللہ اور اللہ بخش سومرو کے بیٹے پوتے تو غیر نمایاں ہیں البتہ درانی، بھیو، پٹھان، شیخ، جتوئی، مہر قبائل طاقت ور ہیں اور ہر مرتبہ سیاسی اتحاد تشکیل دے کر جیتتے بھی رہتے ہیں۔ جیک آباد اور کندھکوٹ کشمور اضلاع کی سیاست پر اب جمالی نمایاں نہیں لیکن ڈومکی ،جکھرانی ،شاہانی، بجارانی، سندرانی، سرکی ۔کھوسہ ، مزاری ،فیملیاں موثر ہیں۔ شہداد کوٹ ،قمبر، لاڑکانہ اضلاع میں ایوب کھوڑو، امیر علی لاہوری، قاضی فضل اللہ کے خاندان تو طاقت ور نہیں ہے لیکن بھٹو، عباسی، مگسی، چانڈیو، اسران، سیال ،انڑر و کیہری جونیجو و دیگر نمایاں ہیں۔ 

پیر الٰہی بخش
پیر الٰہی بخش

پڑوسی اضلاع دادو، جامشورو، میں پیر الٰہی بخش خاندان تو سیاسی طور پر نمایاں نہیں لیکن اسی خاندان کے پیر مظہر الحق، جتوئی ،بھٹ، جمالی، ملک ،جیلانی ،شورو، خاض خیلی ،پنہورفعال اور مقتدر مناصب پر فائز ہیں۔ تھرپارکر میں خان بہادر غلام وسان اور ارباب تو گاچی بڑا نام تھے اب یہاں ارباب ، راکھوں، بھرگڑی ،تالپور، سید شاہ، کولہی ،رانا و دیگر خاندان سیاسی سیٹ اپ کا حصہ ہیں۔ میرپور خاص کی شہری سیاست پر حیدر آباد سکھر اور نواب شاہ، کی طرح متحدہ قومی موومنٹ بھی اثرات رکھتی ہے۔ ٹنڈو الہ یار کا مگسی خاندان، شاہ جیلانی وسیع اثر و رسوخ کے مالک ہیں ویسے یہاں پتافی، رضوی سادات بھی موثر ہیں۔

صوبے کی سیاست کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو جاگیر دانہ اثرات کے باعث یا سیاسی پارٹیاں بھی طاقت ور افراد کو سپورٹ کرتی نظر آتی ہیں۔ کامیاب افراد منشور کی بجائے ذاتی اثر و روسوخ کو اہم تصور کرتے ہیں۔ سمجھوتے اور مفاہمت کی سیاست نے شعوری آگہی کو بڑھنے سے روکا ہے۔ یہی سبب ہے کہ سندھ یونائیٹڈ پارٹی، مسلم لیگ، ری پبلکن، کنونشن، پیلیم پارٹی، جونیجو لیگ، فنگشنل لیگ، ق لیگ سے لیکر تحریک انصاف تک وڈیرے اور بااثر افراد جیتنے کیلئے کسی پلیٹ فارم کے انتخاب میں تاخیر کے قائل نہیں۔ 

خان بہادر اللہ بخش گبول نے ایک بار کہا تھا کہ ’’جس طرح دریائے سندھ اپنا رخ اکثر و بیشتر بدلتا رہتا ہے اسی طرح اس کے کنارے آباد اور اس کا پانی پینے والے بھی آئے دن نئے رنگ اختیار کرتے رہتے ہیں۔ اور ان کی کسی روش میں ثبات و استحکام کی روح نظر نہیں آتی ہے۔ ویسے سچ یہ ہے کہ دریائے سندھ نے اتنے رخ نہیں بدلے جتنے کہ تیزی سے سندھ کی سیاست نے راستے تبدیلی نہیں کئے ہیں۔

سندھ کے سید بادشاہ محترم ، مکرم، معظم، محتشم

ارض مہران کی سیاست میں سب سے طاقتور فیکٹر سیدوں کا ہے صوبہ میں احترام بھی ان ہی کا بہت زیادہ کیا جاتا ہے ویسے تو سادات کی مختلف شاخیں ہیں مثلاً رضوی، جیلانی، سبزواری، مشہدی، بخاری، شیرازی، حسینی، راشدی اور زیدی وغیرہ سندھ میں جابجا آباد ہیں اور علاقائی سطح پر بھرپور اثرورسوخ رکھتے ہیں 1936ء سے 2018ء تک شیخ، کھوڑو، تالپور، سومرو، بھٹو، جتوئی، مہر، ارباب، میمن و دیگر صوبے کے سب سے بڑے منصب یعنی وزارت اعلیٰ پر براجمان رہے لیکن ان سب میں طویل دورانیہ سید بادشاہوں کا ہے۔ 

غوث علی شاہ، عبداللہ شاہ، قائم علی شاہ (دومرتبہ) علی مدد شاہ، مراد علی شاہ (دو مرتبہ) نے یہ منصب سنبھالا۔ پرویز علی شاہ 93ء میں وزیراعلیٰ بنتے بنتے رہ گئے۔88ء کے الیکشن کی سندھ اسمبلی میں تو یہ بھی ہوا کہ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ اور اپوزیشن لیڈر امداد محمد شاہ دونوں ہی ’’سید بادشاہ‘‘ تھے آج بھی ٹھٹھہ کے شیرازی، ٹنڈوالٰہ یار کے رضوی، خیر پور کے جیلانی، ٹنڈو محمد خان کے بخاری، پیر گوٹھ کے راشدی، بدین ، نوشہرو فیروز کے دربیلائی کے سادات بھی حددرجہ محترم تسلیم کئے جاتے ہیں برٹش دور میں اور اس سے قبل تالپور، کلہوڑا اور مسلمہ دور میں ملنے والی جاگیریں ان کا ذریعہ معاش ہیں اور مریدین کے عطیات و نذرانہ بھی ان کا طرز زندگی عام آدمی مع منفرد و ممتاز رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ 

پیر صبغت اللہ راشدی
پیر صبغت اللہ راشدی 

مخصوص لباس، تاج شاہراز بغیت کی عبا اور دستار کے باعث دور سے پہچانے یا شناخت کئے جاتے ہیں۔ مقامی سطح پر خانقاہی نظام کی جڑیں مضبوطی سے موجود ہیں اس لئے الیکشن میں خلفاء کے ذریعے مریدین کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ پیر صاحب کے نامزد کردہ امیدواروں کو کامیاب بنائیں اس لئے یہ بادشاہ گر کا درجہ بھی اختیار کرگئے ہیں باہمی رقابتوں کے باوجود اجتماعی معاملات میں ان کی سوچ اور فکر یکساں ہوتی ہے۔ 

صوبہ میں موجودہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، پیران پاگارہ اور مٹیاری کے حسینی سادات کا تعلق سادات کی لک علوی شاخ سے ہے جو لکیاری کہلاتے ہیں۔ ایک زمانے میں لکیاری سادات کی ایسوسی ایشن کے سربراہ شہاب الدین حسینی تھے جو مختلف سیاسی جماعتوں کا حصہ رہے لیکن ان کے روابط سادات کے تمام گھرانوں سے تھے آج بھی سندھ میں سادات طاقتور اور محترم ہیں۔

سیاسی طور پر مقتدر مگر منتشر کچھ خاندان

سندھ میں درجنوں قبائل مختلف اضلاع میں آباد ہیں سیاسی طور پر بااثر ہونے کے ناطے تصور کر لیا جاتا ہے کہ یہ ایک ہی خاندان ہیں بلاشبہ قبیلہ ایک ہے لیکن ان کے اپنے اپنے نظریات اور سیاسی وابستگیاں ہیں مثلاً دادو میں ’’بیٹو‘‘ نامی قصبہ کے جتوئی اور نیو جتوئی ضلع نوشہرو فیروز کے جتوئی کئی موقعوں پر ایک دوسرے کے سیاسی مخالف بھی رہے ہیں اوّل الذکر میں حمید جتوئی ان کے صاحبزادگان لیاقت اور مرحوم اعجاز نمایاں ہیں لیاقت جتوئی سندھ کے وزیراعلیٰ بھی رہے ہیں اسی طرح نیو جتوئی کے غلام مصطفی جتوئی سندھ کے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم پاکستان بھی رہے۔ 

اسی طرح گھوٹکی کے سردار غلام محمد مہر اور ان کے خاندان شکارپور کے غوث بخش مہر ہم قبیلہ ہیں البتہ گھوٹکی کے مہر سرداری گھرانہ ہیں اور دونوں فیملیز سیاسی طور پر بھی منقسم ہیں۔ ٹھٹھہ دادو، نواب شاہ اور لاڑکانہ کے چانڈیو قرابت دار نہیں لاڑکانہ کے سردار چانڈیو کالنس تعلق غیبی خان چانڈیو سے ہے جو سردار فیملی ہے باقی ان کے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں موجود ہ سردار کے دادا احمد سلطان چانڈیو بھی ان کے صاحبزادے شبیر چانڈیو ایک الیکشن میں مدمقابل بھی تھے ٹھٹھہ، دادواور گھوٹکی کے لغاری بھی دادو، ڈیرہ مراد جمالی اور جیکب آباد و نواب شاہ کے جمالیوں کی طرح قرابت دار تو نہیں البتہ ہم قبیلہ ہیں اور بیک وقت مختلف جماعتوں کے پلیٹ فارم سے کامیاب بھی ہوتے رہے ہیں۔ 

ایسا ہی دادو، جیکب آباد اور کئی دیگراضلاع کے پنہور قبیلے کا معاملہ ہے جو صدیوں سے ان مقامات پر آباد ہیں اپنے اپنے حریف اور حلیف قبائل کے ساتھ سیاسی اشتراک عمل رکھتے ہیں۔ نواب شاہ، شکار پور کے بروہی، خیر پور اور گھوٹکی کے شہر، دادو اور نواب شاہ کے جلبانی بھی سانگھڑ، شہید بے نظیر آباد اور مٹیاری کے ڈاہری خاندانوں کی طرح ان کے علاقے میں وسیع اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ سندھ میں سب سے طاقتور تالپور بھی ہیں جو ایوانوں میں اپوزیشن اور ٹریژری بینچز کاحصہ ہوتے ہوئے صوبہ میں حکمرانی کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے سندھ کا سابقہ حکمران خاندان عہد گم گشتہ کی یادگار ہے اور اپنے وجود کو برقراررکھے ہوئے ہے۔

سندھ کی سیاسی تاریخ قوم پرستوں کے بغیر نامکمل

سندھ کی سیاسی تاریخ قوم پرستوں کے تذکرہ کے بغیر نامکمل ہے۔ سائیں جی ایم سید، حیدر بخش جتوئی کو صوبہ میں قوم پرست سیاست کے بانیوں میں گنا جاتا ہے۔ سائیں تو قیام پاکستان سے قبل سندھ اسمبلی کے رکن رہے لیکن 46ء کے الیکشن میں حیدر آباد کے قاضی محمد اکبر سے اپنے آبائی ضلع دادو میں شکست کے بعد انہوں نے قوم پرست سیاست کا احیاء کیا اور ون یونٹ کے خلاف تحریک سے سندھو دیش کے نعرے تک اپنے مؤقف پر اٹل رہے وہ خود تو70ء کا الیکشن ملک سکندر سے ہار گئے لیکن بعد کے ادوار میں ان کے صاحبزادگان امداد محمد شاہ نے سکرنڈ، امیر حیدر شاہ نے دادو سے الیکشن جیتا پھر جلال محمود شاہ بھی دادو کے آبائی حلقے سے ہی کامیاب ہوئے۔ 

جی ایم سید
جی ایم سید 

اس طرح قوم پرست سیاست کا ایک اور بڑا نام ممتاز علی بھٹو سے ان کے صاحبزادے امیر بخش بھٹو بھی لاڑکانہ کے آبائی حلقے سے کئی بار فتح یاب ہوئے یہ دونوں خانوادے اپنے اپنے شخصی اثرات اورآبائی اثرورسوخ کے باعث ایوانوں میں پہنچے لیکن ان ہی کے ساتھی اور قوم پرست سیاست میں صوبے پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے رسول بخش پلیجو، ان کے بیٹے ایاز لطیف پلیجو، ڈاکٹر قادر مگسی، دودو میہسری، نواب یوسف تالپور، جام ساقی، واحد آریسر، قمر راجپر،کہکشاں بھرکڑی، شاہ محمد شاہ اور حفیظ پیرزادہ قوم پرست پلیٹ فارم سے ہمیشہ ناکام رہے یوسف تالپور نے سندھ بلوچ پختون کنفیڈریشن فرنٹ چھوڑ کر پی پی جوائن کی تو کئی بار قومی اسمبلی کے اور ان کے صاحبزادے سندھ اسمبلی کے نہ صرف رکن چنے گئے بلکہ وزارت کا منصب بھی سنبھالا۔ 

جام ساقی سمیت کئی قوم پرستوں نے بالآخر پی پی جوائن کی اور مشیر سمیت کئی عہدے حاصل کئے اس طرح پی پی سے استعفے کے بعد حفیظ پیرزادہ قوم پرست سیاست کی سمت آئے تو پارلیمانی الیکشن نہ جیت سکے حالانکہ 73ء کے آئین کے خالق اور گوں ناگوں صلاحیتوں کے حامل شخص کا ایوانوں میں پہنچنا صوبہ اور قوم پرست سیاست کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتا تھا۔ سندھ میں قوم پرست سیاست مقبول، لیکن سیاستدان ناکام ۔

سندھ کے پیر

سندھ میں عربوں کے اثرونفوذ سے قبل اور بعد میں حجاز مقدس سے آنے والے سادات وغیرہ سادات بالخصوص قریش النسل خانوادوں نے مقامی سطح پر اپنا اثرونفوذ مستحکم کیا مقامی باشندوں کی مقامات مقدسہ سے انسیت اور خاندان رسول سے عقیدت نے ان جذبات کو بڑھاوا دیا یہی سبب ہے کہ صوبہ میں پیری مریدی کا ادارہ طاقت ور اور وسیع اثرات کا حامل نظر آتا ہے۔ زیادہ تر گدی نشین تو سادات ہی ہیں ؟؟ 

درگاہ پیران یا گارا، خیرپور کی درگاہ غوثیہ، تھر کی خانقاہ کامارو شریف، سن کی درگاہ حیدر شاہ، نیو سعید آباد کی درگاہ جھنڈا شریف، درگاہ عالیہ گھٹ لیکن ایسا بھی نہیں کہ تمام سجادہ نشین سادات ہی ہوں خیرپور کی درگاہ سچل سرمت کا خاندان فاروقی النسل ہے، ہالہ کے مخدوم صدیقی النسب اور حضرت سیدنا صدیق اکبر سے سلسلہ جا ملتا ہے اسی طرح کھوڑہ شریف کے سجاد گان ہاشمی اور درگاہ عالیہ غوثیہ ملتان کے پیر صاحبان قریشی ہیں۔

درگاہ غوث بہاء الحق ملتانی کے مریدین سندھ میں سانگھڑ، عمر کوٹ، تھر، شکارپور، گھوٹکی، لاڑکانہ میں بکثرت آباد ہیں اسی طرح پیران پاگارہ کے مریدین میں کراچی کے علاقہ رنچھوڑ لائن کی سلاوٹ برادری کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب اور ہندوستان میں تھر سے ملحقہ راجستھان شامل ہیں بلکہ پیرپگارو کے 12 خلفاء میں سے ایک کا تعلق جیسلیمر سے ہے۔ 

جنوبی سندھ کی درگاہ شریف، امروٹ شریف، دادو کی نینگ شریف کے سجادگان سید جبکہ لاڑکانہ کی ؟؟ شوری کے پیر صاحبان بلوچ ہیں۔ درگاہ لواری شریف کے پیر صاحبان بھی صدیقی اور قاضی احمد کی درگاہ کے سجادہ نشین قریشی ہیں۔ سیاسی طور پر یہ مختلف جماعتوں کا حصہ ہیں ماضی کی نسبت ان کی پسند ناپسند پر شکست و فتح میں تو کمی آئی ہے لیکن اسکے باوجود ان کے اثرات سے انکار ممکن نہیں کہ آج بھی یہ درگاہیں، خانقاہیں اور ان کے سجادگان اپنے مریدوں، معتقدوں کیلئے محترم، مکرم، معظم اور محتشم ہیں اس کے علاوہ بھی ہالیجی، بائی جی، سوئی اور بھرچوئڈی کی درگاہیں وسیع اثرات کی حامل ہیں ہالیجی کے پیران ھڑادیہ بھرچوئڈی کے سمیت برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں ویسے یہ موضوع خود ایک تفصیلی مقالے کا مقتاضی ہے۔

سندھ کی طلبا تحریک، مؤثر اور نتیجہ خیز

قیام پاکستان سے قبل صوبہ میں تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر تھے طلبا کو امتحان دینے میں مشکلات کا سامنا تھا معدودے چند بیرسٹر، بہت کم گریجویٹ اور شرح خواندگی بھی قابل تشویش تھی۔ سندھ مدرسۃ الاسلام ٹنڈو باگو نیز نوشہرو فیروز کی تعلیم گاہیں حسن علی آفندی، غلام محمد تالپور اور سید الہندو شاہ نے قائم کیں بعدازاں سندھ یونیورسٹی کی کراچی سے حیدرآباد منتقلی اور 70ء کے عشر ے میں سندھ یونیورسٹی، مہران یونیورسٹی، قائد عوام یونیورسٹی، لیاقت میڈیکل کالج، چانڈکا میڈیکل کالج کے قیام نے بھی سندھ میں فروغ تعلیم کو عروج بخشا اور یہاں زیر تعلیم اور فارغ التحصیل نوجوان صوبہ کی سیاست کا اثاثہ و سرمایہ ہے۔ 

ایوب دور میں تعلیمی اصلاحات اور اُردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کی مخالفت ، کراچی سے طلبا کی شہر بدری پھر ون یونٹ مخالف ہوئی اور ایوب حکومت کے خلاف 68ء کی موومنٹ کے دوران کئی طلبا تنظیمیں معرض ِ وجود میں آئیں۔ سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن، ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن، سندھ مارواڑ اسٹوڈنٹس فیڈریشن، جئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن، سندھ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن، سندھی شاگرد تحریک نے طلبا، مزدوروں اور کسانوں میں کام کیا ہاری تحریک جو جمشید مہتا، حیدر بخش جتوئی کی کوششوں سے طاقتور تھی شیخ ایاز کی شاعری، سندھ کے ادیبوں کی تحریروں کے باعث مزید طاقتور ہوئی۔ 

نواب یوسف تالپور، یوسف شاہین، عزیزبھنگوار، متارو ڈاہری، سلیمان ڈاہری، جام ساقی، حلیم باغی، اسماعیل وسان، حفیظ شیخ، عاجز دھامرہ، واحد آریسر، بشیر قریشی، قادر مگسی، ایاز لطیف پلیجو، رسول بخش پلیجو، یوسف لغاری، گل محمد جکھرانی، شاہ محمد شاہ، ابوبکر زرداری، یٰسین نظامانی، قابل ڈاہری، عثمان خان نوری، یونس تھیم سمیت متعدد نام ملتے ہیں جواپنے اپنے عہد میں نمایاں ہوئے کچھ نے عملی سیاست میں قدم رکھا اور متعدد گوشہ تنہائی میں چلے گئے لیکن ان کے تاریخی کردار کو فراموش کرنا ممکن نہیں کہ وہ سندھ کی طلبا سیاست کا سرمایہ و اثاثہ تھے گویا گوہر کمیاب اور جوہر نایاب، افسوس کہ اب طلبا سیاست میں بڑے نام موجود نہیں۔