بارات آچکی تھی، نکاح ہوچکا تھا‘ اب ایک وسیع میدان میں کھانا کھلانے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ لوگ کرسیوں پر بیٹھ رہے تھے کہ سڑک پر ایک یکہ آکر رُکا اور اس سے ایک بوڑھی سواری اُتری۔ اس کے پاؤں میں پلاسٹک کی چپل تھی جس کے پٹے کئی جگہ سے موچی کی اعلیٰ کاری گری کا نمونہ ظاہر کر رہے تھے۔ چپل کے ساتھ ساتھ پیر بھی گرد سے اٹے ہوئے تھے۔
کمر پر پاجامہ لٹک رہا تھا مگر مَٹ میلے رنگ کا۔ یہ اس کا اپنا رنگ نہیں تھا بلکہ وقت کی تمازت سے اس کی جلد کی طرح اُس کے پاجامہ کا رنگ بھی بدل گیاتھا۔ بدن پر قمیص اور اس پر ایک سفید کھادی کی صدری تھی جو گرد کھاتے کھاتے سیاہ مائل ہوگئی تھی۔ بال کچھ سفید ، کچھ کالے مگر سوکھے، میلے اور آپس میں اُلجھے ہوئے تھے۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑے ہوئے تھے۔ دیدے اندر کی طرف دھنسے ہوئے تھے لیکن چہرے کی ہڈیاں اُبھری ہوئی تھیں۔
اُس کی نگاہیں کچھ تلاش کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔ اس نے ماحول کا بھرپور جائزہ لیا اور اس کے قدم دعوت گاہ کی طرف بڑھنے لگے۔ لوگ اُس کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اس طرح راستہ چھوڑنے لگے جیسے کوئی زہریلا سانپ اُن کو ڈسنے کے لئے ان کی طرف لپک رہا ہو۔
مہمان کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔ صرف ایک کونے میں ایک کرسی خالی پڑی تھی، وہ بھی شائد اس لئے کہ اس کی چولیں ڈھیلی تھیں۔ وہ مفلس مہمان اسی کرسی پر سنبھل کر بیٹھ گیا اور کھانا لگنے کا انتظار کرنے لگا۔
اِسی اثناء میں ایک امیر نو جوان وارد ہوا۔ اس کا قیمتی اور خوبصورت سوٹ اس کی کار کے رنگ سے میل کھا رہا تھا۔ وہ بہت جلدی میں تھا۔ وہ جلد سے جلد کھانا کھانے کی زحمت سے چھٹکارا پانا چاہ رہا تھا لیکن تمام کرسیاں پہلے سے ہی بھری ہوئی تھیں۔
وہ وہاں کھڑے ہوئے ایک اسمارٹ سوٹ بوٹ والے لڑکے پاس گیا اور آہستہ سے کچھ کہا۔ اِس پر اُس کی نگاہیں اِدھر اُدھر گھومنے لگیں اور اِس طرح اُس بوڑھے مہمان پر آکر رُک گئیں جیسے وہ غیر قانونی طور پرسرحد پھاند کر اس کے ملک میں گھس آیا ہو۔
’’ایں! یہ بڈھا کون ہے؟ یہ کہاںسے گھس آیا؟‘‘ ۔ زیر لب بڑ بڑاتے ہوئے وہ آگے بڑھا اور اس کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا۔
’’ابے تو یہاں کیسے بیٹھ گیا۔ چل باہر، ابھی کھانا بھجواتا ہوں۔ نہ جانے کمبخت کہاں سے چلے آتے ہیں۔ چل اُٹھ شرافت سے… اُٹھ جا، نہیں تو ابھی تیری کمر پر جوتے کی ٹھوکر مار کر اُٹھائوں گا۔‘‘ بڈھا حیرت سے اُس کا منہ تک رہا تھا۔ اُس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ماجرا کیا ہے؟ ابھی وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ وہ نو جوان پھر اُس پر برس پڑا۔
ابے جائے گا یا نہیں؟ یا بتاؤں پھر؟ بے شرم کہیں کا! اوقات زمین کی، بیٹھا ہے کرسی پر۔چل باہر جاکر لائن میں لگ جا! ‘‘
اُس کی یہ بے عزتی دیکھ کر میرا دل بے چین ہورہا تھا۔ میں حیرت زدہ تھا کہ یہ کیسی مہمان نوازی ہے؟ یہ کیسا سلوک ہے! یہ سلوک تو کسی بھکاری کے ساتھ بھی نہیں ہو نا چاہیے لیکن یہ تو بھکاری نہیں ہے۔ قطعی نہیں ۔ اگر یہ بھکاری ہوتا تو اس کی اتنے بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کی ہمت نہ ہوتی۔ یہ تو مہمان لگتاہے۔ البتہ مفلس ہے۔ اس کی رشتہ داروں نے شادی میں بلانے کو بلا تو لیا لیکن کسی نے بھی معمولی طور سے بھی اسکا خیر مقدم نہیں کیا۔
ابھی میں اس کے بارے میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ میرے کانوں سے ایک آواز ٹکرائی۔’’اے اللہ!
اس پر ایک لمحہ کے لئے کچھ لوگوں کے کان کھڑے ہوئے، نظریں اُٹھیں اور دماغ نے سوال کیا کہ یہ کیا ہوا؟ مگر لمحہ گذرتے ہی، پھر سب اپنے اپنے کام میں لگ گئے۔ کھانے میں، باتیں کرنے میں، استقبال کرنے میں، لیکن میرا دل نہ مانا۔ میں باہر کی طرف لپکا۔ وہاں جاکر کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے سڑک پر وہ مفلس بوڑھا مہمان منہ کے بل گرا پڑا ہواہے اور اس کی ناک سے خون بہہ رہا ہے!!!
( بھارت سے موصول افسانہ نگار آکاشوانی و دوردرشن (بھارت) کے سابق آئی بی ایس افسرہیں)