حافظ شیرازی نے کوئی ساڑے چھ سو سال پہلے کہا تھا کہ کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں کوئی مردہ پرندہ بھی آ جائے تو وہ اس روح پر ور فضا میں زندہ ہوجائے ، قائداعظم محمد علی جناح 74سال پہلے کہہ گئے کہ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ‘‘ ہے ، یقیناً مقبوضہ کشمیر کی آزادی پاکستان کی آزاد پانیوں، سی پیک ، ڈیموں کی تعمیر ، معدنیات کے حصول ، سیاحتی کاروبار اور معیشت کی کامیابی کی ضمانت ہے، ہندوستان کی تقسیم کے فوری بعد پاکستان اور انڈیا کے مابین کشمیر پر جنگ چھڑی تو 1948ءمیں اس تنازع کے حل کیلئے اقوام متحد ہ میں دو قرار دادیں منظور ہوئیں، جن میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا گیا اور تجویز دی گئی کہ کشمیر یوں کو رائے شماری کا موقع فراہم کیا جائیگا ،اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ نے پاکستان اور انڈیا سے کشمیر سے اپنی اپنی افواج نکالنے کا مطالبہ کیا اور کہاکہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کےذریعہ جموں و کشمیر کے متنازع علاقے کے الحاق کا فیصلہ کیا جائیگا ۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود پاکستان آج تک مسئلہ کشمیر پر قراردادیں اقوام متحدہ کے کسی پلیٹ فارم پر پیش کرنے میں ناکام رہا ہے حالانکہ ماضی میں درجنوں مواقع ایسے آئے جب پاکستان اقوام متحدہ کو مجبور کر سکتا تھا کہ وہ مقبوصہ کشمیر میں ریفرنڈم کروائے۔اس ضمن میں’’مشرقی تیمور‘‘ایک اہم ترین مثال ہے جہاں اقوام متحدہ کے ذریعہ ریفرنڈم کروایا گیا، جس میں انڈونیشیا کو اقوام متحدہ نے غاصب اور جارح قرار دیا تھا ۔ 5اگست 2019ء کو انڈیا کی ’’بی جے پی‘‘ حکومت نے انڈین آئین کی شق 370کے خاتمہ کا اعلان کر دیا جس کے تحت ریاست جمو ں وکشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کا خاتمہ ہو گیا ، اب ریاست جموں و کشمیر کی جگہ یہاں دو علاقے بن جائینگے ایک کا نام جموں وکشمیر اور دوسرے کا نام لداخ ہو گا جنہیں مرکز کے تحت گورنر چلائیں گے ، سوال یہ ہے کہ اب جبکہ بانی پاکستان محمد علی جناح کے فرمان کے مطابق جو پاکستان کی شہ رگ تھی وہ تو بھارت نے ایک ہی جھٹکے میں کاٹ کر علیحدہ کر دی لیکن پاکستان میں کوئی ہلچل نہ ہوئی بلکہ حیرت انگیز اور افسوسناک بات یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم پاکستان مذکورہ بھارتی اقدام سے صرف دس روز پہلے 25 جولائی 2021 کو امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ اپنی ملاقات کے بعد پاکستان واپس لوٹے تو میڈیا ٹاکس میں مسئلہ کشمیر پر بیان دیا کہ ’’ مجھے یوں لگتا ہے میں امریکہ سے ورلڈکپ جیت کر آیا ہو ں ‘‘ چنانچہ 10روز بعد پاکستانیوں اور کشمیر یوں کو پتا چلا کہ عمران خان کشمیر کو ہمیشہ کیلئے بھارت کی جھولی میں ڈالنے کا حکم مان کر ورلڈ کپ جیتنے کی نوید سنا رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی کشمیر کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کے کسی فورم پر بھی کوئی قرار داد پیش کرنے میں بُری طرح ناکام رہا ہے۔ آج تک پاکستان کی طرف سے اگر کوشش کے ضمن میں کوئی جدوجہد نظر آتی ہے تو وہ زبانی جمع خرچ یا بیانات کی حد تک ہے حتیٰ کہ کشمیر جو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے اور جس کی براہ راست ذمہ داری برطانیہ پر عائد ہوتی ہے ، یہاں لندن میں بھی پاکستان یا مقبوضہ کشمیر پر سیاست کرتی کشمیریوں کی انگنت تنظیمیں گزشتہ ساٹھ ستر سال سے یہاں میڈیا کی زنیت بننے کے سوا اور کچھ کرنے یا برطانوی حکومت سے کچھ منوانے میں بری طرح ناکام رہی ہیں ،یہ تنظیمیں جومبینہ طور پر کسی نہ کسی بڑے پلیئر ، کے دیئے ہوئے فنڈز پر چلتی تھیں اور لندن سمیت برطانیہ کے سبھی شہروں میں موجود تھیں آرٹیکل 370 کا خاتمہ ہوتے ہی اپنے تمام تر جوش و خروش کو سمیٹ کر نابود ہو چکی ہیں کیونکہ فنڈز کی سپلائی لائن کٹتے ہی ان کے جذبے بھی ماند اور یخ بستہ ہیں ان تنظیموں میں سے بہت سی تو ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کرتی تھیں لہٰذا اب ان کی ضرورت نہ ادھر والوں کو ہے اور نہ اُدھر والوں کو !! بھارت نے آرٹیکل 370ختم کیا تو اس کے ساتھ ہی صدارتی حکم کے تحت اس میں شامل دفعہ 35-Aبھی ختم ہو گئی جس کے تحت ریاست کے باشندوں کو مستقل شہری ہونے کے حقوق حاصل تھے اور اسی دفعہ کے تحت جموں و کشمیر سے باہر کا کوئی بھی شہری ریاست میں کسی قسم کی جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا تھا نہ کوئی ملازمت یا کاروبار کر سکتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہو گا ، پچھلے 74سال سے ’’ کشمیر ہماری شہ رگ ہے ‘‘ اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘ جیسے روح کو گرمانے والے نعرے لگانے والا پاکستان او ر کشمیر کے نام پر مال بنانے والی تنظیمیں اور نام نہاد ثنا خوان ِ کشمیر اب کہاں ہیں ؟ یوں لگتا ہے آرٹیکل 370 اور دفعہ 35اے کے خاتمہ کے بعد ریاست جموں وکشمیر کے باشندوں کی حالت آج سے بھی زیادہ نا گفتہ بہ ہے۔ یہ وادی اب فلسطین کا منظر پیش کرے گی ریاست کے باشندوں کو غیر کشمیریوں کی بڑی تعداد میں آباد کاری کا سامنا ہو گا خصوصاً کشمیری مسلمان اپنے ہی وطن میں آہستہ آہستہ اقلیت بن کر مزید مصائب کا شکار ہوں گے ، ہم آج تک واشگاف الفاظ میں سنتے آئے تھے کہ اقوام متحدہ اپنی ہی طے کردہ قرار دادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل نہیں کروا رہا اور برطانیہ بھی کشمیر یوں کو ان کا حق ِخودارادیت دلوانے میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہا لیکن صد حیف کہ اب مذکورہ جملے کہنے والا پاکستان بھی ہلکے پھلکے بیانات پر گزارہ کررہا ہے اور قبضہ کرنے والے شہ رگ کاٹنے کے بعد پوری باڈی ، پر قابض ہو چکے ۔ کشمیر کو شہ رگ ماننے اور سمجھنے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ قوموں کی تقدیر بنانے اور آزادی حاصل کرنے کے تقاضے بڑے کٹھن ،جاں گسل اورمنہ زورہوتے ہیں لیکن اس کے حصول کیلئے خوش کن نعروں اور ماضی کی یادوں کے آتش دان کے سامنے بیٹھے رہنا جستجو کے خوگروں کو زیب نہیں دیتا بلکہ آگے بڑھ کر سنگلاخ چٹانوں سے دودھ کی نہریں نکالنے کا فن ہی جنوں اور پھر آزادی کی ضمانت ہوا کرتا ہے !!