• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال :۔ ہمارے خاندان میں چھ بھائی، ایک بہن اور والدہ ہیں، والد صاحب نے 1955ء میں کپڑے کی ایک دکان قائم کی ، والد صاحب ضعیف ہو گئے تو ایک بیٹا 1974ء میں والد صاحب کا کاروبار سنبھالنے کے لیے شریک ہوا، دوسرا بیٹا 1982ء میں اور تیسرا بیٹا 1983 ء میں کاروبار میں شریک ہوا ، گھر پر مشترکہ رہائش اور کھانا پینا چل رہا تھا، ایک مکان بھی والد صاحب کے نام تھا، جس میں سب کی رہائش تھی۔ مسلسل محنت کے بعد پانچ اور دکانوں کا اضافہ ہوا، جو اسی کپڑے کی دکان کی آمدنی سے خریدی گئیں، یہ والد نے کسی بیٹے کو دی نہیں تھیں اور ایک بہن کی شادی بھی اس مشتر کہ آمدنی کی رقم سے انجام پائی، بقیہ تین بھائی 1980 ء 1981 ء،اور 1982 ء میں ملک سے باہر چلے گئے اور کاروبار میں شریک نہیں ہوئے۔ پھر والد صاحب کے انتقال کے بعد سب سے پہلے کاروبار میں شریک ہونے والے بھائی نے بقیہ دو بھائیوں سے 2003 سے 2013 تک 5/6لاکھ روپے قسطوں میں لے کر ایک ایک دکان(واضح رہے کہ یہ دکانیں والد کی دکان کی مشترکہ آمدنی سے خریدی گئی تھیں) دونوں بھائیوں کے نام پر الاٹ کر دیں۔ سب سے پہلے شریک بھائی نے اپنی تین بیٹیوں کی شادی بھی انجام دی ۔ بقول ان کے مشتر کہ کاروبار میں 2001 میں 18 لاکھ کا نقصان ہوا تو انہوں نے باقی ورثاء کے علم میں لائے بغیر والد صاحب کی قائم کردہ اصل دکان 7 لاکھ روپے میں، اور بعد میں مشتر کہ آمدنی سے بنائی ہوئی پانچ دکانوں میں سے دو دکانیں 7 لاکھ روپے میں ایک، یعنی کل 14 لاکھ روپے میں فروخت کر دیں اور بقول ان کے 3 لاکھ روپے ابھی بھی قرض داروں کے بقایا ہیں، جنہیں ادا کرنا ہے۔اب تین بھائیوں کی الگ الگ ایک عدد دکان ہے اور تینوں کے گھریلو اخراجات بھی الگ الگ اور آمدنی بھی الگ ہے۔

1) اس ضمن میں سوال یہ ہے کہ ایک بنیادی دکان 1955 ء سے والد صاحب کے نام تھی، اور والد محترم 1997ء میں وفات پا گئے، اور اسے 2011ء میں 7 لاکھ روپے میں فروخت کیا جا چکا ہے، اس کی میراث کی تقسیم کا کیا معاملہ ہو گا ؟

2)والد صاحب کے نام الاٹ کردہ مکان میں تین بھائی اپنی فیملیوں کے ساتھ رہائش پذیر تھے ،جس میں ایک بھائی کمروں اور باتھ روم کی تنگی کی وجہ سے گزشتہ ایک سال قبل مشتر کہ مکان کو چھوڑ کر کرایہ کے مکان میں چلے گئے ہیں، ابھی دو بھائی اور والدہ محترمہ اس مکان میں رہائش پذیر ہیں۔ اس مکان میں میراث کی تقسیم کا کیا معاملہ ہوگا؟

3)والد صاحب کے نام اس الاٹ کر دہ مکان میں سے ملک سے باہر دو بھائی اپنے حصوں سے بخوشی کلی طور پر دستبردار ہوکر وہ رقم بقیہ چار بھائی ایک بہن اور والدہ کو بخوشی دینے کے لیے تیار ہیں، اس میں شرعی طور پر کوئی قباحت تو نہیں ہے؟

وضاحت۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد بھائیوں نے سب کے لیے کاروبار کو جاری رکھا، اس لیے کسی نے ترکہ کی تقسیم کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔

جواب:۔ (۱) کاروبار والد نے شروع کیا تھا اور سرمایہ بھی سارا والد کا تھا ،اس لیے تمام کاروبار اور اس سے بنائی گئی جائیدادیں والد کی تھیں جو ان کے انتقال کے بعد اب ان کا ترکہ ہیں ، جوبیٹے والد کی زندگی میں ان کے ساتھ ان کے کاروبار میں شریک تھے، وہ محض محنت کرنے کی وجہ سے والد کے انتقال کے بعد اس کاروبار میں زیادہ حصے کا حق نہیں رکھتے ، لہٰذا والد کے تمام ترکے (چاہے وہ جائیداد کی صورت میں ہو، یا دکان ہو یا پیسوں کی صورت میں ہو) میں ان کے ہر ایک وارث (بیوہ، بیٹوں اور بیٹی) کا اپنے شرعی حصے کے تناسب سے حق ہے، کاروبار کا بھی شرعی حکم یہ ہے کہ کاروبار اور اس کے تمام منافع تمام ورثاء کے درمیان مشترک ہوں گے، لہٰذ والد کی بنیادی دکان کی رقم سمیت اس دکان کی آمدنی بھی اور اس آمدنی سے خریدی جانے والی دیگر دکانیں جو بیچ دی گئی تھیں، ان کی رقم بھی ترکہ میں شامل ہیں، اور جو تین دکانیں سائل کے تین بھائیوں کے نام پر ہیں، وہ ان کی ذاتی ملکیت نہیں ہیں، بلکہ سائل کے والد کے ترکہ میں شامل ہیں، نیز اگر سائل کے بھائی نے مذکورہ دکانیں بقیہ ورثاء کو بتائے بغیر بیچ دی ہیں اور اس سے کوئی جائیداد وغیرہ خریدی ہے تو وہ جائیداد بھی ترکہ میں تقسیم ہوگی اور اگر اس سے جائیداد نہیں خریدی، بلکہ وہ رقم اپنے ذاتی استعمال میں خرچ کی ہے یا وہ رقم موجود ہے تو شرعاً اس پر لازم ہے کہ دکانیں فروخت کر کے جو رقم حاصل ہوئی ہے، اسے مجموعی ترکہ میں شامل کرے۔

والد کی میراث تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ ان کے ترکہ کو 104 حصوں میں تقسیم کر کے 13 حصے ان کی بیوہ کو، 14 حصے کرکے ان کے ہر ایک بیٹے کو اور7 حصے ان کی بیٹی کو ملیں گے، یعنی 12.5 فیصد مرحوم کی بیوہ کو، 13.461 فیصد کرکے ان کے ہر ایک بیٹےکو اور 6.730فیصد ان کی بیٹی کو ملے گا۔

2: سائل کے والد کا مذکورہ گھر، بلکہ ان کی تمام جائیداد، کاروبار اور مال ان کی میراث میں شامل ہے، لہٰذا باقی جائیداد کی طرح اس گھر میں بھی ہر وارث کا اپنے شرعی حصے کے بقدر حق ہے،لہٰذا ہر وارث کو اس گھر میں اس کا حصہ دیا جائے، اگر ورثاء باہمی رضامندی سے کسی کو اس مشترکہ گھر میں رہنے کی اجازت دیں تو یہ بھی درست ہے۔

3:میراث اور ترکہ میں جائیداد کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا اپنے شرعی حصے سے بلا عوض دست بردار ہوجانا شرعاً نہیں ہے، البتہ ترکہ تقسیم ہوجائے تو پھر ہر ایک وارث اپنے حصے پر قبضہ کرنےکے بعد اپنا حصہ کسی کو دینا چاہے تو شرعاً جائز ہے، اسی طرح اگرکوئی وارث ترکہ میں سے کوئی چیز لے کر (خواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو) صلح کرلے اور ترکہ میں سے اپنے باقی حصے سے دست بردار ہوجائے تو یہ بھی درست ہے، نیز یہ بھی شرعا جائز ہے کہ مذکورہ وارث اپنا حصہ اس شخص کو بیچ دے جس کے حق میں دستبردار ہونا چاہتا ہے اور پھر اس کی رقم معاف کردے۔ (فقط و اللہ اعلم )