• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل کے جدید طبی دور میں جہاں انسان دنیا میں موجود جانداروں کا بڑی باریک بینی سے مطالعہ کر رہا ہے وہاں انسانی جسم کے بارے میں بھی تمام تر معلومات کو جمع کیا جا رہا ہے ایک چھوٹے سے خلیے سے لے کر ایک پیچیدہ نا میاتی جسم تک کا یہ سفر انسان کو بہت کچھ بتا چکا ہے۔ اس سفر کو طے کرتے ہوئے اب ہم ایک حیران کن مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ہر سائنسی شعبہ تیزی سے جدت کی طرف بڑھ رہا ہے اور سائنسی علوم ایک دوسرے کے لیےانتہائی سود مند ثابت ہو رہے ہیں۔ 

کیمیائی اور طبیعیاتی سائنس خصوصی طور پر حیاتیاتی سائنس کے لیےجو ٹیکنالوجی فراہم کرر ہی ہیں۔ اس کے ذریعے سے جانداروں میں ہونے والے بہت سارے حیاتی کیمیائی عملیات کو عرق ریزی کے ساتھ سمجھا جا چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طب کے شعبے میں انسان وہ کچھ کرنے کے قابل ہو گیا ہے ،جس کو کرنےکا پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ آئندہ آنے والے وقتوں میں سرجری وغیرہ کے بغیر تمام تر علاج ممکن ہو گا تو یہ غلط نہیں۔

ٹشو انجینئرنگ یا با فتوں کا تعمیری عمل ایک اُبھرتا ہوا شعبہ ہے جو کہ تحقیقی علوم میں تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ہم اس شعبے میں ماہر ہو گئے تو بہت ساری بیماریوں اور معذوریوں کا علاج ممکن ہو جائے گا۔ یہ عمل کیا ہے ؟ دراصل یہ عمل حیاتیاتی مواد پر کی گئی تحقیق سے نکلا ہے، جس میں بہت سارے پہلوئوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس مواد کو جانداروں میں استعمال میں لانے کے لیے ممکن بنانا تھا۔ 

حیاتیاتی مواد ، خلیات اور حیاتیاتی طور پر فعل سالموں کی بافتوں یا ٹشو میں حیاتی سائنس کا مجموعہ ہے، جس کے ذریعے کسی بھی بافت یا ٹشو کو بحال، برقرار رکھنے اور بہتر بنانے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ٹشو دراصل خلیات پر مشتمل ہوتے ہیں اور جسم میں مختلف کام انجام دینے والی اکائی ہوتے ہیں۔ خلیات اکھٹے ہو کر جب کوئی گروہ یا ٹشو بناتے ہیں تو اپنے آس پاس ایک معاون ڈھانچہ بھی بناتے ہیں جسے اضافی خلوی سانچہ یا ایکسٹرا سیلو لر میٹر کس کہا جاتا ہے۔ 

یہ بیرونی سانچہ خلیات کو سہارا دینے کے ساتھ ساتھ مختلف اشاروں یا حیاتیاتی سالموں کے ذریعے پہنچنے والی اطلاع سے پیغامات وصول کرتے ہیں اور اس کے مطابق سالموں کے ذریعے پہنچنے والی اطلاع سے پیغامات وصول کرتے ہیں اور فوری طور پر رد عمل کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ یہ پیغام یا سگنل اس بات کا بھی تعین کر سکتا ہے کہ خلیات کا یہ گروہ یا انفرادی خلیہ کس طرح سے اس کا جواب دے گا اور کس طرح اپنا ماحول تعامل کرے گا اور کیسے ٹشو میں اور پورے جسم میں منظم ہو گا۔ محققین ان عوامل کو جان چکے ہیں اور ان کو کس طرح اپنی مرضی سے قابو کیا جا سکتا ہے ، یہ بھی سمجھ چکے ہیں۔ 

یہ معلومات انسان کو اس قابل بنا رہی ہے کہ تباہ شدہ یا نقصان شدہ بافتوں کو کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ کس طرح نئے ٹشو تخلیق کیے جا سکتے ہیں جو کہ نقصان شدہ ٹشو کے متبادل کے طور پر استعمال کیے جائیں۔ دنیا بھر کی تجربہ گاہ میں خلیات کو مصنوعی طریقے سے نشو ونما کرکے یہ مشاہدہ کیا گیا ہےکہ جو عارضی ڈھانچہ خلیات کو مصنوعی طور پر نشو نما دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ 

 بافتوں کا تعمیری عمل ایک اُبھرتا ہوا شعبہ ہے، اگر ہم اس شعبے میں ماہر ہوگئے تو بہت سی بیماریوں اور معذوریوں کا علاج ممکن ہو جائے گا 

اس ڈھانچے کو مختلف قسم کے سالموں سے آراستہ کر کے استعمال کر نا خلیات کی نشو نما میں بہت مفید ثابت ہو تا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس طرح کے تجربات میں اینٹی بایو ٹک ادویات، قدرتی طور پر پائے جانے والے عامل نشو نما، جینیاتی عامل اور دیگر نشو نما پر اثر انداز ہو نے والے سالموں کو استعمال کر کے خلیات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ 

اس طرح کے تجربات کے نتیجے کافی حوصلہ افزا ہیں۔ پچھلی دہائی میں ٹشو انجینئرنگ کے شعبے میں زبردست پیش رفت ہوئی ہے۔ دس بارہ سال پہلے پیش آنے والے چیلنجز کا جواب دینا اس شعبے کے لیے بڑا کار گر ثابت ہوا، جس میں ایسے خلیات کا بنانا جو دوبارہ پیدا ہونے کی خصوصیت رکھتے ہوں۔ ایسے حیاتی مواد کا ہونا جو عارضی ڈھانچہ بنانے میں انتہائی مدد گار ثابت ہو اور جب ایسے ٹشو یا بافت کو کسی جاندار میں منتقل کیا جائے تو اس جاندار کے اندر کسی قسم کا دفاعی رد عمل سامنے نہ آئے۔ یہ تمام تر جدت خلیات کے بارے میں تحقیقی معلومات کے بعد آئی ہیں۔

اس عمل میں خام خلیات یا اس عضو کے عام خلیات کو استعمال کیا جا سکتا ہے، جس عضو کے نقصان شدہ خلیات کو تبدیل کر نا ہوگا۔ مثال کے طور پر جوڑوں کے درد کی وجہ عام طور سے جوڑ میں موجود ہڈیوں کے اوپر موجود کرکری ہڈی جس کو کارٹیج بھی کہا جاتا ہے کا جھڑنا یا بھر بھرا ہو کر ختم ہو جانا ہوتا ہے۔ 

اگر اس ہڈی کو بنانے والے خراب اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار خلیات کو نئے خلیات کے ذریعے سے تبدیل کر دیا جائے جو کہ ویسے ہی کام انجام دیں اور کر کری ہڈی اپنی اصل حالت میں واپس آجائے تو اس قسم کا علاج ہر طرح کے دوسرے ادویات اور سرجری سے ہونے والی طریقوں سے زیادہ بہتر اور موثر علاج ہو گا۔ بہت سارے تحقیقی مطالعات اس سمت میں کام کر رہے ہیں اور آزمائشی طور پر اس کام کو پر کھا جا رہا ہے یہ دیکھا جا رہاہے کہ اگر میزنکا ئمل خلیات کو جوڑوں کے درد کی وجہ بننے والی کر کری ہڈی کی جگہ لگا دیا جائے تو وہ جوڑ کے فعل کو اور درد کو کس حد تک ٹھیک کر سکتے ہیں۔

ان خلیات کو استعمال کرنے کی وجوہات یہ ہیں کہ یہ میزبان جاندار(جس پر یہ عمل کیا جارہا ہے ) کے دفاعی رد عمل کا باعث نہیں بنتے، سوزش پیدا نہیں کرتے اور دوبارہ پیدا ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ خلیات میزبان جاندار سے ہی حاصل کیے جاسکتے ہیں اور خاص طرح کے برتائو سے گزار کر کرکری ہڈی کی جگہ ڈالے جا سکتے ہیں۔ اس طرح سے یہ اور زیادہ محفوظ طریقہ علاج بھی بن جاتے ہیں۔ 

ان تمام تجربات کا نتیجہ انتہائی مثبت نکلا ہے۔ اسی طرح سے انسانی جسم کے دیگر اعضاء جیسے دل ، جگر وغیرہ کے لیے بھی اس قسم کی تحقیقات جاری ہیں۔ اس طریقے کو جس طرح علاج کی طرف لے کر جایا جا سکتا ہے۔ اس میں چند رکاوٹوں میں سے بنیادی رکاوٹ یہ ہے کہ طبی طور پر زندہ خلیات کو مصنوعی تجرباتی نشو ونما سے نکال کر انسانی جسم میں منتقل کرنا۔ 

حالاں کہ اس شعبہ میں بھی بہت کام ہو چکا ہے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ دل کی بائی پاس سرجری میں دل کو اور مریض کو مصنوعی طور پر کچھ وقت کے لیے سنبھالا جا سکتا ہے۔ اس کے بر عکس یہاں بات ہو رہی ہے کہ مخصوص خلیات کی جو انسانی جسم میں منتقل کرنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ ان کو تجربہ گاہ میں مخصوص طریقے سے رکھا گیا اور اب یہ نشو ونما پا چکے ہیں۔

اس کے بعد سب سے بڑا چیلنج یہ ہوتا ہے کہ کوئی ٹشو یا اعضاء اگر منتقل ہو بھی گیا ہے تو اس کو جسم کی خون کی رگوں اور نالیوں کے نظام سے جوڑا جائے یہ ایک انتہائی مشکل عمل ہوتا ہے وہ خون ہی ہے جو تمام اعضاء انسانی کو غذا کی فراہمی کے ساتھ ساتھ نظام ہضم میں کیمیائی عمل کے نتیجے میں بننے والے فضلے کو خلیاتی سطح تک اٹھانے کا کام انجام دیتا ہے اور گردوں کے ذریعے جسم سے باہر نکلنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ 

موجودہ دور میں دن بہ دن آنے والی جدت اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب یہ بنیادی رکاوٹیں بھی ختم ہو جائیں گیں اور ٹشو انجینئرنگ کے ذریعے علاج ممکن ہو سکے گا۔ البتہ ٹیکنالوجی کا متوازن اور تنقیدی جائزہ بشمول مضبوط اخلاقی مباحث، حقیقت پسندانہ غور و فکر اور ممکنہ طریقہ علاج کو فروغ دینا انتہائی ضروری عوامل ہیں۔ سخت قوائد و ضوابط کے ساتھ ہی اس طرح کے علاج کی طرف رسائی ممکن ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک اس تحقیق میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ 

جہاں آئی ٹی اور برقیات سے متعلق شعبہ جات میں تیزی سے ترقی ہو رہی ہے۔ وہیں اس طرح کے نئے اور جدید طریقہ علاج میں یہ بھی معاون کے طور پر ثابت ہو رہی ہے اس کے ذریعے سے بہت سارا ڈیٹا بہت جلد اور با آسانی مشاہدہ کر لیا جاتا ہے اور درست نتائج تک پہنچنا آسان ہو تا ہے بات کی جائے ہمارے ملک کی تو دیگر تحقیقی شعبوں کی طرح اس شعبے نے بھی اپنی طرف متوجہ کیا ہے ۔

پاکستان میں بھی مختلف تجربہ گاہ اس طرح کے مطالعوں میں مصروف عمل ہیں ۔ پروٹیومکس سینٹر جامعہ کراچی کے ایک شعبہ میں یہ تحقیق جاری ہے کہ کس طرح سے خلیات کا بیرونی سانچہ ایک بافت یا ٹشو پر اثر انداز ہو تا ہے اور کس حد تک خلیات کو اس کے افعال میں مدد کر تا ہے۔ کسی بھی عضو کے خلیات یہ بیرونی سانچہ خود ہی بنا رہے ہوتے ہیں تو کیا اگر یہ سانچہ مصنوعی طور پر تخلیق کر کے کسی عام خلیے کو کسی خاص عضو کے خلیات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے یا ایسا ممکن ہیں۔ 

اس طرح کے مطالعے ہوتے تو بنیادی سائنسی تحقیق سے متعلق ہیں ،مگر ان سے حاصل شدہ معلومات مستقبل کے بڑے بڑے تجربات کی امید ثابت ہو تے ہیں۔ پاکستان میں مختلف جامعات میں موجود سینٹر اس طرح کے تحقیق میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ان میں کراچی میں قائم ایک نجی ہسپتال میں بھی ایک گروپ مختلف قسم کے خلیات کے بیرونی سانچوں کو بنانے والا حیاتی مواد پر کام کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ داندان سازی میں بھی ٹشو انجینئرنگ ابتدائی مراحل میں ہے۔ 

کھال سے متعلق بھی ٹشو انجینئرنگ پر کام جاری ہے۔ ہمارے ملک میں اعضاء کے ٹرانسپلانٹ کی سہولت موجود ہے اور بڑے شہروں کے سرکاری ہسپتالوں میں ایک عام شہری کو بھی میسر ہے۔ اگر ٹشو انجینئرنگ کے ذریعے سے علاج کا سلسلہ شروع ہو تا ہے اور ٹیکنالوجی ترقی یافتہ ملکوں سے ہمارے ملک میں آتی ہے تو یقینا ً ہم اس طریقہ علاج کو با آسانی اپنا سکتے ہیں۔ مغربی دنیا میں جہاں یہ تحقیق بڑی تیزی سے فروغ پذیر ہےوہاں ابھی بھی بہت مراحل ایسے ہیں جہاں ایک معیاری طریقہ کار کا خاکہ بننا اور تجویز ہونا باقی ہے۔

طب کے شعبے میں ترقی تیزی سے جاری ہے اور حیران کن نتائج بر آمد کر رہی ہے۔ اگر چہ اس کی ترجمانی عملی طور پر کافی وقت لے لیتی ہے، کیوں کہ معاملہ انسانی جانوں کا ہوتا ہے اور کوئی بھی تجرباتی تحقیق ایک زندہ جسم میں جانے پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے یا پھر مکمل فیل ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرانی طبی مشق سے نکل کر نئی جدت کو اپنانا ایک بڑی تبدیلی ہے۔ بافتوں کا تعمیری عمل بہر حال انسان کو اس سمت کی طرف لے جارہا ہے۔

جہاں اس شعبے سے چند ایک نئے شعبے جنم لیں گے جیسا کہ خلیات کی تھراپی، مصنوعی سالموں کے ذریعے انتہائی تیز نشوو نما جو کہ فوری طور پر کسی سطحی زخم کو ٹھیک کر دے۔ ایسے سیرپ یا اسپرے جو چھوٹی موٹی بیماریوں کے لیے کافی ہوں اور با آسانی مارکیٹ میں موجود ہوں موذی امراض سے ہمیشہ کے لیےچھٹکارہ حاصل ہو سکے اور مروثی بیماریوں کا بھی خاتمہ ہو جائے۔ یہ تمام اُمور اس جدید دور میں اب ممکن ہوتے دیکھائی دے رہے ہیں۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید