• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعلیٰ پنجاب کے دوبارہ انتخاب کے لیے پرویز الہٰی اور حمزہ شہباز نے 22 جولائی پر اتفاق کرلیا

فوٹو فائل
فوٹو فائل

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا دوبارہ انتخاب 22 جولائی کو ہوگا، تین ماہ کا بحران ہم نے 3 سیشنز میں حل کردیا ہے،حکومتی بنچز کو اپوزیشن کا احترام کرنا ہوگا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے پر پرویز الہٰی اور حمزہ شہباز نے اتفاق کرلیا۔

تحریکِ انصاف کی اپیل پر سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی اس بینچ میں شامل تھے۔

لاہور سے پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے جبکہ پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیاستدان یا اپنے مسائل خود حل کریں یا ہمارے پاس آکر ہماری بات مانیں۔

لاہور ہائی کورٹ کے گزشتہ روز کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ حمزہ کےلیے قائم مقام وزیر اعلیٰ کا لفظ استعمال نہیں کریں گے، ایسے الفاظ استعمال کریں گے جو دونوں فریقین کو قابل قبول ہوں گے، کیس کا تحریری حکمنامہ بعد میں جاری کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت پر باتیں کرنا بہت آسان ہے، ججز جواب نہیں دے سکتے، حکومتی بنچز کو اپوزیشن کا احترام کرنا ہوگا، قومی اسمبلی میں اپوزیشن نہ ہونے سے بہت نقصان ہوا ہے۔

اس سے قبل عدالت نے کیس کی سماعت آدھے گھنٹے کے لیے ملتوی کی تھی اور پرویز الہٰی کو حکم دیا تھا کہ وہ عمران خان سے رابطہ کرکے آدھے گھنٹے میں عدالت کو آگاہ کریں، جس کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت ہوئی تو پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے عدالت کو عمران خان کی ہدایت سے متعلق آگاہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے حمزہ کو قائم مقام وزیر اعلیٰ کے طور پر 17 جولائی تک قبول کیا ہے، عمران خان کا کہنا ہے کہ آئی جی پولیس، پنجاب الیکشن کمشنر اور چیف سیکریٹری قانون پر عمل کریں۔

 بابر اعوان نے بتایا کہ عمران خان کا کہنا ہے جن حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں وہاں پبلک فنڈز استعمال نہیں ہوں گے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ تو الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کا حصہ ہے، الیکشن کمیشن کو ضابطہ اخلاق پر سختی سے عمل کروانے کا کہہ دیتے ہیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ شفاف ضمنی انتخابات اور مخصوص نشستوں کے نوٹیفکیشن تک حمزہ بطور وزیراعلیٰ قبول ہیں، الیکشن کمیشن سے متعلق تحفظات موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ حمزہ شہباز صاحب آپ کا ارادہ ہے دھاندلی کرنے کا؟ جس پر جواب دیتے ہوئے حمزہ شہباز نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ کوئی دھاندلی نہیں ہو گی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عدالت مجموعی حکم جاری کرے گی چھوٹی چھوٹی باتوں میں نہیں پڑے گی۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیس کو خاندانی تنازع نہ بنائیں تو بہتر ہے۔

حمزہ شہباز کو نگراں وزیر اعلیٰ بنانے پر پرویز الہٰی اور پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان کے درمیان اختلاف ہوگئے۔

 چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پرویزالہٰی نے جو شرائط رکھیں وہ آپ کے اطمینان کے لیے حمزہ پر عائد کی جاسکتی ہیں، عدم اعتماد والے کیس میں عدالت ایسی شرائط عائد کر چکی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا ہے کہ فریقین میں اتفاق نہیں ہوسکا، صرف دیکھنا چاہ رہے تھے کہ سینئر سیاستدان مسئلہ کس طرح حل کرتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر میاں محمود الرشید روسٹرم پر آئے، اور انہوں نے کہا کہ آپس میں طے کیا ہے کہ ہاؤس مکمل ہونے دیا جائے، انتخاب کے لیے17 جولائی کے بعد کا وقت دے دیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے محمود الرشید کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ درخواست گزار نہیں اس لیے آپ کو نہیں سن سکتے۔

پی ٹی آئی وکیل بابر اعوان نے کہا کہ اپنے پارٹی لیڈر سے مشاورت کر کے15 منٹ میں عدالت کو آگاہ کروں گا، محمود الرشید کے بیان کے بعد پارٹی سربراہ سے ہدایات لینا ضروری ہوگیا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے  کہا کہ ایک قانونی پوزیشن لیں اور ہمیں بتائیں، جو حکم جاری کریں گے وہ کسی ایک کے فائدے میں نہیں ہوگا۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ بابر اعوان صاحب! آپ کس کی طرف سے پیش ہو رہے ہیں؟

بابر اعوان نے بتایا کہ درخواست گزار سبطین خان کا وکیل ہوں، 16 اپریل کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا الیکشن ہوا جس میں ایوان میں لڑائی ہوئی، لڑائی جھگڑے کے بعد پولیس کو ایوان میں طلب کیا گیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج نے کچھ نکات پر اختلاف کیا ہے، ایک جج نے کہا ہے کہ انہوں نے 197 ووٹس حاصل کیے، اگر 25 ووٹ نکال لیں تو 172 ووٹ بچیں گے، اس طرح پہلے پول میں حاصل اکثریت چلی گئی تو یہ انتخاب متنازع ہو گیا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے کہا ہے کہ اگر دوبارہ گنتی سے 186 ووٹ نہیں بنتے تو ری پول ہو گا، اتفاق نہیں کرتا کہ کوئی ممبر موجود نہیں تو انتظار کر کے ووٹنگ کرائی جائے، ممبران جو موجود ہوتے ہیں اسمبلی ہال میں ہوں یا چیمبرز میں، ان کے ووٹ شمار ہوتے ہیں، آپ صرف بتائیں کہ ووٹنگ کے لیے کم وقت دینے کی درخواست پر کیا دلیل ہے؟

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے پی ٹی آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بظاہر آپ کے حق میں ہوا ہے، آپ بتائیں کہ آپ کے حق میں فیصلہ ہوا یا نہیں؟ آپ اپنی درخواست کی بنیاد بتائیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ درخواست تو یہ ہے کہ کچھ اراکین حج پر، کچھ شادی بیاہ پر گئے، ان کو آنے دیں، سپریم کورٹ اس معاملے میں مداخلت کیوں کرے؟ کیا پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ مزید وقت دیا جائے؟ کس اصول کے تحت ہم لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں مداخلت کریں؟ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں اختلافی نوٹ میں ووٹنگ کی تاریخ کل کی ہے، کیا آپ کل ووٹنگ پر تیار ہیں؟

اس پر پی ٹی آئی نے پنجاب میں دوبارہ انتخابی عمل کے لیے عدالتِ عظمیٰ سے 7 دن کا وقت مانگ لیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ملک کے اندر موجود ارکان ایک دن میں پہنچ سکتے ہیں، آپ کے منحرف اراکین کے ووٹ پہلے ہی نکل چکے ہیں، پی ٹی آئی کے اراکین کو لاہور پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا؟

پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہماری جماعت کا مسلم لیگ ق سے اتحاد ہے، ہم تجویز پر رضا مند نہیں ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ پرویز الہٰی امیدوارہیں انہیں اعتراض نہیں تو پی ٹی آئی کو کیا مسئلہ ہے؟

چوہدری پرویز الہٰی نے عدالت میں کہا کہ محمود الرشید کے مشورے پر ہی آمادہ ہوا ہوں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ معاشرے میں بہت تقسیم ہوگئی، سیاست میں بہت تقسیم بھی ہوگئی، آپ نے تو صرف 7 دن مانگے تھے اس طرح آپ کو زیادہ وقت مل رہا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنی درخواست پڑھیں آپ نے استدعا کیا کی ہے؟

بابر اعوان نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو ہٹانے کی استدعا بھی کر رکھی ہے،حمزہ شہباز کو کسی صورت قبول نہیں کرسکتے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آئینی خلا نہیں بنانا۔

پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ الیکشن کمیشن روز کہتا ہےعدالتی حکم ملتے ہی مخصوص نشستوں پر نوٹیفکیشن کریں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان سے سوال کیا کہ آپ کے امیدوار کی مرضی کچھ اور ہے، دوسری سائیڈ سے ان کا اتفاق رائے ہے، آپ کی اب مرضی کیا ہے؟ آپ کی آپس میں بات نہیں بن رہی تو عدالت کیا کرے؟

بابر اعوان نے کہا کہ عدالت جو مناسب وقت دے گی وہ ہمیں قبول ہوگا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ آئینی صورت حال ہے، اسے حل کریں، مزید خراب نہ کریں۔

بابر اعوان نے کہا کہ پی ٹی آئی اور ق لیگ اتحادی ہیں لیکن یہ الگ جماعتیں ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ دو دن میں دوبارہ انتخاب یا حمزہ شہباز17 جولائی تک وزیر اعلیٰ، یہی 2 آپشن ہیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ سیاسی پوزیشن سے عدالت کو آگاہ کر دیا ہے، جس کے جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی پوزیشن ایوان میں لیں، عدالت میں قانونی بات کریں۔

’’آپ چاہتے ہیں کہ 7 دن پنجاب بغیر وزیرِ اعلیٰ کے رہے؟‘‘

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ چاہتے ہیں کہ 7 دن کے لیے پنجاب بغیر وزیرِ اعلیٰ کے رہے؟

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ موجودہ وزیرِ اعلیٰ کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا انتخاب ہی درست نہیں ہوا، اگر وزیرِ اعلیٰ نہ ہو تو کون صوبے کا انتظام سنبھالتا ہے؟

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کسی وجہ سے وزیرِ اعلیٰ عہدہ سنبھالنے کے قابل نہیں ہے تو پھر کون انتظام دیکھے گا؟ ہائی کورٹ چاہتی ہے کہ صوبے میں حکومت قائم رہے، کیا پنجاب میں قائم مقام وزیرِ اعلیٰ والا فارمولا ایپلائی ہوسکتا ہے؟ یہ نہیں ہوسکتا کہ سابق وزیرِ اعلیٰ بحال ہوں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ 25 ممبران نکال دیں تو پی ٹی آئی کے کتنے ممبران اسمبلی ہیں؟ وزیرِ اعلیٰ کے پاس 186 ووٹ نہیں تو فی الحال برقرار رہنا مشکل ہے، وزیرِ اعلیٰ بیمار ہو جائے یا باہر جائے تو کون صوبہ چلاتا ہے؟

بابر اعون نے کہا کہ سینئر وزیر کو وزارتِ اعلیٰ کا چارج دیا جاتا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کابینہ نہیں ہو گی تو سینئر وزیر کہاں سے آئے گا؟

بابر اعوان نے کہا کہ ایک قائم مقام کابینہ تشکیل دی جا سکتی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے دریافت کیا کہ سوال صرف یہ ہے کہ آج 4 بجے اجلاس ہونا ہے یا نہیں؟ اجلاس نہ ہونے پر قائل کریں پھر دیکھیں گے کہ آج نہیں تو کب اجلاس ہو سکتا ہے، کیا کوئی ایسی شق ہے کہ وزیرِ اعلیٰ کے الیکشن تک گورنر چارج سنبھال لیں؟

پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ 25 نکال کر ہمارے ارکان 169 بنتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ کے پاس اکثریت نہیں ہے۔

فیصل چوہدری نے جواب دیا کہ ایوان میں کسی کے پاس اکثریت نہیں ہے۔

وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ مستعفی ہوں تو نئے انتخاب تک گورنر ہی صوبہ چلاتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 17 جولائی کو عوام نے 20 نشستوں پر ووٹ دینے ہیں، ضمنی الیکشن تک صوبے کو چلنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ عوام خود فیصلہ کریں تو جمہوریت زیادہ بہتر چل سکتی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ گورنر کو صوبہ چلانے کا اختیار دینا غیر آئینی ہو گا، آئین کے تحت منتخب نمائندے ہی صوبہ چلا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکلاء سے کہا کہ تیاری کریں آپ اپنا دماغ لڑائیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اسمبلی تحلیل ہونے پر ہی نگران حکومت بن سکتی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کا وزیرِ اعلیٰ پنجب کے انتخاب کے لیے دیا گیا وقت کافی ہے یا نہیں؟

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ہم تحریکِ انصاف کی پریشانی سے واقف ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ صوبے کو وزیرِ اعلیٰ کے بغیر رکھا جائے، آدھے گھنٹے کا وقت دیتا ہوں، سوچ کر بتائیں کہ وزیرِ اعلیٰ کا متبادل کیا ہو گا؟

عدالت نے سماعت میں 2 بج کر 45 منٹ تک وقفہ کر دیا۔

سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کی اپیل پر سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ 3 حل ہیں ان میں سے جو عدالت فیصلہ کر دے۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے وکیل کے ذریعے عدالت سے استدعا کی کہ ضمنی انتخابات تک وزیرِ اعلیٰ کا الیکشن روکا جائے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ واضح ہے کہ آج 4 بجے انتخابی عمل نہیں ہو سکتا، اس بات میں وزن ہے کہ 17 جولائی کے ضمنی انتخابات کے بعد وزیرِ اعلیٰ کا انتخاب ہو، ضمنی انتخابات کے بعد عدم اعتماد کی تحریک بھی آ سکتی ہے، 7 دن کا وقت مناسب نہیں لگتا، اختلافی نوٹ میں دیے گئے وقت میں ایک دن کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

حمزہ شہباز کو جاری رکھنے پر اعتراض نہیں تو نقطہ صرف الیکشن کے وقت کا رہ گیا،جسٹس اعجازالاحسن

سپریم کورٹ نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کو طلب کر لیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ حمزہ شہباز اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں، یہ انا کا نہیں ملک کا مسئلہ ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی بتائیں کہ وہ عدالت میں پیش ہو سکتے ہیں یا تحریری جواب جمع کرائیں گے، آئین کے آرٹیکل 130 میں حل موجود ہے، کتابوں پر توجہ دیں، اگر جواب 3 بج کر 45 منٹ سے پہلے آ جاتے ہیں تو 4 بجے سے پہلے سماعت مکمل کر لیں گے۔

عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو اسپیکر کو عدالتی ہدایات سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی گئی اور کیس کی سماعت میں ایک بار پھر 30 منٹ کا وقفہ کر دیا گیا۔

عدالتِ عظمیٰ کے طلب کرنے پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور اسپیکر پرویز الہٰی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پیش ہو گئے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں پی ٹی آئی کی درخواست پر وقفے کے بعد ایک بار پھر سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے ہدایت کی کہ پرویز الہٰی صاحب اور میاں حمزہ شہباز شریف سے درخواست ہے کہ روسٹرم پر آ جائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ سوال اٹھا کہ ری پول کے لیے وقت نہیں دیا گیا، یہ سوال بھی اٹھا کہ اگر عدالت خود سے وقت دے گی تو صوبہ کون چلائے گا۔

چیف جسٹس نے پرویز الہٰی سے استفسار کیا کہ ہمیں یہ جواب ملا کہ حمزہ شہباز وزیرِ اعلیٰ رہیں، کیا یہ بات درست ہے؟

اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی نے جواب دیا کہ ایسی بات نہیں ہے۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کا کہنا ہے کہ اسمبلی میں کورم ہی پورا نہیں، جب سے حمزہ شہباز وزیرِ اعلیٰ بنے ہیں اسمبلی کے باہر سول کپڑوں میں پولیس تعینات ہے، ایسی صورتِ حال میں ان پر اعتماد نہیں کر سکتا، کوئی بھی حادثہ ہو سکتا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کے وکیل نے کہا ہے کہ ضمنی الیکشن اور ہاؤس مکمل ہونے تک حمزہ پر اعتراض نہیں، اس نقطے پر آپ دونوں حضرات کو طلب کیا گیا ہے، ہاؤس مکمل ہونے کے بعد جس کی اکثریت ہو گی وہ وزیرِ اعلیٰ بن جائے گا، دوسری صورت الیکشن کے لیے وقت کی کمی کی ہے، دوسری صورت میں پاکستان میں موجود اراکین کے آنے تک وقت دیا جا سکتا ہے، یا پھر الیکشن ہونے دیں اور ضمنی انتخابات کے بعد تحریکِ عدم اعتماد لا کر فیصلہ کر لیا جائے، ملک کو مستقل طور پر اس طرح نہیں چھوڑا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کا یہ مؤقف ہے کہ حمزہ شہباز ہی ضمنی انتخابات تک وزیرِ اعلیٰ رہیں؟

پرویز الہٰی نے کہا کہ حمزہ شہباز کسی صورت وزیرِ اعلیٰ قبول نہیں ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ قانونی حل میں حمزہ بھی ہٹ جائیں گے اور آپ کو بھی نقصان ہو سکتا ہے۔

پرویز الہٰی نے کہا کہ دونوں جماعتیں اگر آپس میں بیٹھ کر مشاورت کر لیں تو پھر عدالت کو بتا سکتے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کو مشورہ کر کے آنا چاہیے تھا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ آپس میں مشورہ کر کے عدالت کو بتا دیں ورنہ ہم فیصلہ دیں گے، آج کا دن گزر گیا، ہائی کورٹ نے تو 4 بجے کا وقت دیا تھا، ہم آپس میں مشورہ کر کے ری کاؤنٹ کے لیے مناسب وقت دے دیتے ہیں۔

حمزہ شہباز نے کہا کہ ووٹنگ 17 جولائی کو کرا لیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے حمزہ شہباز سے کہا کہ بس اتفاقِ رائے تو ہو گیا کہ 17 جولائی تک انتخاب کا انتظار ہو سکتا ہے، آپ 17 جولائی تک وزیرِ اعلیٰ نہ رہنے پر رضامند ہیں؟

حمزہ شہباز نے کہا کہ آج کے دن میں رات 12 بجے تک کا وقت ہے، ممبران اسمبلی میں بیٹھے ہیں، آج ہی انتخابات ہو سکتے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کچھ لمحے کے لیے آپ میں اختلافات آئے ہیں، اللّٰہ کرے جلد ختم ہو جائیں۔

حمزہ شہباز نے کہا کہ عدالت ہی اس پر فیصلہ دے، ہمارا اتفاقِ رائے نہیں ہو گا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ دونوں کے اتفاق سے گورنر کو نگران مقرر کرنے کی ہدایت کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آئین خود رن آف الیکشن کا آپشن دیتا ہے، آئین کے تحت ہاؤس مکمل ہونا ضروری نہیں، جو ممبر موجود ہوں انہی پر انتخاب ہو سکتا ہے، ہم دیکھ لیتے ہیں کہ ایک سیشن کتنے وقت میں کال ہوتا ہے، ضمنی الیکشن تک انتخابات روکنا ضروری نہیں۔

پرویز الہٰی نے کہا کہ عدالت جو بھی کہے گی وہ کرنے کو ہم تیار ہیں، ان کو کہہ دیں کہ مل بیٹھ کر بات کر لیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ وہ آپ سے مل بیٹھ کر بات کرنے کو تیار نہیں، یا تو آپ حمزہ شہباز کو وزیرِ اعلیٰ تسلیم کر لیں ورنہ 2 دن دیں گے، اپنے لوگ اکٹھے کر لیں۔

پرویز الہٰی نے کہا کہ اگر یہ نگران وزیرِ اعلیٰ رہنا چاہیں تو ہمارے ساتھ بیٹھ کر اختیارات کی حدود تک معاملات طے کر لیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر آپ17 جولائی تک حمزہ شہباز کو وزیرِ اعلیٰ مانتے ہیں تو دیگر چیزیں طے ہوں گی۔

پرویز الہیٰ نے کہا کہ یہ معاملات طے کریں اور خلافِ قانون گرفتاریاں نہ کریں تو پھر اعتراض نہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ چوہدری صاحب! آپ کی دونوں باتیں نہیں مانی جا سکتیں، یا حمزہ کو وزیرِ اعلیٰ تسلیم کرنا ہوگا یا پھر مناسب وقت میں دوبارہ الیکشن ہو گا۔

پرویز الہیٰ نے کہا کہ حمزہ شہباز کو نگران وزیرِ اعلیٰ رہنا ہے تو اپنا اختیار طے کریں، یہ تو بادشاہ بن جاتے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پکڑ دھکڑ نہیں ہو گی یہ احکامات ہم جاری کریں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس مسئلے کا قانونی حل نکالیں گے، معلوم ہے کہ ایک دن کا وقت بہت کم ہے۔

پرویز الہیٰ نے کہا کہ حمزہ شہباز 17 تاریخ تک وزیرِ اعلیٰ رہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن  نے کہا کہ قانون کی خلاف ورزی ہوئی تو عدالتیں موجود ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بدقسمتی سے سب اپنی مرضی چلا رہے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کا اعلان ہونے پر کوئی تقرر و تبادلے نہیں ہو سکتے۔

رجسٹرار آفس نے مزید 5 پیپرز بک طلب کیں

ذرائع کے مطابق رجسٹرار آفس نے اپیل کی مزید 5 پیپرز بک طلب کر لیں، جس کے بعد تحریکِ انصاف نے اپیل کی مزید 5 کاپیاں رجسٹرار آفس میں جمع کرا دیں۔

رجسٹرار آفس کے ذرائع کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ 5 ججز کا ہے، عمومی طور پر 5 ججز کے فیصلے کے خلاف لارجر بینچ تشکیل پاتا ہے۔

رجسٹرار آفس کے ذرائع نے بتایا ہے کہ قانونی ضابطے کے تحت مزید پیپر بکس منگوائی گئیں، اگر لارجر بینچ بنتا ہے تو اپیلوں کی کاپیاں مکمل ہونی چاہئیں۔

ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ میں اس وقت 4 ججز چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل موجود ہیں۔

پی ٹی آئی کی درخواست کی سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ کے کمرۂ عدالت نمبر 1 کے باہر سیکیورٹی اسٹاف بھی موجود ہے۔

پی ٹی آئی نے ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کیا

اس سے قبل پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے گزشتہ روز کے لاہور ہائی کورٹ کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق فیصلے کو آج سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔

عدالتِ عظمیٰ میں درخواست پاکستان تحریکِ انصاف کے وکیل فیصل چوہدری اور امتیاز صدیقی کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔

پی ٹی آئی کی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل منظور کی جائے، درخواست کے فیصلے تک وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا انتخاب روکا جائے۔

درخواست میں پی ٹی آئی نے استدعا کی ہے کہ حمزہ شہباز کو عہدے سے ہٹایا جائے تاکہ صاف شفاف الیکشن ہو سکیں، پنجاب اسمبلی میں وزارتِ اعلیٰ کا الیکشن فوری معطل کیا جائے۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو تبدیل کر کے اجلاس بلانے کا مناسب وقت دیا جائے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی اراکینِ پنجاب اسمبلی کو اجلاس میں شرکت کے لیے مناسب وقت دینا ضروری ہے، فریقین کو صاف اور شفاف الیکشن کا آئینی حق حاصل ہے۔

تحریکِ انصاف نے سپریم کورٹ سے اپیل آج ہی سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا بھی کی ہے۔

ذرائع کے مطابق اپوزیشن اتحاد کی جانب سے آج ہونے والے انتخابی عمل کے بائیکاٹ کے آپشن پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے اپوزیشن اتحاد کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس آج صبح 11 بجے پنجاب اسمبلی میں ہو گا۔

لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ

واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں 5 رکنی لارجربینچ نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواستیں جزوی طور پر منظور کرتے ہوئے منحرف اراکین کے ووٹ شمار کیے بغیر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرانے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے دوبارہ انتخاب کروانے کی حد تک فیصلہ جاری کرتے ہوئے 6 درخواستیں اور 3 انٹرا کورٹ اپیلیں خارج کر دیں۔

جسٹس صداقت علی خان، جسٹس شہرام سرور چوہدری، جسٹس طارق سلیم شیخ اور جسٹس شاہد جمیل خان نے دوبارہ گنتی کرانے کا حکم دیا جبکہ جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بحال کرنے کا فیصلہ لکھا، اس طرح فیصلہ 4-1 سے آیا۔

8 صفحات پر مشتمل جاری مختصر حکم نامے میں عدالت نے حکم دیا ہے کہ 16 اپریل کو ہونے والے انتخاب میں ڈالے گئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی آج (یکم جولائی کو)منحرف ارکان کے 25 ووٹوں کو شمار کیے بغیر کی جائے، ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور دوبارہ انتخابات کے لیے اگر ضرورت پڑے تو پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج ہی شام 4 بجے ہو گا۔

عدالت کے حکم کے مطابق اگر حمزہ شہباز وزیرِ اعلیٰ بننے کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں کر سکے تو آرٹیکل 130 (4) کے تحت دوبارہ انتخاب کرایا جائے جب تک کہ عہدے کے لیے موجود کسی امیدوار کو اکثریت حاصل نہ ہو، آرٹیکل 130 (4) کے مطابق ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں کسی امیدوار کو 186 ووٹوں کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ وزیرِ اعلیٰ منتخب ہونے کے لیے صرف موجودہ اراکین اور ان کے ووٹوں میں سے اکثریت کی ضرورت ہوگی، پریزائیڈنگ افسر کی جانب سے 25 ووٹوں کو نکالنے کے بعد حمزہ شہباز مطلوبہ اکثریت سے محروم ہو گئے تو وہ وزیرِ اعلیٰ نہیں رہیں گے۔

عدالت نے فیصلے میں زور دے کر کہا ہے کہ جب تک انتخابی عمل مکمل نہیں ہو جاتا اور پریزائیڈنگ افسر منتخب وزیرِ اعلیٰ کے نتیجے سے گورنر کو آگاہ نہیں کرتا اس وقت تک پنجاب اسمبلی کے اجلاس کو ملتوی نہیں کیا جا سکتا، گورنر آئین کے تحت بغیر کسی ہچکچاہٹ کے نو منتخب وزیرِ اعلیٰ پنجاب سے حلف لینے کا فرض اگلے روز صبح 11 بجے سے پہلے تک ادا کرے گا۔

عدالت نے لکھا ہے کہ بطور وزیرِ اعلیٰ حمزہ شہباز شریف اور کابینہ کےتمام فیصلوں کو آئنی تحفظ حاصل ہے، صوبائی اسمبلی کے مختلف اجلاسوں میں ہونے والی بدنظمی کو نظر انداز نہیں کر سکتے لہٰذا دورانِ انتخاب انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کی جائے گی۔

عدالت نےکیس کی کوریج پیشہ ورانہ طریقے سے کرنے پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی تعریف کی، عدالت نے ایف آئی اے اور پیمرا کو مذکورہ کیس کو سکینڈلائز کرنے والے وی لاگرز کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم بھی دیا اور کہا کہ اگر ایسی درخواست سماعت کے لیے پیش کی جاتی ہے تو اس کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کی جائے گی۔

جسٹس ساجد محمود سیٹھی کا اختلافی نوٹ

جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے اختلافی نوٹ تحریر کرتے ہوئے کہا کہ حمزہ شہباز کے حق میں ڈالے گئے پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کے ووٹوں کو تسلیم کر لیا گیا تھا، اس لیے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرانے کے عمل کی ضرورت نہیں ہے۔

جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے مزید لکھا کہ 371 ارکان پر مشتمل پنجاب اسمبلی میں وزیرِ اعلیٰ بننے کے لیے مطلوبہ تعداد 186 ووٹوں کی تھی جبکہ ریکارڈ کے مطابق حمزہ شہباز نے 197 ووٹ حاصل کیے، 25 ووٹوں کو گنتی سے نکال کر حمزہ شہباز کے 172 ووٹ تھے، لہٰذا آئین کے آرٹیکل 130 (4) کے تحت وہ منتخب ہونے والے وزیرِ اعلیٰ نہیں ہیں اور انہیں اس عہدے پر فائز رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، غیر منتخب رکن کے دفتر کو تحفظ نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ آئین کے خلاف ہے۔

جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ اس تمام صورتِ حال کے نتیجے میں عثمان احمد خان بزدار کو فوری طور پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر بحال کر دیا جاتا ہے، یہ عدالتی فیصلہ 30 اپریل سے لے کر آج تک بطور وزیرِ اعلیٰ حمزہ شہباز شریف اور کابینہ کے تمام فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہو گا۔


قومی خبریں سے مزید