• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’پطرس بخاری‘ اُردو کے صاحبِ طرزِ ادیب، منفرد مزاح نگار اور کامیاب سفیر تھے

محمد ذکی دہلوی

پطرس بخاری کا اصلی نام احمد شاہ تھا۔ ان کے بزرگ کشمیر سے ہجرت کرکے پشاور میں آبسے تھے، وہیں ان کے والد سید اسداللہ شاہ خواجہ کمال الدین کے وکالت کرنے پر ان کے منشی بنے۔ یکم اکتوبر 1898ء کو احمد شاہ پطرس پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم پشاور میں حاصل کی۔ وہاں سے انٹرمیڈیٹ پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوگئے۔ ان کا شمار پنجاب یونیورسٹی کے نہایت ہونہار طلبہ میں ہوتا تھا۔ انہوں نے انگریزی کا ہر امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کیا۔

تکمیل تعلیم کے بعد وہ انگلستان چلے گئے ، وہاں امانوبل کالج میں داخلہ لیا اور وہاں انگریزی ادب کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ انگریز پروفیسر تک ان کی انگریزی دانی کے بے حد مداح و معترف تھے۔ انگلستان سے واپسی کے بعد وہ پہلے سینٹرل ٹریننگ کالج میں پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی ادب کے پروفیسر ہوگئے۔

1924ء میں پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی سے ان کا تعلق قائم ہوا اور 1931ء میں وہ اس کمیٹی کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اپنے فرائض منصبی کے علاوہ انہوں نے اس خدمت کو بھی بہ احسن وجوہ انجام دیا۔ دوسروں سے کتابیں لکھوانے کے علاوہ خود بھی دو تین ضخیم کتابوں کے ترجمے کئے۔

1937ء میں آل انڈیا ریڈیو کا محکمہ قائم ہوا تو مسٹر فیلڈن اس کے کنٹرولر مقرر ہوئے۔ انہوں نے پطرس کی خدمات مستعار لے کر انہیں اپنا نائب مقرر کیا۔ 1940ء میں کنٹرولر جنرل مقرر ہوگئے۔ قیام پاکستان سے کچھ پہلے گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل بنا دیئے گئے۔ گورنمنٹ کالج ہی سے وہ پاکستان کے نمائندے کی حیثیت سے لندن بھیجے گئے۔ 1948ء میں میکسیکو میں ریڈیو کی بین الاقوامی کانفرنس میں پاکستان کے نمائندے کی حیثیت سے شرکت کی۔

 1950ء میں لیاقت علی خان کے دورئہ امریکا کے موقع پر وہ ہر جگہ ان کے ساتھ رہے۔ اس دوران انہوں نے اتنی محنت کی کہ ان کی صحت خراب رہنے لگی لیکن اس محنت کا انہیں یہ صلہ ملا کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب نامزد کردیئے گئے۔ 1954ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ 1955ء میں شعبہ اطلاعات کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مقرر ہوگئے۔ اس عہدے سے 15؍اپریل 1959ء کے آخر میں سبکدوش ہونے والے تھے کہ 5؍دسمبر 1958ء کی صبح کو نیویارک میں حرکت قلب بند ہونے سے فوت ہوگئے۔

احمد شاہ پطرس بخاری نہایت ذہین، روشن دماغ، بے حد ہنس مکھ، خوش پوشاک، خوش گفتار، ماہر تعلیم، انگریزی اور اردو کے صاحب طرز ادیب، منفرد مزاح نگار اور کامیاب سفیر تھے۔

ذیل میں پطرس بخاری کے زندہ دلی کے چند نمونے ملاحظہ کریں۔

یہ صحیح بخاری ہیں… پطرس کے کسی دوست نے ایک مرتبہ ایک بذلہ سنج بزرگ سے ان کا تعارف کرایا۔ وہ صاحب ان کے چھوٹے بھائی سید ذوالفقار علی بخاری کو جانتے تھے چنانچہ یہ کہہ کر ملاقات کرائی گئی کہ سید ذوالفقار علی شاہ کے بڑے بھائی سید احمد شاہ بخاری ہیں۔ بذلہ سنج بزرگ نے برجستہ کہا۔ ’’تو یوں کہئے کہ یہ صحیح بخاری ہیں۔‘‘

……٭…٭…٭……

صحیح بخاری اور کلام مجید… کرنل مجید نے ایک دن پطرس بخاری سے کہا۔ اگر آپ اپنے مضامین کا مجموعہ چھپوائیں تو اس کا نام صحیح بخاری رکھیں۔

پطرس نے جواب دیا کہ اگر آپ اپنی نظموں کا مجموعہ چھپوائیں تو تو اس کا نام کلام مجید رکھیں۔

……٭…٭…٭……

اخروٹ… پطرس بخاری کے بھائی زیڈ۔اے بخاری کے گھر احباب جمع تھے۔ اندر سے مہمانوں کی تواضع کیلئے خشک میوے کی ایک پلیٹ آئی جس میں کچھ اخروٹ بھی تھے۔ بخاری صاحب نے ایک اخروٹ اٹھایا اور ایک تالے کی مدد سے اسے توڑنے کی کوشش کرنے لگے۔ متواتر کئی چوٹیں مارنے کے بعد بھی وہ اخروٹ نہ ٹوٹا تو پیشانی پر خفت اور ندامت کے آثار نمایاں ہوگئے مگر چند لمحوں کے بعد ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ انہوں نے کہا۔ بھئی اس اخروٹ کو سنبھال کر رکھو، یہ اخروٹ وہ ہے جو تالے توڑنے کے کام آتا ہے۔